شنگھائی – بین الاقوامی مذمت کے بڑھنے اور عالمی برانڈز کے سنکیانگ خطے میں کاروبار کرنے سے پیچھے ہٹنے کے باوجود بیجنگ کی جانب سے مقامی ٹیکنالوجی جائنٹ علی بابا کے ذریعے اویغور پر جارحیت بڑھ رہی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں متعدد رپورٹس اس امر کو منظرِ عام پر لائی ہیں کہ کیسے حکام چین کے سنکیانگ خطے میں بڑے پیمانے پر مسلمان اقلیتی گروہوں کا تعاقب اور ان کی نگرانی کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔
علی بابا کی جانب سے تشکیل دیی گئی چہرے کی شناخت کی ایک سافٹ ویئر خاصیت اسے وہ تازہ ترین چینی کارپوریٹ کاروبار بنا دیتی ہے جو اویغور کے ساتھ چین کے سلوک پر تنازع میں ملوث ہے۔
سرویلنس انڈسٹری کی اشاعت آئی پی وی ایم اور نیویارک ٹائمز نے 16 دسمبر کو خبر دی کہ کلاؤڈ کمپیوٹنگ کاروبار کے لیے علی بابا کی ویب سائیٹ میں دکھایا گیا کہ کیسے ان کے گاہک ان کا سافٹ ویئر استعمال کرتے ہوئے تصاویر اور ویڈیوز میں اویغور اور دیگر نسلی اقلیتوں کے چہرے شناخت کر سکتے ہیں۔
صحافیوں کی جانب سے علی بابا کو ان کی رائے سے متعلق کہا جانے کے بعد علی بابا کلاؤڈ نے جلدی سے "اویغور" اور "اقلیتوں کی شناخت" کے حوالہ کو ہٹا دیا۔
آئی پی وی ایم نے خبر دی کہ بعد ازاں علی بابا کلاؤڈ نے مزید وضاحت کے شواہد کے بغیر یہ بیان دیا کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال صرف "تجرباتی ماحول میں کیا گیا"۔
17 دسمبر کو آن لائن پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں – تقریباً 78 بلین ڈالر کی سالانہ فروخت کی حامل چین کی سب سے بڑی ای کامرس ویب سائٹ – علی بابا نے کہا کہ "یہ جان کر اس کی حوصلہ شکنی" ہوئی کہ علی بابا کلاؤڈ نے یہ خاصیت تخلیق کی۔
علی بابا نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی صرف استعداد کی جانچ کے لیے استعمال کی گئی اور کوئی گاہک اسے بروئے کار نہیں لایا، مزید کہا گیا کہ اس نے اپنی مصنوعات سے "ہر قسم کا نسلی ٹیگ ہٹا دیا ہے"۔
کہا گیا، "ہم مخصوص نسلی گروہوں کی شناخت کرنے یا انہیں ہدف بنانے کے لیے اپنی ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرتے اور نہ اس کی اجازت دیتے ہیں۔"
نیویارک ٹائمز نے خبر دی کہ ایک دیگر چینی کلاؤڈ فراہم کنندہ، کنگ سافٹ کلاؤڈ نے بھی اپنے ویب سائیٹ سافٹ ویئر میں بیان کیا کہ کلاؤڈ ایک چہرے کی تصویر کو یہ معلوم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے کہ آیا کسی شخص کی ذات "اویغور" یا "غیر اویغور" ہے۔
صحافیوں کی جانب سے اس ٹیکنالوجی سے متعلق پوچھے جانے پر کنگ سافٹ کلاؤڈ نے ان صفحات کو اپنی ویب سائیٹ سے ہٹا دیا اور کہا کہ یہ سافٹ ویئر گاہکوں کو فروخت نہیں کیا گیا اور یہ کہ اس میں اویغور چہروں کی شناخت کی صلاحیت نہیں ہے۔
’اویغور تنبیہ‘
سنکیانگ میں بیجنگ کی پالیسیوں سے متعلق عالمی تنقید میں اضافہ کے ساتھ اویغور کا مسئلہ چینی کمپنیوں کے لیے ایک خدشہ کے طور پر طول پکڑ گیا ہے۔
