توانائی

تجزیہ نگاروں کے مطابق، چین کا صاف توانائی کی طرف مڑنا، عمل کم اور باتیں زیادہ ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

چین کے شانسی صوبہ کے علاقے داتونگ کے قریب، کوئلے سے چلائے جانے والے بجلی گھر سے 19 نومبر 2015 کو دھویں کے بادل نکل رہے ہیں۔ [گریگ بیکر/ اے ایف پی]

چین کے شانسی صوبہ کے علاقے داتونگ کے قریب، کوئلے سے چلائے جانے والے بجلی گھر سے 19 نومبر 2015 کو دھویں کے بادل نکل رہے ہیں۔ [گریگ بیکر/ اے ایف پی]

بیجنگ -- اگرچہ چین کا دعوی ہے کہ وہ 2060 تک کاربن غیر جانب داری تک پہنچنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے، کاربن توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کے گرد اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے مگر اس کے کام اس کی باتوں سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ وہ "گندے ایندھن" میں اپنی بھاری سرمایہ کاری کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

توانائی کے تجزیہ نگاروں اور ماہرینِ ماحولیات نے متنبہ کیا ہے کہ چین کی حکومت، درجنوں غیر ملکی کوئلے کے کارخانوں کو سرمایہ فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور وہ اپنی ملکی پیداوار میں بھی، غلط سمت میں جا رہی ہے۔

گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی کوشش میں، چین فروری کے آغاز سے کاربن ٹریڈنگ سسٹم شروع کرے گا۔ اس بات کا اعلان ملک کی وزارتِ ماحولیات نے 5 جنوری کو کیا۔

وزارت نے نئے قوائد جاری کیے جن کے تحت صوبائی حکومتوں کو، پہلی بار اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ بجلی کے بڑے کاروباروں پر، آلودگی کی حدود قائم کریں۔

23 مئی 2018 کو لی گئی اس فائل فوٹو میں، چین کے حمایت یافتہ زیرِ تعمیر بجلی گھر کو دکھایا گیا ہے جو پاکستان کے صوبہ سندھ کی تھرپارکر ڈسٹرکٹ میں اسلام کوٹ میں بن رہا ہے۔ [رضوان تبسم/ اے ایف پی]

23 مئی 2018 کو لی گئی اس فائل فوٹو میں، چین کے حمایت یافتہ زیرِ تعمیر بجلی گھر کو دکھایا گیا ہے جو پاکستان کے صوبہ سندھ کی تھرپارکر ڈسٹرکٹ میں اسلام کوٹ میں بن رہا ہے۔ [رضوان تبسم/ اے ایف پی]

ادارے، آلودگی پھیلانے کے حق ان دوسرے اداروں سے خرید سکتے ہیں، جن کا کاربن فُٹ پرنٹ کم ہے مگر توقع ہے کہ اس پروگرام سے مجموعی طور پر گیسوں کا اخراج کم ہو گا کیونکہ ایسا کرنا مہنگا بنا دیا جائے گا۔

تاہم، چین میں 60 فیصد بجلی ابھی بھی کوئلوں سے پیدا کی جاتی ہے اور تجزیہ نگاروں نے متنبہ کیا ہے کہ کوئلے کی طاقت ور لابی، سازگار کاربن حدود کے لیے انتہائی زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گی۔

مقاصد کو پورا کرنا مشکل ہو گا

کچھ مشاہدین کا کہنا ہے کہ چین - جو کہ اس وقت تک دنیا میں آلودگی پھیلانے والا اور کوئلے کو استعمال کرنے والا سب سے بڑا صارف ہے -- ابھی تک دھوکہ ہی دیتا رہا ہے۔

حقیقت سے انحراف کرتے ہوئے، صدر شی جنپنگ نے 22 ستمبر کو اقوامِ متحدہ میں، گلوبل وارمنگ پر قیادت کے باعزم منصوبے پر سے پردہ اٹھایا اور عہد کیا کہ وہ 2030 سے پہلے اخراج کی انتہا تک پہنچ جائے گا اور اس کے 30 سال کے بعد کاربن نیوٹرل ہو جائے گا۔

یہ قدم چین کی طرف سے اپنے آپ کو مثبت روشنی میں پیش کرنے کی صرف ایک تازہ ترین مثال ہے کیونکہ چین اپنی اطلاعات کی جنگ کو نئی سطح تک لے گیا ہے اور اس سلسلے میں، سازشی نظریات کو پھیلانے اور کئی متنازعہ موضوعات پر الزم سے مبرا ہونے کے لیے، اس نے نہ صرف کریمیلن کے استعمال کردہ اور حقیقی ہتھکنڈوں کو ادھار لیا ہے بلکہ اس میں اپنے گھماوُ پھیراوُ بھی شامل کر دیے ہیں۔

