رواداری

داعش کی 'خلافت' کے خباثت بھرے برسوں کے بعد یوکرینی خواتین ایک نئی ابتدا کے لیے پرامید

اے ایف پی

16 فروری کو الیمے عباسوفا اپنے خاوند کے رشتہ داروں کے قصبے کریمینچوک کا سفر کرنے سے قبل کیف کے باہر کوزن گاؤں میں ایک سینیٹوریم، جہاں اسے قرنطینہ کیا گیا تھا، چھوڑنے سے چند منٹ قبل اے ایف پی سے بات کر رہی ہیں۔ [گینژا ساویلوف/اے ایف پی]

16 فروری کو الیمے عباسوفا اپنے خاوند کے رشتہ داروں کے قصبے کریمینچوک کا سفر کرنے سے قبل کیف کے باہر کوزن گاؤں میں ایک سینیٹوریم، جہاں اسے قرنطینہ کیا گیا تھا، چھوڑنے سے چند منٹ قبل اے ایف پی سے بات کر رہی ہیں۔ [گینژا ساویلوف/اے ایف پی]

کوزن، یوکرین – الیمے عباسوفا اپنے خاوند کی پیروی میں اور شام میں "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے تحت ایک باعزت زندگی کے وعدوں پر یوکرین چھوڑنے کے چھ برس بعد ایک نئی ابتدا کے لیے پرامّید، وطن واپس پہنچی۔

عباسوفا کا سفر پہلے اسے روسی مقبوضہ جزیرہ نمائے کریمیا سے نام نہاد "خلافت" میں، اور پھر، اس گروہ کی شکست کے بعد، ان کیمپوں میں لے گیا جہاں کرد حکام کی زیرِ نگرانی داعش کے اہلِ خانہ اور ہمدردوں کو رکھا گیا تھا.

پانچ بچوں کی 37 سالہ ماں نے یومِ سالِ نو پر اپنی واپسی کے بعد کہا، "وہ کہتے ہیں ناں: ہم سب غلطیاں کرتے ہیں، خدا کا شکر ہے جو ہوا اب وہ قصّہٴ پارینہ ہے۔"

وسطی یوکرائن میں سوویت دور کے ایک اسپا میں، جہاں انہیں قرنطینہ کیا گیا تھا اور جہاں وہ مستقبل کے منصوبے بنا رہی تھیں، عباسوفا نے کہا: "اب میں صرف بہترین کے لیے پرامّید ہوں۔"

مشتبہ طور پر داعش سے منسلک افراد کی 19 جنوری کو شمال مشرقی شام میں الحول کیمپ سے رہائی کے دوران ایک شخص ایک بچے کو اٹھائے ہوئے خواتین اور بچوں کے ہمراہ، شامی کرد داخلی سلامتی سروسز (آسائش) کے ایک رکن کے آگے آگے ٹرک کی طرف چل رہا ہے۔ [دیلِل سلیمان/اے ایف پی]

مشتبہ طور پر داعش سے منسلک افراد کی 19 جنوری کو شمال مشرقی شام میں الحول کیمپ سے رہائی کے دوران ایک شخص ایک بچے کو اٹھائے ہوئے خواتین اور بچوں کے ہمراہ، شامی کرد داخلی سلامتی سروسز (آسائش) کے ایک رکن کے آگے آگے ٹرک کی طرف چل رہا ہے۔ [دیلِل سلیمان/اے ایف پی]

گزشتہ ماہ صدر ویلادیمیر زیلینسکی نے عباسوفا اور واپس لوٹنے والی ایک اور خاتون کا علی الاعلان خیرمقدم کیا۔

انہوں نے کہا، "یوکرائن ہمیشہ اپنے شہریوں کو وطن واپس لائے گا، خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں سے بھی اس ابتلا میں پھنسے ہوں۔"

داعش ایک ’پھندا‘

یہ سابقہ سوویت ملک، لاکھوں کریمیائی تاتاروں کا وطن ہے، جن میں سے بیشتر کریمیا میں مقیم ایک ایسی مسلمان اقلیت ہیں، جنہوں نے 2014 میں اس جزیرہ نما پر روسی تسلط کی مخالفت کی اور سیاسی انتقام کے خوف سے فرار ہو گئے۔

عباسوفا نے کہا کہ اسے اور اس کے خاوند کو داعش کے زیرِ انتظام علاقہٴ عملداری میں جانے پر ایک ایسے دوست نے بہکایا، جس نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ نام نہاد "خلافت" میں جوتوں کی مرمت کا اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔

