جرم و انصاف

ایران نے کیسے ایک مخالف کو دھوکا دے کر فرانس سے پھانسی تک پہنچایا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

یہ فائل فوٹو جو کہ 2 جون کو لی گئی ہے، میں روح اللہ زم جو کہ فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والا، حزب مخالف کا سابقہ راہنما ہے، تہران میں ایران کی انقلابی عدالت میں اپنے مقدمے کے دوران بول رہا ہے۔ 12 دسمبر کو زم کو ایران میں پھانسی دے دی گئی۔ [علی شیربند/ میزان نیوز/ اے ایف پی]

یہ فائل فوٹو جو کہ 2 جون کو لی گئی ہے، میں روح اللہ زم جو کہ فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والا، حزب مخالف کا سابقہ راہنما ہے، تہران میں ایران کی انقلابی عدالت میں اپنے مقدمے کے دوران بول رہا ہے۔ 12 دسمبر کو زم کو ایران میں پھانسی دے دی گئی۔ [علی شیربند/ میزان نیوز/ اے ایف پی]

پیرس -- اکتوبر 2019 میں، ایرانی مخالف روح اللہ زم، پیرس میں قائم خبروں کی ایک ویب سائٹ چلا رہا تھا جسے کافی زیادہ لوگ فالو کرتے تھے، اس کا خاندان بھی اس کے ساتھ تھا اور وہ نہ صرف مہاجر کی حثیت سے فائدہ اٹھا رہا تھا بلکہ جلاوطنی کے ملک میں محفوظ بھی تھا۔

مگر صرف ایک سال بعد ہی، 12 دسمبر کو زم کو ایران میں پھانسی دے دی گئی اور اس سزائے موت پر بین الاقوامی برادی کی طرف سے مذمت نے جنم لیا۔

زم فرانس میں اپنی آرام دہ زندگی سے، کیسے صرف 47 سال کی عمر میں، اپنے ملک میں، جس کے راہنماوں کو اس نے اپنے کام میں نشانہ بنایا تھا، ایک جلاد کے ہاتھوں وفات پا جانے تک پہنچا؟

اس کے والد محمد علی زم ابھی بھی ایران میں رہنے والے ایک عالم ہیں، اور وہ کسی وقت میں، ایران کے ثقافتی اداروں میں ایک سینئر شخصیت تھے۔

1979 کے اسلامی انقلاب، جس نے شاہ کا تختہ الٹا تھا، کے لیے ان کی حمایت اس قدر شدید تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا نام اس کے بانی، روح اللہ خمینی کے نام پر رکھا تھا۔

فرانس میں روح اللہ کے ساتھیوں اور ہم منصبوں کا کہنا ہے کہ ہماری طرف سے خطرے کے بارے میں کی جانے والی تنبیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ایسے دھوکے کا شکار ہونے کے بعد، جسے ان کے کردار کے استحصال کے لیے تیار کیا گیا تھا، انہوں نے اکتوبر 2019 میں عراق کا دورہ کرنے کی غلطی کی۔

پیرس میں مقیم ایرانی قلمکار اور ایک مہاجر، مہتاب گوربانی جو کہ زم کے ساتھ کام کرتے تھے، نے کہا کہ "انہوں نے عراق جا کر ایک خطرناک کھیل کھیلا جس میں وہ شکست پا گئے"۔

"انہیں ایک گندے نفسیاتی کھیل میں دھکیل دیا گیا جسے اس حکومت نے تیار کیا تھا"۔

ایرانی حکومت کے خلاف دباؤ ڈالنا

تقریبا نصف دہائی تک فرانس کا شہری رہتے ہوئے، روح اللہ نے اپنے ٹیلیگرام چینل عمادنیوز پر تقریباً دو ملین فالورز کو متوجہ کیا، 2017 سے 2018 کے موسمِ سرما میں ہونے والے مظاہروں کے دوران لوگوں کی حوصلہ افزائی کہ وہ مظاہروں میں شرکت کریں اور بعض اوقات انہوں نے ایرانی قیادت کے بارے میں سنسنی خیز الزامات بھی شائع کیے۔

ایک بارسوخ شخص کی مراعات یافتہ اولاد ہونے کے ناطے، زم کے تہران میں اچھے تعلقات تھے، جنہیں انہوں نے 2009 کے متنازعہ انتخابات کے بعد شروع ہو جانے والے مظاہروں کے بعد، ملایشیاء اور ترکی اور وہاں سے فرانس جانے کے بعد بھی، قائم رکھا تھا۔

