پشاور -- مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں موسیٰ نیکا کے مزار، جسے سنہ 2011 میں طالبان نے بمباری کر کے نقصان پہنچایا تھا، کا دوبارہ کھلنا قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی پر امن کے غالب آنے کی علامت ہے۔
فرنٹیئر کانسٹیبلری خیبرپختونخوا (کے پی) کے انسپکٹر جنرل میجر جنرل محمد عمر بشیر نے 10 نومبر کو قبائلی عمائدین، مقامی انتظامیہ اور اعلیٰ سطحی حکام کے ہمراہ تجدیدِ نو کردہ مزار کا افتتاح کیا تھا۔
فوجی آپریشنوں جیسے کہ ضربِ عضب، جسے سیکیورٹی فورسز نے چھ سال پہلے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں فعال عسکری گروہوں کے خلاف شروع کیا تھا، کے دباؤ میں خطے میں دہشت گردی میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی ہے، جس سے مزار کی تعمیرِ نو ممکن ہوئی ہے۔
ایک مقامی صحافی، آدم خان وزیر نے کہا کہ طالبان کو نکالے جانے اور امن کی واپسی کا یہ مطلب بھی ہے کہ معتقدین مزار پر حاضری دینے میں اب مزید ہچکچاتے نہیں ہیں۔
وزیر نے کہا، "عوام میں موسیٰ نیکا اور ان کے مزار کے لیے بہت زیادہ احترام اور پیار پایا جاتا ہے، کیونکہ وہ وزیر قبیلے کے باپ تھے اور ایک نیک دینی شخصیت تھے۔"
ان کا کہنا تھا، "میں خوبصورت مقبرے کی تعمیرِ نو پر فرنٹیئر کانسٹیبلری کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ مقبرے کی تعمیرِ نو معتقدین اور صوفیوں اور بزرگوں کے پیروکاروں کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔"
مزار جنوبی وزیرستان ایجنسی میں سب سے بڑے شہر، وانا سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر، اور بیرمل وادی کے پہاڑی علاقوں میں افغان سرحد سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
سنہ 2000 میں طالبان کی جانب سے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد، مقامی خواتین و حضرات صوفی بزرگ موسیٰ نیکا کو سلام پیش کرنے کے لیے بڑی تعداد میں مزار پر حاضری دیتے تھے۔
دہشت گردی کے خلاف متحد
وانا بازار میں ایک دکاندار، شہزادہ وزیر نے کہا کہ مقامی باشندے مزار کی تعمیرِ نو کا خیرمقدم اور دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، جس نے قبائلی خطے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
انہوں نے کہا، "جب مزار پر حملہ کیا گیا تھا ۔۔۔ مقامی باشندوں میں شدید غم و غصہ تھا۔ ہم نے احتجاجی مظاہرے کے تھے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "پورا وانا بازار صدمے میں تھا۔ مقامی باشندوں نے دہشت گردوں کی مذمت کی اور دہشت گردی سے نفرت کا اظہار کیا۔"
وانا کے مقامی ایک سماجی کارکن، شاہ حسین نے کہا کہ طالبان کے اس فعل پر تمام عقائد کے ارکان کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، "موسیٰ نیکا ہمارے جدِ امجد تھے۔ ان کا مقبرہ ہماری شناخت کی علامت تھا۔ یہ ہماری ثقافت کا جزو اور تصوف کی ایک سیاحتی منزل بھی تھا۔ حتیٰ کہ جو لوگ موسیٰ نیکا کے معتقد نہیں بھی تھے انہوں نے بھی [بم دھماکے کی] مذمت کی تھی۔"
وانا سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی، ظفر خان وزیر نے کہا کہ موسیٰ نیکا کے مزار کی تعمیرِ نو نے خطے میں کئی برسوں کے فساد کے بعد مکینوں کو امن کی یقین دہانی کروانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، "مزار پر دھماکے نے وزیر قبائل کو غصہ دلایا تھا۔ مقبرے کی تعمیرِ نو مقامی افراد کا مطالبہ تھا، جسے حکام نے آخرکار پورا کر دیا ہے۔"