ووہان، چین -- جیسے جیسے ووہان، کووڈ- 19 کرونا وائرس کی وباء کے پھوٹ پڑنے کے بعد، 76 دنوں کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاون کے آغاز، کا ایک سال گزرنے کو منانے کی تیاری کر رہا ہے، بیجنگ وائرس کو قابو میں کرنے کے بارے میں ملک کے بیانیے کو نئی شکل دینے کے لیے بے چین ہے۔
ووہان کی بدنامِ زمانہ مچھلی منڈی کے گرد ابھی بھی رکاوٹیں کھڑی ہیں - - جو کہ ان چند فوری یاد دہانیوں میں سے ایک ہیں کہ شہر کسی زمانے میں کرونا وائرس کی وباء کا مرکزی مقام تھا، جس نے دو ملین سے زیادہ افراد کو ہلاک اور عالمی معیشتوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
ہفتہ (23 جنوری) کو شہر، جہاں کووڈ-19 کی 2019 کے آخیر میں پہلی بار تشخیص ہوئی تھی، کی طرف سے وباء کو روکنے کے لیے لاک ڈاون نافذ کیے جانے، کو ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔
چین میں وائرس سے مرنے والوں کی سرکاری طور پر تعداد 5,000 سے کم بتائے جانے کے ساتھ، بیجنگ اپنے اس بیانے کی تشہر کرنے کے لیے طویل فاتحانہ چکر لگا رہا ہے کہ اس نے کووڈ - 19 کو کیسے قابو کیا، ویکسین تیار کی اور اپنی معیشت کو دوبارہ سے بحال کر لیا۔
چین نے اس ہفتے 2020 میں جی ڈی پی میں 2.3 فیصد اضافے کی خبر دی -- جو کہ کئی دہائیوں میں سست ترین ہے مگر پھر بھی ایسی واحد بڑی معیشت ہے جس نے اس وباء کے دوران مثبت اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔
جیسے ہی سرکاری اعداد و شمار جاری کیے گئے، حکومتی ذرائع ابلاغ نے چین کی معیشت کی "لچک اور قُوَّت حیات" کے دعوے کیے مگر وہ ہلاکتوں کے بارے میں خاموش رہے۔
اس وباء سے منافع کمانے کے لیے، چین نے پی پی ای بنانے کے بہت بڑی کوشش کا آغاز کیا تاکہ اس کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ 2020 کے پہلے چھہ ماہ کے دوران 73,000 سے زیادہ کمپنیوں نے ماسک بنانے والوں کے طور پر خود کو رجسٹر کیا -- جن میں صرف اپریل ہی میں رجسٹر ہونے والی 36,000 سے زیادہ نئی کمپنیاں شامل ہیں -- جیسے جیسے قیمتوں اور مانگ میں اضافہ ہوا۔
اس کوشش کے حصہ کے طور پر، چین کے حکام نے سنکیانگ کے علاقے میں مسلمان اقلیتوں کو پی پی ای کے کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور کیا۔ یہ خبر نیو یارک ٹائمز نے گزشتہ جولائی میں دی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 30 جون تک، پی پی ای کے 51 کارخانے، جو کہ وباء کے شروع ہونے سے پہلے صرف چار تھے، سنکیانگ میں کام کر رہے تھے۔
نئے لاک ڈاوُن
مگر چین کی وائرس پر "فتح"، واقعات میں نئے اضافے اور لاک ڈاونز کی ایک نئی لہر کے دوران سامنے آئی ہے.