ایک دوست اور ساتھی ایرانی مہاجر، میزیار جو کہ عمادنیوز میں کام کرتے ہیں اور انہوں نے اپنا پورا نام شائع نہ کرنے کی درخواست کی ہے، کہا کہ "جب صاحبِ اختیار لوگوں کے درمیان اقتدار کی جنگیں ہوتیں تو وہ زم کی طرف آتے"۔

"اس نے کسی حد کے بغیر معلومات فراہم کیں، اس کی کوئی حد نہیں تھی۔ وہ نہ تو صدر کا احترام کرتے تھے اور نہ ہی راہنمائے اعلی کا، کسی کا بھی نہیں۔ وہ اپنے ہی والد کا مذاق بھی اڑاتے تھے"۔

مگر عمادنیوز کی کامیابی اور زم کی اپنی بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی ان کے خاتمے کا باعث بنی کیونکہ ٹیلیگرام نے، فالورز کو پولیس کے خلاف آتش گیر بم استعمال کرنے پر اکسانے کے باعث ان کا اکاونٹ معطل کر دیا۔

زم کا اثرورسوخ بظاہر کم ہوتا ہوا نظر آنے لگا۔ یہاں تک کہ ان کے دوستوں نے بھی سوال اٹھانا شروع کر دیا کہ کیا وہ ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے زیادہ ہی زور لگا رہا ہے۔

'پھندے میں گرنے کے لیے' بااعتماد

پیرس کے ایک وکیل، حسن فرشتیان جنہوں نے زم کی راہنمائی کی تھی، کہا کہ "روح اللہ بہت زیادہ مشہور ہو گیا۔ اس نے حکومت کا تختہ الٹنے کی وکالت کی اور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے خود کو ایک راہنما سمجھنا شروع کر دیا ہو"۔

انہوں نے کہا کہ "آہستہ آہستہ وہ دوستوں سے محروم ہوتے گئے"۔

گوربانی نے کہا کہ "وہ تنہا اور لوگوں سے کٹے ہوئے تھے اور جلاوطن ایرانی اپوزیشن کا ایک حصہ ان پر اعتماد نہیں کرتا تھا"۔

انہیں بہت زیادہ دھمکیاں بھی مل رہی تھیں جس کے باعث فرانسیسی پولیس نے انہیں حفاظت فراہم کرنا بھی شروع کر دی۔

ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ زم کے لیے ایک تاریک دور تھا، ایک انتہائی پرجوش شخص جنہیں ڈر تھا کہ انہوں نے ذرائع ابلاغ میں جو موجودگی اتنی تیزی سے بنائی ہے وہ اب تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔

میزیار نے کہا کہ "وہ ایسے مقام پر تھا جہاں وہ غلط فیصلے کر سکتا تھا اور پھندے میں پھنس سکتا تھا"۔

اکتوبر 2019 کے وسط میں، وہ فریشتیان کے پیرس کے دفتر میں آئے اور انہوں نے حیران شدہ وکیل کو بتایا کہ وہ ایک اہم شیعہ عالم علی السیستانی کا انٹرویو کرنے کے لیے، عراق کا سفر کرنے جا رہے ہیں۔

'تم کبھی واپس نہیں آو گے'

اس انٹرویو سے مبینہ طور پر ایک نئے ٹیلی ویژن چینل کا آغاز کیا جانا تھا جس کی تجویز ایسے شخص نے دی تھی جو ایرانی تاجر ہونے کا دعوی کرتا تھا۔

عراق میں ایران کے سیکورٹی کے اثر و رسوخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، زم کے ساتھیوں نے فوراً خطرے کو بھانپ لیا۔

فریشتیان نے کہا کہ "میں چیخا چلایا، میں نے اس بتایا :اگر تم گئے تو یہ اختتام ہو گا، تم کبھی بھی فرانس واپس نہیں آو گے"۔

پھر بھی زم عمان چلا گیا اور وہاں سے اگلے دن بغداد پرواز کر گیا۔

میزیار نے کہا کہ "ہر کسی نے اسے نہ جانے کا مشورہ دیا، یہاں تک کہ اس کے باڈی گارڈ نے بھی مگر اس کا یہ سادہ سا جواب تھا کہ وہ انتظار کرتے کرتے تھک گیا ہے۔ اور افسوس کی بات کہ وہ چلا گیا"۔