آئی پی وی ایم اور واشنگٹن پوسٹ نے 8 دسمبر کو خبر دی کہ دو دیگر چینی ٹیک جائنٹس، ہواوے اور میگوی نے "اویغور تنبیہات" کی جانچ اور ان کی توثیق کرنے کے لیے مل کر کام کیا ہے۔
ہواوے چین کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ہے، اور میگوی ملک میں چہرے کی شناخت کی سہولت فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
آئی پی وی ایم کو ہواوے کی ایک خفیہ "انٹرآپرایبیلیٹی رپورٹ" ملی جس میں خاکہ دیا گیا تھا کہ کیسے دونوں کمپنیوں نے 2018 میں ایک ایسے مصنوعی انٹیلی جنس کمیرہ نظام کا تجربہ کرنے کے لیے مل کر کام کیا جو ایک ہجوم میں چہروں کو جانچ کر ہر شخص سے متعلق اس کی عمر، جنس اور نسل کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ "ٹیسٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر زیادہ تر مسلمان اقلیتی گروہوں کے کسی رکن کا چہرہ اس نظام کو ملتا ہے تو یہ ’اویغور الارم‘ چلا دیتا ہے— ممکنہ طور پر چین میں پولیس کے لیے ان کی نشاندہی کرتا ہے۔"
دونوں کمپنیوں نے رپورٹ کی صداقت کی تصدیق کی لیکن اس امر کی تردید کی کہ یہ ٹیکنالوجی نسلی گروہوں کو ہدف بنانے یا ان کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ہیومن رائیٹس واچ میں چین کی ایک سنیئر محقق مایا وانگ نے کہا، "نگرانی کے لیے چین کے ارادے اقلیتوں کی ایذا رسانی سے بہت بہت بہت آگے ہیں۔"
نگرانی کے اخراجات میں اضافہ
انہوں نے کہا کہ بیجنگ نے عوام کی نگرانی کرنے اور اقلیتوں، احتجاج کنندگان اور ریاست کو درپیش دیگر مبینہ خدشات کو دبانے کے لیے اضافے کے ساتھ مصنوعی انٹیلی جنس کی رہنمائی کی حامل نگرانی کا استعمال کیا ہے۔
ہیومن رائیٹس واچ نے کہا کہ "مشتبہ" رویہ کی شناخت کرنے والے اس سافٹ وئیر کی جانب سے اویغور کی شناخت کیے جانے کے بعد پولیس اویغوریغور کو گرفتار کر رہی ہے۔
انسدادِ دہشتگردی کے نام پر صوبے بھر میں چہرے کی شناخت، ارِس سکینرز، ڈی این اے لینے اور مصنوعی انٹیلی جنس کی تعیناتی کے ساتھ حالیہ برسوں میں سنکیانگ میں نگرانی پر ہونے والے اخراجات تیزی سے بڑھ گئے ہیں۔
حکومتِ چین سنکیانگ میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے شدید بین الاقوامی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے، جہاں حقوقِ انسانی کے گروہوں کے مطابق، ایک ملین سے زائد اویغور اور دیگر بیشتر مسلمان اقلیتیں حراستی کیمپوں میں رکھی گئی ہیں۔
بیجنگ دہشتگردی کا قلع قمع کرنے اور روزگار کے مواقع بہتر بنانے کے مقصد سے پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کے طور پر ان کیمپس کا دفاع کرتا ہے۔
امریکی سینیٹر 27 اکتوبر کو ایک قرارداد سامنے لائے جس میں یہ امر قرار دیا گیا تھا کہ حکومتِ چین سنکیانگ میں اویغور، قازق النسل، قرغیز اور دیگر مسلمان اقلیتی گروہوں کے ارکان کی نسل کشی کر رہی ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے 6 نومبر کو اعلان کیا کہ اس نے مشرقی ترکستان تحریکِ اسلامی (ای ٹی آئی ایم) کو اپنی "دہشتگرد تنظیموں" کی فہرست سے نکال دیا ہے۔