مگر 2060 تک کاربن نیوٹرل ہونے کے لیے، چین کو کوئلے سے چلنے والے نئے بجلی گھروں کی تعمیر بند کرنی چاہیے اور ہوا سے اور شمسی بجلی بنانے کی اپنی صلاحیت کو بڑھانا چاہیے۔ ہیلسنکی میں قائم تحقیقی مرکز برائے توانائی و صاف ہوا (سی آر ای اے) نے 20 نومبر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ بجلی گھروں کی زیادہ گنجائش اور نئے بجلی گھروں کی تعمیر کا مطلب ہے کہ بیجنگ کے لیے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا مشکل ہو گا۔

اس میں چین کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ وہ کوئلے سے چلنے والے بجلی کے ایسے تمام کارخانے بند کر دے جو 2020 سے تعمیر کیے گئے ہیں اور اگلی دہائی کے لیے ہوا سے اور شمسی بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی بڑھوتی دوگنی کر دے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ، چین کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اپنی صلاحیت کو 2030 تک کم کر کے 680 گیگاواٹ کر دینا چاہیے -- اپنے اس وقت کے منصوبے کی بجائے، جس میں اسے بڑھا کر 1,300 گیگا واٹ کر دیا جائے گا۔

محقیقن کا کہنا ہے کہ ان اضافی بجلی گھروں کو جلدی ریٹائر کرنے اور مزید کی تعمیر کے خلاف مناسب پالیسی مداخلت کے بغیر، چین کی طرف سے خارج کی جانے والی کاربن ڈائی اکسائڈ میں 2020 کی سطح سے تقریبا کوئی کمی نظر نہیں آئے گی۔

چین کی طرف سے گرین ہاوس گیسوں کے 2019 میں اخراج کا تخمینہ تقریبا 13.9 بلین ٹن لگایا گیا ہے -- جو کہ تمام دنیا کے گلوبل وارمنگ سے جڑے اخراج کا تقریبا 29 فیصد ہے۔

معیشت کو کوئلے سے دور کرنے کے عہد کے باجود، چین کی طرف سے ماحولیاتی طور پر خطرناک ایندھن کا استعمال جون میں اس انتہائی سطح تک پہنچ گیا جسے 2013 میں دیکھا گیا تھا۔

عالمی وباء سے بحالی نے اخراج میں اضافہ کیا

کرونا وائرس کی عالمی وباء سے متاثرہ صوبائی معیشتوں کو بحال کرنے کی کوشش میں، بیجنگ نے کوئلے کے نئے کارخانے بنانے کے لیے، سرکاری قرض دہندگان پر لگائی جانے والی پابندیوں کو ہٹا لیا۔

سین فرانسسکو کی ایک ماحولیاتی این جی او، گلوبل انرجی مانیٹر (جی ای ایم ) کے مطابق، 2020 کے پہلے چھہ ماہ میں، چین کی حکومت نے 23 گیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے اہل، کوئلے سے چلنے والے نئے بجلی گھروں کی منظوری دی جو کہ گزشتہ دو سالوں میں مجموعی طور پر دی جانے والی منظوری سے زیادہ ہے۔

سی آر ای اے کے ماہر تجزیہ کار لوری مائلی ویرتا نے کہا کہ چین کا کرونا وائرس کی عالمی وباء کے بحران سے باہر نکلنا، توانائی سے متعلق صنعتوں جیسے کہ تعمیرات، کے باعث ہوا ہے جو کہ پاور گرڈ اور کوئلے کی فراہمی پر انتہائی زیادہ دباؤ ڈال رہی ہیں۔

انٹرنیشنل انرجی ایجسنی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فاتح بیرول نے کہا کہ "مجھے اندیشہ ہے کہ اگر حکومت نے نئی بڑی پالیسیاں نہ اپنائیں، تو ہم گیسوں کے اخراج میں جو کمی، اس سال دیکھ رہے ہیں وہ پلٹ کر واپس چلی جائے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "اگر حکومتوں نے اپنے معاشی بحالی کے منصوبوں میں صاف توانائی کی پالیسیاں شامل نہ کیں، تو ہم اسی مقام پر واپس چلے جائیں گے جہاں پر عالمی وباء سے پہلے ہم موجود تھے"۔

بیرول نے کہا کہ چین دوسرے ممالک کے لیے "ایک اہم آزمائشی تجربہ" ہے کہ وہ کرونا وائرس کی عالمی وباء سے اپنی بحالی کے لیے ایندھن کیسے فراہم کریں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم سب کو علم ہے کہ چین وہ پہلا ملک تھا جہاں کرونا وائرس شروع ہوا، پہلا ملک جہاں لاک ڈاوُن ہوا اور جہاں معیشت میں تنزلی آئی"۔

