معیشت

ایران سے اسمگل ہونے والی مصنوعات سے پاکستانی فروشندگان کو بھاری نقصانات

اشفاق یوسفزئی

26 جولائی، 2020 کو ایک خوانچہ فروش کوئٹہ کی ایک گلی میں سیب بیچ رہا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

26 جولائی، 2020 کو ایک خوانچہ فروش کوئٹہ کی ایک گلی میں سیب بیچ رہا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

پشاور – پاکستان میں اجناس پیدا کرنے اور فروخت کرنے والے ایران سے پیداوار کی اسمگلنگ پر خدشات اٹھا رہے ہیں۔

مقامی کسانوں اور پیدا وار کے فروخت کنندگان کے مطابق، تمام قسم کے پھل اور سبزیاں افغانستان اور تافتان سرحدی پھاٹک کے ذریعے ایران سے اسمگل کئے جا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا (کے پی) کے ضلع سوات میں سیب کے ایک درجن باغات کے مالک شاہد علی نے کہا، "ایران سے اسمگل ہونے والے سیب پاکستانی پیداوار کی نسبت کم نرخوں پر … دستیاب ہیں، جس سے ہمیں بھاری نقصانات ہوتے ہیں۔ محصولات بچانے کے لیے ایران سے سبزیاں اور پھل افغانستان کے ذریعے لائے جاتے ہیں۔"

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اشیا افغان مصنوعات کے طور پر برآمد کی جاتی ہیں، جن پر معمولی محصولات ہیں۔

9 دسمبر کو پشاور میں پھلوں کا ایک خوانچہ فروش گاہکوں کے انتظار میں ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

9 دسمبر کو پشاور میں پھلوں کا ایک خوانچہ فروش گاہکوں کے انتظار میں ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

علی نے کہا کہ افغانستان کے علاوہ تمام ممالک کو پاکستان کو برآمد کیے جانے والے فی کلوگرام سیب پر 17 فیصد محصول ادا کرنا ہوتا ہے، لیکن حکومتِ ایران اپنے برآمد کنندگان کو غیر قانونی طورپر روپیہ بنانے کے لیے چھوٹ دیے ہوئے ہے۔

پشاور میں ایک کسٹمز اہلکار شکور شاہ نے کہا، "اس سے کسانوں کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔"

شاہ نے کہا کہ قانون کے مطابق، درآمد کنندگان کو ایران سے آنے والے فی کلو سیب پر 56 روپے (0.36 ڈالر) جبکہ افغانستان سے آنے والوں پر 8 روپے (0.05 ڈالر) دینا ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاجر ایرانی مصنوعات کو افغان برآمدات کا بھیس دے کرانہیں پہلے افغانستان کے ذریعے بھیج کرسیب کے ٹیکس سے بچ رہے ہیں۔

شاہ نے کہا کہایرانی حکام سمگلنگ کو پکڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

پشاور میں پھلوں کے ایک فروشندہ، جبار گل نے کہا، "مقامی طور پر اگائے گئے سیب مہنگے ہیں، جبکہ اسمگل شدہ سستے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ایک شخص 120 روپے (0.75 ڈالر) میں دو کلوگرام سیب خرید سکتا ہے، جبکہ اسی مقدار کے پاکستانی سیبوں کی قیمت 451 روپے (2.81 ڈالر) ہے۔

پشاور میں ایک جنرل سٹور کے مالک محمّد سلطان نے کہا، "ایران سے اسمگل ہونے والا جوس نصف امریکی ڈالر [80 روپے] فی لیٹر سے کم میں فروخت ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں اگائی گئی پیداور 240 روپے (1.50 ڈالر) میں دستیاب ہے۔"

انہوں نے کہا، یہاں تک کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل جوس تیار کنندگان بھی ایرانی اسمگلنگ سے متعلق فکرمند ہیں۔

ہلکا معیار

پشاور میں ایک پھل بیجنے والے، حیات اللہ کے مطابق، اگرچہ ایرانی پھل مقامی مصنوع سے زیادہ روپیہ لاتا ہے، تاہم اس کا معیار کم ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ مقامی مصنوع جیسا لذیذ نہیں ہوتا، لیکن گاہک سستا ہونے کی وجہ سے اسے خریدتا ہے۔"

پشاور میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک عہدیدار جاوید خان نے کہا کہ یہ چیمپر افغان سرحد کے ذریعے ایرانی مصنوعات کی درآمد کو روکنے کے لیے حکومت پر زور دے رہا ہے۔

خان کے مطابق، پاکستان میں سیب کی ایک پیٹی پیدا کرنے پر 900 روپے (5.61 ڈالر) لاگت آتی ہے، جو عموماً 1,600 روپے (9.98 ڈالر) میں فروخت ہوتی ہے۔ ایران سے اسمگلنگ اس قیمت کو گرا کر 1,000 روپے (6.24 ڈالر) کر دیتی ہے۔

ڈان نے خبر دی کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے ایک مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزّاق داؤد نے نومبر میں سینیٹ کے ایک پینل کو بتایا کہ حکومت اسمگلنگ کی بیخ کنی کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

ایران سے سیبوں سمیت پھلوں اور دیگر اشیا کی سرحد پار سمگلنگ کا مسئلہ سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی برائے تجارت و ٹیکسٹائل صنعت کے ایک اجلاس کے دوران اٹھایا گیا۔

مردان کی پھل منڈی میں ایک فروشندہ محمّد نبی نے کہا، "حکومت کو مطالبہ کرنا چاہیئے کہ تجارت کو قانونی ذرائع کے تحت لایا جائے اور یہ کہ مقامی کاروباروں کو بھاری نقصانات سے بچانے کے لیے ایرانی محصولات ادا کریں۔"

انہوں نے کہا کہ پھلوں اور جوس کے علاوہ، ایران محصولات سے بچنے کے لیے غیر قانونی رستوں سے پاکستان کو پیاز اور ٹماٹر بھی بھیج رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران اسمگلنگ کی معاونت کر رہا ہے، جو پاکستان میں مقامی کسانوں اور تاجروں پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے۔

نبی نے کہا کہ ایران سے اسمگل ہونے والے پھلوں کا بڑا حصہ ریڑھیوں پر بیچا جا رہا ہے کیوں کہ دکاندار کہتے ہیں کہ وہ اپنے گاہکوں کو غیر معیاری پھل نہیں بیچ سکتے۔

"ہمارے گاہک معیاری اشیا چاہتے ہیں اور وہ قیمت ادا کرتے ہیں۔۔۔ ان میں سے زیادہ تر کم قیمتوں کے باوجود ایرانی پھل خریدنے کو تیار نہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500