حکومتِ چین سنکیانگ میں مسلمان اقلیتوں پر اپنے سخت کریک ڈاؤن کی دلیل پیش کرنے کے لیے باقاعدگی سے ای ٹی آئی ایم کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔
آزادانہ مشاہدین اور محققین کا کہنا ہے کہ کئی برسوں سے بیجنگ اسلامی ثقافت کی بیخ کنی، مساجد کو تباہ کرنے، کمیونسٹ پراپیگنڈا سے مسلمانوں کی دماغ شوئی کرنے اور خواتین کا جبراً اسقاطِ حمل کرنے کی ایک منظم مہم چلائے ہوئے ہے۔
ستمبر میں جاری ہونے والی آسٹریلین سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ان کاوشوں کے جزُ کے طور پر چینی حکام نے تین برس کے دورانیہ میں تقریباً 16,000 مساجد کو تباہ کیا یا نقصان پہنچایا۔
اس رپورٹ کے مطابق، سنکیانگ میں – مزارات، مقبروں اور زیارتی گزرگاہوں سمیت – بڑے اسلامی مقاماتِ مقدسہ کے تقریباً ایک تہائی کو ختم کر دیا گیا۔
غلامانہ مزدوری
سینکڑوں ویڈیوز، تصاویر اور حکومتی دستاویزات میں شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے نیویارک ٹائمز کے مطابق، کروناوائرس وبا کے نتیجہ میں چینی حکام نے سنکیانگ خطہ میں مسلمان اقلیتوں کو ذاتی حفاظتی آلات کے کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور کیا۔
حقوقِ انسانی کے گروہوں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں اویغور اور دیگر مسلمان گروہوں کو کپاس کی چنائی کے لیے اور اس پر کام کرنے والے کارخانوں میں کام کرنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔
امریکی کسٹمز اور سرحدی تحفظ نے 2 دسمبر کو اعلان کیا کہ وہ سنکیانگ خطے سے کپاس کی درآمد بند کر دے گا جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ "غلامانہ مزدوری" سے چنی جاتی ہے۔
ایک واشنگٹن اساسی تھنک ٹینک دی سنٹر فار گلوبل پالیسی نے 14 دسمبر کو خبر دی کہ 57,000 سے زائد اویغور کو ریاست کے زیرِ انتظام ایک جابرانہ سکیم، نام نہاد "پیشہ ورانہ تربیتی مراکز" کے ذریعے کپاس کی چنائی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ تمام قیدی ان مراکز سے "فارغ التحصیل" ہیں، لیکن رپورٹس سے پتہ چلا ہے کہ اس نے بہت سے سابق قیدیوں کو کم ہنر والی کارخانوں کی ملازمتوں میں منتقل کر دیا ہے، جو اکثر ان کیمپس سے منسلک ہوتی ہیں۔
سنٹر فار گلوبل پالیسی نے حکومتی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی تحقیق میں کہا کہ مزدوروں کی منتقلی کی سکیموں کے شرکاء کو ایک مقام سے دوسرے مقام منتقلی، "عسکری انداز کی انتظامیہ" اور نظریاتی تربیت کے ساتھ پولیس کی کڑی نگرانی میں رکھا جاتا تھا۔
دستاویزات کو منظرِ عام پر لانے والے ایڈریئن زینز نے رپورٹ میں لکھا، "یہ واضح ہے کہ کپاس کی چنائی کے لیے مزدوروں کی منتقلی میں جبری مزدوری کا ایک بہت بڑا خدشہ موجود ہے۔"
"ہو سکتا ہے کہ چند اقلیتیں اس عمل سے متعلق کسی قدر راضی ہوں، اور انہیں مالی فائدہ ہو۔ تاہم ۔۔۔ یہ حدبندی کرنا ناممکن ہے کہ جبر کہاں ختم ہوتا ہے اور مقامی رضامندی کہاں شروع ہوتی ہے۔"