بدھ (20 جنوری) سے 1.6 ملین شہریوں پر بیجنگ سے باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ کووڈ- 19 کے بہت سے واقعات سامنے آئے تھے۔ ان میں دو واقعات وائرس کی اس نئی قسم سے جڑے ہیں، جو کہ سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت کی گئی تھی۔
چینی حکام کی طرف سے کرونا وائرس کے کم از کم تین نئے واقعات کو دریافت کرنے کے بعد، جمعرات (21 جنوری) کو حکام نے شنگھائی کے ایک رہائشی علاقے کو خالی کروانا شروع کر دیا۔
حکام نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنے رہائشیوں کو علاقے سے باہر لے جا رہے ہیں مگر وہاں پر موجود اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے کہا ہے کہ بسیں انتظار میں کھڑی تھیں اور انہیں مسافروں کو ایک ہوٹل لے جانے سے پہلے جراثیم سے پاک کیا گیا تھا۔
اسی دوران، تعمیراتی کارکن شاجیاجوانگ شہر میں، جہاں حالیہ ہفتوں میں کئی سو نئی انفکیشنز کے سامنے آنے کے بعد، 11 ملین باسیوں کو سخت لاک ڈاون میں رکھا گیا تھا، قرنطینہ کا ایک مرکز تعمیر کرنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔
سرکاری ذرائع ابلاغ نے گزشتہ ہفتے خبر دی تھی کہ صوبہ ہیبی کے گرد و نواح کے گاوں کے 20,000 سے زیادہ شہری، مرکزی سہولیات میں قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔
دریں اثناء، حکام نے، ایک سفری سیلزمین کو 100 سے زیادہ انفکیشنز کا ذمہ دار قرار دینے کے بعد، پیر (18 جنوری) کو جیلن صوبہ میں، تقریبا تین ملین افراد کو لاک ڈاون میں ڈال دیا۔
وباء کے پھوٹ پڑنے نے چین کو، آنے والے نئے قمری سال کی تعطیل پر، کیسز کی ایک ممکنہ لہر کے لیے انتہائی چوکنا کر دیا ہے۔
حکام نے اخباری نمائںدوں کو بتایا کہ ملکی تہوار کے دوران، انہیں توقع ہے کہ روزانہ 40 ملین شہری سفر کریں گے۔
ووہان کی بے گناہی ثابت کرنے کی کوششیں
اس ہفتے ووہان میں نرمی اور سفر کی آزادی کے مناظر، بہت سے دوسرے ممالک میں پھیلتے ہوئے لاک ڈاونز، بڑھتی ہوئی اموات اور انتہائی دباوُ کی شکار طبی سہولیات سے بالکل متضاد ہیں -- وہ ملک جو کہ اس وباء کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کیونکہ چین کے حکام نے جنوری 2020 میں چھہ انتہائی اہم ترین دنوں کے دوران کچھ نہیں کہا ۔
ووہان کی وٹ مارکیٹیں خریداروں، باغات میں مشق کرنے والے بزرگ رقاصوں اور شراب خانوں جو کہ "ووہان مضبوط رہو" کی مقامی طور پر تیار کردہ جو کی شراب فروخت کر رہے تھے، سے بھری ہوئی تھیں۔
ووہان کی نمائش جہاں چین کی وائرس کی کہانی کو بڑھا چڑھا کر دوبارہ سے بیان کیا گیا ہے، میں ایک کتبے پر لکھا ہے "لوگوں کی بالادستی، زندگی کی بالادستی"۔
مہمان چین کی طرف سے عالمی وباء پر قابو پا لینے اور بحران میں اس کی کیمونسٹ قیادت کی مستعدی کے بارے میں فتح کا شادیانہ سنتے ہیں۔
کمرے کیمونسٹ جھنڈوں اور جماعت کے پیغامات سے سجائے گئے ہیں اور ویڈیوز میں طبی کارکنوں اور ریکارڈ وقت میں بنائے جانے والے عارضی ہسپتالوں کا جشن منایا گیا ہے۔
صدر شی جن پنگ، بڑی بڑی تصویروں سے، واضح طور پر وائرس کے ردعمل کے مارشل کی حثیت سے، کَریمُ النَفسی سے کام لیتے ہوئے ہال کی صدارت کر رہے ہیں۔
ووہان میں بہت سے افراد سرکاری کہانی پر سختی سے قائم رہے ہیں، خصوصی طور پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ماہرین کی ایک ٹیم کے ساتھ، جو وائرس کے آغاز کا تعین کرنے کے لیے عملی کام کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہے۔
وباء کے شروع کے دنوں میں پردہ پوشی اور اناڑی پن پر، عالمی تنقید کا نشانہ بننے کے بعد، چین نے کئی مہینوں تک ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کو ملک کا دورہ کرنے سے روکے رکھا ۔
