تجزیہ

ایران کا میزائل پروگرام: ناکامی اور ناگہانی آفت کی ایک طویل تاریخ

از پاکستان فارورڈ

15 جنوری کو ایران میں ایک جنگی مشق کے دوران موبائل میزائل لانچرز کا ایک مجموعہ داغا گیا ہے۔ [آئی آر جی سی]

15 جنوری کو ایران میں ایک جنگی مشق کے دوران موبائل میزائل لانچرز کا ایک مجموعہ داغا گیا ہے۔ [آئی آر جی سی]

سیاروں کو فضاء میں چھوڑنے میں ناکامی سے لے کر یوکرائن کی بین الاقوامی فضائی کمپنی کی پرواز 752 کو مار گرانے کی جان لیوا غلطی تک، ایران کی سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کی میزائل ناکامیوں اور خجالتوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔

میزائل کے حفاظتی طریقہ ہائے کار پر ناکافی توجہ دینا، خراب آلات اور فرسودہ ٹیکنالوجی نے ناکامی کے اس ٹریک ریکارڈ میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اس کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کے بارے میں، ایران کا ریکارڈ، خصوصاً گزشتہ دہائی میں، حفاظتی اقدامات، موزوں استعمال اور تربیت میں لاپرواہ طرزِعمل کے اظہار کا ہے۔

ایرانی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ تجزیہ کار کے مطابق، ایران کی بیشتر عسکری ٹیکنالوجی ریورس انجینیئرنگ کے ذریعے بنی ہے یا روس، چین یا جنوبی کوریا سے خریدی گئی ہے۔

26 ستمبر 2019 کو ایرانی فوج اور آئی آر جی سی کی جانب سے 'ہفتۂ دفاع' کے دوران ایک گلی میں ایک زمین سے زمین پر مار کرنے والے شہاب-3 میزائل کی نمائش کی جا رہی ہے۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

26 ستمبر 2019 کو ایرانی فوج اور آئی آر جی سی کی جانب سے 'ہفتۂ دفاع' کے دوران ایک گلی میں ایک زمین سے زمین پر مار کرنے والے شہاب-3 میزائل کی نمائش کی جا رہی ہے۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

2 فروری 2009 کو اسلامی جمہوریہ میں ایک نامعلوم مقام پر ایرانی پرچم لہرا رہا ہے جبکہ ایک ایران ساختہ سفیر قسم کا راکٹ ایک لانچ پیڈ پر کھڑا ہے جو سیارچے کو مدار میں لے جانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

2 فروری 2009 کو اسلامی جمہوریہ میں ایک نامعلوم مقام پر ایرانی پرچم لہرا رہا ہے جبکہ ایک ایران ساختہ سفیر قسم کا راکٹ ایک لانچ پیڈ پر کھڑا ہے جو سیارچے کو مدار میں لے جانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ [ایس ٹی آر/اے ایف پی]

تجزیہ کار، جس نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی تھی، نے کہا، "ان میں سے کوئی بھی ملک حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کافی تربیت یا اعانت فراہم نہیں کرتا۔"

امریکی پابندیوں نے ایران کی جوہری طاقت بننے کی مہم کو معقول حد تک سست کر دیا ہے اور نتیجے میں اس کے میزائل پروگرام میں رکاوٹ ڈالی ہے، پھر بھی حکومت میزائل ٹیکنالوجی پر کروڑوں کا خرچہ کرنا جاری رکھے ہوئے ہے.

مثال کے طور پر، صرف سوموار (1 فروری) کو ہی، ایرانی وزیرِ دفاع نے کہا کہ اس نے ایک نئے سیارہ بردار کو جانچا ہے جو مبینہ طور پر 220 کلوگرام وزن لے جا سکتا ہے۔

اور جبکہ حکومت ہتھیاروں اور پراکسی جنگوں میں کروڑوں جھونک رہی ہے، ایرانی حکومت اور بدتر ہوتے جا رہے معاشی بحران سے مزید غیر مطمئن ہوتے جا رہے ہیں.

