سلامتی

کریملن طالبان کی متشدد کاروائیوں میں اضافے کو افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں خوف پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے

ژوماگولی انایوف

افغان نیشنل آرمی (اے این اے) اور افغان مقامی پولیس (اے ایل پی) کی فورسز 28 نومبر کو ہرات صوبہ کے پشتون زرغون ضلع میں ایک کلینگ آپریشن کے دوران گشت کر رہی ہیں۔ [ہوشانگ ہاشمی/ اے ایف پی]

افغان نیشنل آرمی (اے این اے) اور افغان مقامی پولیس (اے ایل پی) کی فورسز 28 نومبر کو ہرات صوبہ کے پشتون زرغون ضلع میں ایک کلینگ آپریشن کے دوران گشت کر رہی ہیں۔ [ہوشانگ ہاشمی/ اے ایف پی]

اشک آباد -- مشاہدین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی متشدد کاروائیوں میں حالیہ اضافہ کریمیلن نواز ماہرین اور روسی حکام کو اس بات کا بہانہ فراہم کر دیں گی کہ وہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو خوف زدہ کر کے انہیں ماسکو کے ساتھ زیادہ قریبی سیکورٹی تعاون قائم کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں۔

فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد سے، عسکریت پسندوں نے اہم شہریوں پر کوئی بڑا حملہ نہیں کیا ہے مگر دیہی علاقوں میں افغان فورسز پر تقریبا ہر روز حملے کیے ہیں۔ تشدد کی کاروائیوں میں یہ اضافہ اس وقت سامنے آیا ہے جب طالبان اور افغان حکومت دوحہ، قطر میں امن مذاکرات میں مشغول ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو توقع رکھنی چاہیے کہ روسی حکومت ایسے نئے بیانات جاری کرے گی جس میں افغانستان کو پورے علاقے کے لیے ایک خطرہ قرار دیا جائے گا۔

مبینہ افغان خطرے کا ایک حالیہ دعوی روسی سیکورٹی کونسل کے نائب سیکریٹری الیگزینڈر وینیدکتوف کی طرف سے 18 نومبر کو سی آئی ایس کے ارکان ممالک کی سیکورٹی کونسلوں کے سیکریٹرییوں کی سالانہ میٹنگ کے موقع پر سامنے آیا۔

طالبان کے وفد کے ارکان، 12 ستمبر کو دوحہ، قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔ [کریم جعفر/ اے ایف پی]

طالبان کے وفد کے ارکان، 12 ستمبر کو دوحہ، قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔ [کریم جعفر/ اے ایف پی]

میٹنگ میں، جو کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوئی، وفود نے موجودہ دور کے خطرات سے لڑنے کی ضرورت، افغانستان کی صورتِ حال اور علاقے کی سیکورٹی پر اس کے اثر و رسوخ کے بارے میں بات چیت کی۔

وینیدکتوف ترکمانستان اور افغانستان کے ساتھ سرحد رکھنے والے دوسرے ممالک کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ روس کے زیادہ قریب ہو جائیں اور سیکورٹی کے معاملات پر ماسکو سے زیادہ تعاون کریں۔ یہ بات ترکمانستان کی سرکاری سرحدی سروس (جی پی ایس) کے سابقہ انسدادِ دہشت گردی کے افسر اخمیرات خیدروف (آخری نام حقیقی نہیں ہے) نے بتائی۔

خیدروف نے کہا کہ "وینیدکتوف نے صورتِ حال کو اتنی پیچیدہ، خطرناک اور غیر متوقع قرار دیا کہ وسطی ایشیائی ممالک جو افغانستان کے ساتھ سرحد رکھتے ہیں، کے پاس روس پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے"۔

اپنے ہم منصوبوں سے خطاب کرتے ہوئے، وینیدکتوف نے خصوصی طور پر افغانستان بھر میں بڑھتی ہوئی جنگ، فروری میں ہونے والے امن معاہدے، بظاہر ایسے اضلاع کی انتہائی بڑھتی ہوئی تعداد جن پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے اور امریکہ کی طرف سے افغانستان سے چلے جانے کی صورت میں وسطی ایشیائی ممالک کے لیے بڑھتے ہوئے خطرے کے امکان کے بارے میں بات کی۔

خوف پھیلانا

خیدروف نے کہا کہ یہ کریمیلن کی طرف سے خوف پھیلانے کی حالیہ کوشش ہے کیونکہ روس کی حکومت افغانستان کی المناک صورتِ حال کے بارے میں خوفناک کہانیاں پھیلا رہی ہے جو کہ علاقے پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان نے شمالی افغان صوبوں میں بہت سے اضلاع پر 20 سال سے زیادہ کے عرصے سے قابو کر رکھا ہے اور ان کے یونٹ ترکمان سرحد کے پاس ہیں مگر اس کے باجود اس سارے دورانیے میں سرحد کی خلاف وزری کرنے یا ہمارے علاقے میں دراندازی کرنے کی کوئی ایک واحد کوشش بھی نہیں ہوئی"۔

انہوں نے یہ نتیجہ ان تمام واقعات کے تجزیہ سے اخذ کیا ہے جو ترکمان-افغان سرحد پر حالیہ دیہائیوں میں پیش آئے ہیں اگرچہ ان میں سے کچھ کا نتیجہ ترکمانستان کے سرحدی گارڈوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے کی صورت میں نکلا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ماضی میں بلکہ ابھی تک، گاہے بگاہے، آپ اسمگلروں یا بین سرحدی جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ، مقامی جھڑپوں یا فائرنگ کے تبادلے کو دیکھیں گے مگر ایک ماہر کے طور پر، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ سرحد پر معمول کے دن ہیں۔ اس کے باجود، روس کے ذرائع ابلاغ اور ماہرین ایسے واقعات کو انتہاپسند گروہوں کے عسکریت پسندوں کی طرف سے حملوں کے طور پر پیش کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ کریملین کے حامی تجزیہ نگار ایسے واقعات کو عالمی برداری میں دہشت گردی کے خطرات کے سامنے ترکمانستان کی کمزوری اور زدپذیری کے طور پر پیش کرتے ہیں اور انہیں روس کے دوررس عسکری اور سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

خیدرف اور دوسرے ترکمان مشاہدین نے کہا کہ اشک آباد اس بات سے آگاہ ہے کہ ترکمانستان کے ساتھ سرحد رکھنے والے افغان صوبوں میں کیا ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ بات درست ہے کہ افغانستان میں صورتِ حال انتہائی غیر مستحکم ہے مگر روسی حکام کی طرف سے انہیں ڈرانے کے لیے کیے جانے والے دعوؤں کے برعکس، یہ صورتِ حال ترکمانستان یا دیگر وسط ایشیائی ممالک کے لیے کوئی خطرہ نہیں رکھتی ہے۔ اس کی بجائے یہ افغانوں کی اندرونی لڑائی ہے اور ہر بات کی وضاحت موجود ہے"۔

خیدروف نے ترکمان جی پی ایس کی طرف سے ملنے والی خفیہ اطلاعات کے حوالے سے کہا کہ طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان بڑھی ہوئی جنگ کے باعث، افغانستان کے سرحدی صوبوں میں عمومی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500