"مگر چین وہ پہلا ملک بھی ہے جہاں معیشت بحال ہوئی اور آج، چین کا گیسوں کا اخراج اس سطح سے اونچا ہے جو بحران سے پہلے کی سطح تھی"۔

کوئلے میں سرمایہ کاری

چین کے سرکاری ملکیتی ادارے، بیرونِ ملک کوئلے سے بجلی پیدا کرنے میں کئی بلین ڈالر لگا رہے ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ٹریلین -ڈالر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے حصہ کے طور پر، چین زمبابوے سے لے کر انڈونیشیا تک، کوئلے کے درجنوں غیر ملکی بجلی گھروں کو سرمایہ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو اتنی مقدار میں گیسیں خارج کریں گے جو کہ بڑے ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے خارج کی جانے والی مقدار سے بھی زیادہ ہو گی۔

اس اخراج کو ملکی کاربن نیوٹرل حساب کتاب میں گنا نہیں گیا ہے۔

جی ای ایم میں کوئلے کے بارے میں تحقیق کے ڈائریکٹر رسٹین شیئر، نے کہا کہ "ایسے بہت سے بجلی گھر جو کہ ممکنہ طور پر، 2030 سے کئی سال بعد تک چلتے رہیں گے، ماحولیاتی تبدیلی کو کم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں سے بنیادی طور پر مطابقت نہیں رکھتے"۔

بوسٹن یونیورسٹی کے عالمی ترقیاتی پالیسی سینٹر کے مطابق، کاربن چھوڑتے نئے بجلی گھر جو کہ پہلے ہی زیرِ تعمیر ہیں، سالانہ 19 گیگاواٹ بجلی اور 115ملین ٹن گیسیں پیدا کریں گے۔

برٹش پیٹرولیم کے مطابق، چین کے پاس بیرونِ ملک تقریبا تین گنا زیادہ منصوبے پائپ لائن میں ہیں جس کا مطلب ہے کہ غیر ملکی بجلی گھر، بڑی معیشتوں جیسے کہ برطانیہ، ترکی اور اٹلی کی طرف سے اس وقت کیے جانے والے اخراج سے زیادہ اخراج کریں گے۔

درجنوں بجلی گھروں میں سے ہر کسی کی عمر دہائیوں تک متوقع ہے۔

اگر وہ مکمل ہونے کے بعد 30 سال تک کام کرتے ہیں تو یہ بجلی گھر، چین میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے تمام بجلی گھروں کی طرف سے، تین سالوں کے دوران مجموعی طور پر خارج کی جانے والی گیسوں، کے برابر اخراج کریں گے۔

بیرونِ ملک کوئلے کو فروغ دینا

شی نے بی آر آئی کے تحت، "کھلے، سبز اور صاف تعاون" کی جدوجہد کا وعدہ کیا تھا مگر چین کے بینکوں نے کوئلے کے منصوبوں کو سرمایہ دینا جاری رکھا ہوا ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی کے مطابق، 2018 سے 2000 کے دوران، چین کے بیرونِ ملک توانائی کے منصوبوں کے لیے، دو سب سے بڑے پالیسی بینکوں کی طرف سے سرمایہ کردہ 251 بلین ڈالروں میں سے 23.1 فیصد، کوئلے کے منصوبوں کی طرف گئے ہیں۔

چین کے ادارے بیرونِ ملک جو بجلی گھر بنا رہے ہیں ان میں زمبابوے میں 3 بلین ڈالر سے بنایا جانے والا سنگوا بجلی گھر جو کہ افریقہ میں سب سے بڑا بجلی گھر ہے، شامل ہے۔ پاکستان میں کم از کم آٹھ منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جس میں بلوچستان میں 2 بلین ڈالر سے لگایا جانے والا بجلی گھر بھی شامل ہے۔

تمام نئے منصوبے ان ملکوں میں ہیں جنہوں نے بی آر آئی پر دستخط کیے ہیں اور انہیں کوئلے سے توانائی پیدا کرنے والے مستقبل میں باندھ رہے ہیں۔

گرین سپیس چائنا کے لی شو نے کہا کہ کوئلے کے لیے سرمایے کا سیلاب "ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے صاف متبادل کی طرف جانے کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہا ہے"۔

چین کے پاس خود غیر استعمال شدہ، 96 بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں-- جو کہ دنیا میں چوتھے بڑے ذخائر ہیں۔

اس فاضل مقدار نے چین کے توانائی کے اداروں کو توانائی کے بھوکے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔

مائلی ویرتا نے کہا کہ "یہ ایسے اداروں اور سہولیات کے لیے منڈیاں فراہم کرنے کا طریقہ ہے، جن کی ملک کو اب زیادہ ضرورت نہیں رہی"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500