خلائی پروگرام کی ناکامیاں

ایران کا خلائی پروگرام، جس میں راکٹوں کو خلاء میں جانے والی گاڑیوں (ایس ایل ویز) کے طور پر رکھا گیا ہے، حالیہ برسوں میں متواتر ناکامی سے دوچار ہوا ہے، بشمول 29 اگست 2019 کو لانچنگ کے دوران سفیر ایس ایل وی کا دھماکے سے پھٹ جانا۔

ایران کی ایک سیارہ مدار میں بھیجنے کی کوششیں 2020 میں بھی جاری رہیں، اور ناکام ہوئیں۔ گزشتہ فروری میں ایک ناکام لانچنگ مسلسل چوتھی باری تھی جب ایران سنہ 2017 کے بعد سے کامیابی کے ساتھ ایک سیارہ خلاء میں بھیجنے سے قاصر رہا ہے۔

ایران نے کہا تھا کہ اس نے 9 فروری کو "کامیابی" کے ساتھ ایک سیارہ لانچ کیا تھا مگر اسے مدار میں بھیجنے میں ناکام رہا، جو کہ اس کے خلائی پروگرام کے لیے ایک دھچکہ ہے جسے امریکہ مبینہ طور پر میزائل کی تیاری کے لیے ایک پردہ قرار دیتا ہے۔

بعد ازاں، 22 اپریل کو، آئی آر جی سی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک سیارہ -- نور-1 -- مدار میں بھیجا ہے۔ مگر جنرل جے ریمنڈ، جو امریکی خلائی کمان (سپیس کام) کے سربراہ ہیں، کے مطابق، نام نہاد "سیارہ" درحقیقت ایک "قلابازیاں لگاتا ہوا ویب کیم" ہے۔

25 اپریل کو ان کا کہنا تھا، "سپیس کام دو اجسام کا تعاقب کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔ جو ایران کی جانب سے خلاء میں چھوڑے گئے ہیں، جسے نور-1 سیارہ کہا گیا ہے جو کہ ایک تھری یو کیوب سیٹ ہے۔"

مہلک داخلی غلطیاں

آئی آر جی سی بہت سی ناکام انتقامی کاروائیوں میں بھی ملوث رہی ہے۔

7 جون 2017 کو، "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے پانچ جنگجوؤں نے تہران میں، ایرانی پارلیمنٹ (مجلس) کی عمارت اور اسلامی جمہوریہ کے بانی روح اللہ خمینی مزار پر ایک مسلح حملہ کیا۔ حملے میں 17 عام شہری مارے گئے اور 43 زخمی ہوئے۔

جواب میں، آئی آر جی سی نے "آپریشن لیلۃ القدر" شروع کیا، جس میں شام کے مشرقی صوبہ دیر ایزور میں داعش کی پوزیشنوں کو میزائل حملوں کے ساتھ نشانہ بنایا گیا۔

آپریشن کے چھ میزائلوں میں سے کم از کم چار میزائل نشانے سے چُوک گئے۔

8 جنوری 2020 کو، آئی آر جی سی کے ایک اہلکار نے کئیف کو جانے والی یوکرائن کی بین الاقوامی فضائی کمپنی کی پرواز 752 کو غلط شناخت کیا جس نے ابھی تہران کے امام خمینی بین الاقوامی فضائی اڈے سے اڑان بھری ہی تھی، یہ ایک ایسی غلطی تھی جس میں جہاز میں سوار -- 176 عام شہریوں -- میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچا۔

اہلکار نے آئی آر جی سی کی کمان کے ساتھ ہدف کی تصدیق کرنے کے لیے کیے جانے والے رابطے میں خرابی پڑنے کے بعد ہوائی جہاز پر تین راکٹ داغ دیئے۔ ایرانی حکام نے، البتہ تین روز بعد، تصدیق کی کہ ہوائی جہاز کو دو میزائل لگے تھے۔

مگر گزشتہ برس کا جان لیوا واقعہ، جس کے لیے کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا یا حتیٰ کہ ذمہ داری کا تعین تک نہیں کیا گیا، حالیہ یادداشت میں پہلی بار نہیں تھا کہ آئی آر جی سی کا ہدف کو گرانے کے لیے میزائلوں کا استعمال غلط ہو گیا -- اور غیر ضروری اموات کا سبب بنا۔