اس نے اپنے شوہر کے پیچھے جانے کے اپنے فیصلے کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا، "میں نہیں چاہتی تھی کہ شوہر کے بغیر رہ جاؤں۔ اس وقت میرے دو بچے تھے۔"

اس نے متعدد لوٹنے والوں اور داعش سے منسلک زیرِ حراست افراد کے ہم آواز کہا کہ جلد ہی شام میں زندگی سے متعلق اس کا فریب جاتا رہا اور وہ اس گروہ کی جانب سے اسلام کی وحشیانہ توضیع سے "مایوس" تھی۔

اس نے داعش کو ایک "پھندے" کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ، واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا، "تمام راستے بند تھے۔"

"اگر آپ فرار ہونے کی کوشش کرتے تو وہ پیچھے سے آپ کو گولی مار سکتے تھے۔"

عباسوفا نے کہا کہ اس نے اور اس کے خاوند نے جو چار برس شام میں گزارے، اس گروہ کی قیادت نے کبھی ان کو ہتھیار اٹھانے کو نہیں کہا۔

لیکن کرد افواج اس دعویٰ کی تصدیق نہیں کرتیں، جنہوں نے 2019 میں ان کے ہتھیار ڈالنے کی درخواست کو منظور کیا اور اس خاوند اور بیوی کو حراست میں الگ کیا۔

عباسوفا، جس کو ان کے بچے سپرد کیے گئے، نے کہا، "یہ آخری بار تھی جب میں نے اپنے خاوند کو دیکھا۔"

س نے کہا کہ اس نے کردوں کے زیرِ انتظام کیمپوں، الحول اور روج میں تقریباً دو برس گزارے، جہاں 2019 میں داعش شکست کے بعد سے داعش جنگجوؤں اور حامیوں کے دسیوں ہزاروں رشتہ دار رکھے گئے تھے ۔

’جہنم سے گزر‘

اس نے خیموں کے ان وسیع و عریض شہروں – جہاں اقوامِ متحدہ نے حال ہی میں بڑی تعداد میں قتل کے واقعات کی خبر دی – میں زندگی کو "نہایت مشکل" بیان کیا۔

ان کیمپوں میں کم از کم 10 مزید یوکرائنی خواتین اور کوئی 30 کے قریب بچے رہتے ہیں، جنہیں یوکرائن واپس لانے کے لیے تاتار برادری کے رہنما کام کر رہے ہیں۔

اہلِ خانہ کی جانب سے درخواستوں کے بعد 2019 میں رہائی کی کاوشوں کی قیادت کرنے والے برادری کے ایک رہنما، رفعت چوباروف نے وزارتِ خارجہ، ریڈ کراس اور امریکی سفارتکاروں پر مشتمل مذاکرات کی تفصیل بیان کی۔

انہوں نے کہا کہ اس عمل میں بھی "سپیشل سروسز پہلے سے ملوث تھیں۔"

تاہم انہوں نے یہ امر واضح کیا کہ نہ تو وہ خود اور نہ ہی یوکرائنی حکام رضاکارانہ طور پر شام جانے والے افراد کو وطن واپس لانے کے خواہاں ہیں۔

چوباروف نے کہا کہ انہوں نے یوکرائن واپس لوٹنے والی دو خواتین کو ایک نیا آغاز کرنے اور "زندگی میں واپس لوٹنے" کی ترغیب دلائی۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ان سے کہا، "وہ اپنے گرد کی دیگر خواتین کی نسبت زیادہ کامیاب یو سکتی ہیں، کیوں کہ انہوں نے وہ سب دیکھا ہے جو متعدد دیگر نے نہیں دیکھا، وہ ایک جہنم سے گزرے ہیں۔"

جیسا کہ وہ زندگی اب یادِ رفتہ ہو چکی ہے جسے عباسوفا چھ برس قبل پیچھے چھوڑ آئی تھی، اس کے پاس چند دیگر انتخابات ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ وسطی یوکرائن میں کریمینچک جانے کا ارادہ رکھتی ہے، جہاں اس کے خاوند کا خاندان اس کا اور بچوں کا منتظر ہے۔

اپنے خاوند کو دوبارہ دیکھنے کی خال امّیدوں کے ساتھ، عباسوفا نے کہا کہ اب اس کی توجہ اپنے پانچ بچوں – تین بیٹوں اور دو بیٹیوں، جن کی عمریں 2 برس اور 14 برس کے درمیان ہیں – پر ہے۔

عباسوفا نے کہا، "میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتی ہوں۔ انہیں پروان چڑھنا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500