بیجنگ ٹیم کے کافی زیادہ تعطل کے شکار دورے کو، اپنی کہانی کو آراستہ کرنے کے ایک موقع، کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
20 سالہ شہری وانگ چن نے سرکاری بیانے کی نقل کرتے ہوئے، جس میں وائرس کا الزام دوسرے ملکوں پر لگانے کی کوشش کی گئی ہے، کہا کہ "ووہان کی بے گناہی کو ثابت کرنے کا وقت آ گیا ہے"۔
شفافیت کے بارے میں سوالات
چین سے باہر، وائرس پر چین کا ردعمل کم چمک رہا ہے۔
گزشتہ اکتوبر میں پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ چین کے بارے میں، مغربی خیالات کووڈ -19 کی وباء کے دوران تلخ ہو گئے تھے اور چین کی طرف سے شفافیت کی کمی کے بارے میں، سوالات کا ابھی تک جواب نہیں ملا ہے۔
چین کی حکومت کو، کووڈ -19 کو سنبھالنے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے اور بعد میں غلط معلومات کی ایک مہم چلانے پر، تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کا مقصد دوسروں پر الزام لگانا اور جھوٹ پھیلانا تھا۔
اس نے نظام تنفس کی بیماری کو، گزشتہ سال جب پہلی بار وہ سامنے آئی، چھپایا اور اس کے ابتدائی مشورے میں اس کے پھیلنے کے خطرے کو کم کر کے بتایا گیا تھا۔
منگل (19 جنوری) کو آزاد تجزیہ نگاروں کے ایک پینل نے کہا کہ چین کی حکومت اور ڈبلیو ایچ او دونوں ہی، بعد میں آنے والی تباہی کوروکنے کے لیے، زیادہ کام کر سکتے تھے۔
وبائی امراض کی تیاری اور ردعمل کے آزاد پینل نے کہا کہ "ابتدائی علامات پر زیادہ تیزی سے ردعمل ظاہر کرنے کے امکانات موجود تھے"۔
مغربی دنیا میں اپنے نقادوں کو قائل کرنے میں ناکامی کے بعد، چین نے جنوب مشرقی ایشیاء سے افریقہ تک، غریب اتحادیوں سے تعلق جوڑا اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ مناسب قیمت پر ان سے ویکسین سانجھی کرے گا۔
مگر چین کی نام نہاد "ویکسین سفارت کاری" کی، ان ملکوں کو سیاسی اور اقتصادی قیمت چکانی پڑے گی، جو بیجنگ کے مقروض ہیں۔
علاوہ ازیں، سینوفارم کرونا وائرس ویکسین کے طبی تجربات سے پتہ چلا ہے کہ یہ صرف 79 فیصد موثر ہے۔ اس بات کا اعلان چین کے فارما جائنٹ نے 30 دسمبر کو کیا تھا۔ یہ شرح حریف کمپنیوں فائزر- بائیو ٹیک اور میڈرنا کی طرف سے بنائی جانے والی ویکسین سے کم ہے، جن دونوں کی افادیت تقریبا 95 فیصد کے قریب ہے۔
تاریخ پر قلعی پھیرنا
چین بھر میں، کیمونسٹ قیادت ملک کے اندر استعمال کرنے کے لیے، واقعات کی اپنی قسم پر رنگ و روغن پھیرتی رہی ہے، کووڈ - 19کے بارے میں ووہان کی نمائش میں آنے والے، اس مرکزی خیال کو جانا پہچانا پائیں گے۔
ستمبر میں، چی نے وباء کے طبی کارکنوں میں تمغے تقسیم کیے اور چین کی طرف سے "ایک غیر معمولی اور تاریخی امتحان" میں کامیاب ہونے کو سلام پیش کیا جبکہ تقریبا باقی کی ساری دنیا انفیکشن کی بلند شرح میں پھنسی ہوئی تھی۔
کیمونسٹ قیادت کی طرف سے وائرس کا خاتمہ کرنے کی قومی کوششوں کے دوران، متنبہ کرنے والے، جنہیں ووہان میں وباء کے پھوٹ پڑنے پر، حکام نے چپ کروا دیا تھا، کو دوبارہ سے محبِ وطن قرار دے دیا گیا۔
جمعہ کو، حکومت کی سپانسر کردہ ایک دستاویزی فلم "ووہان میں دن اور راتیں" سینما ہالوں میں آنے والی ہے اور ملک بھر میں اسے ہزاروں لوگوں کو مفت دکھائے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
فلم کی ہدایت کاری کی جن لنگ نے کی ہے جن کے آن لائن سی وی میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے تقریبا دس سال تک بیجنگ پبلک سیکورٹی بیورو میں کام کیا ہے۔
چین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم، ویبو پر فلم کے باضابطہ پیچ پر شائع ہونے والے ایک تبصرے میں، ناظرین کو یقین دلایا گیا ہے کہ یہ بحران کے ابتدائی ہفتوں کے دوران اموات اور افراتفری کے گرد نہیں گھومتی ہے۔
تبصرے میں کہا گیا ہے کہ "اس کی بجائے یہ قابو پانے کا تصور پیش کرتی ہے۔۔۔ محبت کی قوت کے ذریعے"۔