ایک علیحدہ واقعے میں، 11 مئی کو خلیجِ عمان میں ایک تربیتی مشق کے دوران ایرانی بحریہ نے معاون جہاز کوناراک کو نشانہ بنا دیا

عملے کے اُنیس ارکان مارے گئے، اور مزید 15 زخمی ہو گئے تھے۔

ایرانی حکام کے مطابق، واقعہ ایران کے جنوبی ساحل سے باہر، بندرِ جاسک کے قریب پیش آیا، جن کا کہنا تھا کہ جہاز اس وقت نشانہ بنا جب ایک مشقی ہدف اپنی منزل سے منتقل ہوا اور اس کے اپنے اور ہدف کے درمیان کافی فاصلہ پیدا نہ ہو سکا۔

ایرانی عوام کی جانب سے چکائی جانے والی قیمت

آپریٹروں اور سامان کی ناکامیوں کا سلسلہ جاری ہے، اگرچہ صرف 2017 میں ہی، ایران کے قانون سازوں نے ایران کی میزائل صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے 520 ملین ڈالر مختص کیے تھے -- ایک ایسا اقدام جس کا مقصد امریکی پابندیوں سے اعلانیہ سرکشی کا مظاہرہ کرنا تھا۔

گزشتہ جون میں ایران کے سب سے بڑے اور پیچیدہ ترین ہتھیاروں کے ڈپوؤں میں سے ایک، خوجیر میزائل مرکز میں ہونے والے ایک دھماکے نے تہران کے مشرق میں پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

آئی آر جی سی کے حکام نے دھماکے کے لیے ایک نامعلوم گیس لیکیج کو موردِالزام ٹھہرایا تھا، مگر دھماکہ تقریباً ایک ہی وقت ہونے والے تین بڑے دھماکوں میں سے ایک تھا، بشمول صوبہ اصفہان میں ناتانز سینٹری فیوجز کی تیاری کی عمارت میں 2 جولائی کو ہونے والا دھماکہ۔

جون کے آخر اور اکتوبر کے وسط کے درمیان، کم از کم 10 دیگر بڑے واقعات رونما ہوئے، بشمول پیٹروکیمیکل عمارات اور توانائی کے پلانٹس پر آتشزدگیاں اور دھماکے۔

حتیٰ کہ جیسے آئی آر جی سی اپنے بڑی تعداد میں میزائلوں کی ڈینگیں مارتی ہے، جن کا مقصد ایران کے محسوس کردہ دشمنوں کو باز رکھنا ہے، یہ اپنے میزائل پروگرام کی حفاظت کرنے کے لیے موزوں اقدامات کرنے میں قاصر رہی ہے۔

آئی آر جی سی کے حکام اپنی ناکامیوں کو تواتر کے ساتھ گھٹا کر بیان کرتے ہیں اور شاذونادر ملنے والی کامیابیوں پر شیخی بگھارتے ہیں۔ ایرانی حکام جس طرف اشارہ کرنے میں ناکام رہے ہیں وہ لامحدود لاگت ہے جو ایران کے ناقص طریقے سے سنبھالنے گئے میزائل پروگرام نے اس کے عوام پر مسلط کر دی ہے۔

2 دسمبر کو، ایرانی حکومت نے 21 مارچ کو شروع ہونے والے، اگلے مالی سال کے لیے تقریباً 33.7 بلین ڈالر کے ریاستی بجٹ کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔

مسودہ بنائے گئے بجٹ کی قدر تقریباً 8،413 ٹریلین ایرانی ریال مقرر کی گئی ہے -- جو کہ ریال کے لحاظ سے پچھلے سال کے اعدادوشمار سے 74 فیصد زیادہ ہے مگر ایرانی کرنسی میں تیزی کے ساتھ گراوٹ کی وجہ سے اصل ذخائرِ زر میں 5 بلین ڈالر نیچے ہے۔

قومی کرنسی، ریال، بے تحاشہ گر رہا ہے، جو کہ سنہ 2015 کے بعد سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں 500 فیصد سے زیادہ گر چکا ہے، اور صرف 2018 کے بعد سے 320 فیصد گر گیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500