زم نے عمان کے ہوائی اڈے سے اپنی اہلیہ کو فون کیا مگر وہ جیسے ہی بغداد پہنچا، اسے بظاہر گرفتار کر لیا گیا۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن پر بعد میں دیکھی جانے والی فوٹیج میں نظر آتا ہے کہ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی، اور اسے ایک گاڑی میں ڈال کر ایرانی سرحد تک لے جایا گیا۔

گزشتہ جولائی میں، ان کا سرکاری ٹیلی ویژن پر انٹرویو کیا گیا، جو کہ ایران میں قیدیوں پر استعمال کیا جانے والا طریقہ کار ہے جسے سرگرم کارکن تشدد کے ذریعہ اقبالِ جرم کرنے کا طریقہ تصور کرتے ہیں۔

ان کا انٹرویو ایک پروگرام میں کیا گیا جس کا نام "تعریف کے بغیر" ہے اور اسے علی رضوانی کرتے ہیں جو سرکاری براڈکاسٹر آئی آر آئی بی کے باضابطہ صحافی ہیں مگر مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ وہ درحقیقت سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کے ایک تفتیش کار ہیں۔

'غیر معمولی جلدی' کے ساتھ عملدرآمد

زم کو جن الزامات پر سزا دی گئی ان میں "بدعنوانی کو بونا" اور غیر ملکی انٹیلیجنس، جس میں فرانس اور اسرائیل شامل ہیں، کے لیے جاسوسی کرنا بھی شامل ہے۔ ان الزامات کی انہوں نے اور ان کے حامیوں نے سختی سے تردید کی ہے۔

12 دسمبر کو انہیں دی جانے والی پھانسی، سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے کے صرف چار دن بعد ہی واقع ہو گئی اور یہ ایک غیر معمولی جلدی تھی۔

ان کے والد نے اپنے انسٹا گرام اکاونٹ پر لکھا کہ انہیں پھانسی، جس کے بارے میں روح اللہ کو نہیں بتایا گیا تھا، سے ایک دن پہلے اپنے بیٹے سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔

ان کی بیٹی نیاز نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ان کے والد نے، پھانسی دیے جانے سے چند گھنٹے پہلے -- واٹس ایپ پر انہیں فون کیا -- برطانیہ کے +44 کے ایک نمبر سے، جس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔

انہوں نے لکھا کہ "مجھے پتہ تھا کہ یہ اختتام ہے اور سب سے مشکل بات یہ تھی کہ مجھے علم تھا کہ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی"۔

امریکہ اور یورپ نے پھانسی پر غصے کا اظہار کیا جبکہ اقوامِ متحدہ کی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے کہا کہ "اس بار میں انتہائی تشویش" موجود تھی کہ زم کی ایران سے باہر گرفتاری "ایک اغوا ہو سکتی تھی"۔

مگر ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ہلاکت سے ایران اور یورپ کے درمیان تعلقات خراب ہوں گے اور انہوں نے حوالہ دیا کہ سزائے موت ایران کے قانون کا حصہ ہے۔

ایرانی مخالفین کے لیے ایک پیغام

فرانس میں رہنے والے مخالفین کے لیے یہ پھانسی ایک انتباہ تھی کہ ملک سے باہر بھی ان کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

گوربانی نے کہا کہ"اس پھانسی سے، وہ حکومت کے وفاداروں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی ایران کے باہر مخالفین کو اپنی طاقت دکھانا اور ان میں بے چینی کا بیج بونا چاہتے تھے"۔

امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق، ایرانی حکومت نے اسلامی انقلاب کے بعد سے، ایران کے باہر 360 سے زیادہ افراد کو قتل کیا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ "زیادہ تر آئی آر جی سی کی غیر ملکی شاخ (قدس فورس)، اسلامی جمہوریہ کی انٹیلیجنس کی وزارت یا پراکسی گروہوں جیسے کہ لبنان کی حزب اللہ کے ذریعے" 40 ممالک میں قتل کیے گئے۔

قتل کیے جانے والے تقریبا تمام افراد مخالفین تھے یا اسلامی جہموریہ کی حزبِ اختلاف کے ارکان تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500