صحت

چین کے اعضاء کی پیوندکاری کرنے والے گروہوں کے ہاتھوں ناامید پاکستانیوں کا استحصال

از اشفاق یوسفزئی

سنہ 2017 میں، شنگھائی، چین کے ایک ہسپتال میں جونیئر طبی عملہ آرام کر رہا ہے جبکہ ایک مریض کی سرجری ہو رہی ہے۔ [چندن کھنہ/ اے ایف پی]

سنہ 2017 میں، شنگھائی، چین کے ایک ہسپتال میں جونیئر طبی عملہ آرام کر رہا ہے جبکہ ایک مریض کی سرجری ہو رہی ہے۔ [چندن کھنہ/ اے ایف پی]

پشاور -- اعضاء کی پیوندکاری کی شدید ضرورت کے حامل پاکستانی چین میں پیوندکاری کروا رہے ہیں، جہاں غیر محتاط ڈاکٹر اور خراب آلات سنگین پیچیدگیوں کا سبب بن رہے ہیں اور یہاں تک کہ اموات کا بھی۔

دوسری جانب، چینی نوسرباز غریب پاکستانیوں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ پیسے کے عوض اپنے اعضاء سے محروم ہو جائیں۔

پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ) میں گردے کی پیوندکاری کے ایک سرجن، ڈاکٹر اکرم خان نے کہا، "لوگ چین اس لیے جاتے ہیں کیونکہ وہ پیسے ادا کر کے باآسانی اعضاء حاصل کر سکتے ہیں، پاکستان کے برعکس، جہاں قانونی طور پر پیوندکاری ہوتی ہے مگر مریضوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے عطیہ کردہ اعضاء لگوانا درکار ہے۔"

ان کا کہنا تھا، مگر جب چین گئے تو مریضوں کو "ایسے اعضاء ملے جو یا تو مطابقت ہی نہیں رکھتے تھے یا بیمار لوگوں کے تھے، اور پیوندکاری غیر تربیت یافتہ عملے کی جانب سے کی گئی۔"

گرفتار شدہ ڈاکٹر فواد ممتاز (درمیان میں) اور اس کے طبی معاونین، جو گردوں کی پیوندکاری کے لیے غیر قانونی سرجریاں کر رہے تھے، 2017 میں لاہور میں پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے اسٹیشن پر کھڑے ہیں۔ [عارف علی / اے ایف پی]

گرفتار شدہ ڈاکٹر فواد ممتاز (درمیان میں) اور اس کے طبی معاونین، جو گردوں کی پیوندکاری کے لیے غیر قانونی سرجریاں کر رہے تھے، 2017 میں لاہور میں پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے اسٹیشن پر کھڑے ہیں۔ [عارف علی / اے ایف پی]

23 سالہ امید خان 26 مئی کو ادارہ برائے امراضِ گردہ، حیات آباد میں گردے کی پیوندکاری کروانے کے بعد روبصحت ہیں۔ ان کی ہمشیرہ نے گردہ عطیہ کیا تھا۔ [اشفاق یوسفزئی]

23 سالہ امید خان 26 مئی کو ادارہ برائے امراضِ گردہ، حیات آباد میں گردے کی پیوندکاری کروانے کے بعد روبصحت ہیں۔ ان کی ہمشیرہ نے گردہ عطیہ کیا تھا۔ [اشفاق یوسفزئی]

انہوں نے ایک 26 سالہ افغان شہری کے معاملے کا حوالہ دیا جو حال ہی میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اس کے جسم کی جانب سے پیوندکاری کردہ گردے کو قبول نہ کرنے کے بعد انتقال کر گیا تھا۔

خان نے کہا کہ وہ شخص دونوں گردے خراب ہونے کی وجہ سے چین گیا تھا اور اس نے پیوندکاری کے لیے 43،000 ڈالر (6.9 ملین روپے) ادا کیے تھے، مگر ایک ماہ بعد اسے پشاور لایا گیا، جہاں وہ انتقال کر گیا۔

انہوں نے کہا، "چین دیگر اعضاء کے ساتھ ساتھ جگر، گردے اور آنکھوں کے قرنیوں کی پیوندکاری کے لیے سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے،" ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور دیگر ممالک سے مریض بہترین دیکھ بھال حاصل کرنے کے سراب کا پیچھا کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ مگر آپریشن کے بعد، "اکثر ان میں پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "چین دنیا بھر کے امیدواروں کو اعضاء کی سستی پیوندکاری کی سرجری کی پیشکش کرتا ہے، مگر نتائج تسلی بخش نہیں ہیں۔"

غیر ملکیوں کو مجرموں کے اعضاء کی فروخت

حکومتِ پاکستان نے اعضاء کی غیر قانونی نقل و حمل کے خاتمے کے لیے انسانی اعضاء کی پیوندکاری کا محکمہ (ہوٹا) قائم کیا تھا اور پیوندکاری کو منضبط کرنے کے لیے ستمبر 2007 میں انسانی اعضاء اور بافتوں کی پیوندکاری کا آرڈیننس نافذ کیا تھا۔

ہوٹا کے ایک رکن، ڈاکٹر جاوید چٹھہ نے کہا، "سنہ 2006 میں، یہ بتایا گیا تھا کہ [پاکستان میں] گردے کی اندازاً 2،000 پیوندکاریاں کی گئی تھیں، جن میں سے 1،500 غیرملکیوں کی تھیں۔ اب، ہمارے ملک میں کسی بھی غیر ملکی کو گردہ یا دیگر اعضاء کی پیوندکاریاں نہیں کی جا رہی ہیں۔ اس قانون کے بن جانے کے بعد، متلاشی اب چین جاتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ قانون کی رُو سے، جن پاکستانی مریضوں کو اعضاء کی پیوندکاری درکار ہے انہیں ایسے عطیہ کنندگان کی ضرورت ہوتی ہے جو قریبی رشتے دار ہوں۔ عطیہ کرنے والوں اور وصول کنندگان کے ریکارڈز کی پڑتال نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کے ذریعے کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا، "اس چیز نے پاکستان میں غیر قانونی پیوندکاریوں کی تجارت کو بند کر دیا ہے، اور جنہیں عطیہ کرنے والے نہیں ملتے وہ چین جانے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں انہیں پیسوں کی ادائیگی کے بعد اعضاء ملتے ہیں۔"

چٹھہ کا کہنا تھا کہ چینی حکومت نے سنہ 1984 میں قانون بنایا تھا جس میں سزائے موت پانے والے مجرموں کے اعضاء نکال لینے کی منظوری دی گئی تھی، جس سے پیوندکاریوں کے لیے کثرت سے اعضاء دستیاب ہو گئے۔

انہوں نے کہا، "دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں نے یہ قانون بنانے پر چین پر تنقید کرتی رہی ہیں، مگر یہ روایت جاری ہے، اور چین غیر ملکیوں کو اعضاء کی فروخت سے بہت بڑی مقدار میں پیسہ کماتا ہے۔"

پشاور میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ماہرِ امراضِ چشم ذاکراللہ خان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں، عام طور پر اعضاء عطیہ کرنے والے اپنی وفات کے بعد ضرورت مند مریضوں کو اپنے اعضاء عطیہ کرنے کی رضامندی دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "مگر پاکستانی اعضاء عطیہ کرنے میں ہچکچاتے ہیں، اس لیے مریض یہ جاننے کے باوجود چین جاتے ہیں کہ وہ مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ میں، میں نے ایک درجن سے زائد ایسے مریضوں کا معائنہ کیا ہے جو چین سے قرنیئے کی پیوندکاری کروانے کے بعد مکمل طور پر بینائی سے محروم ہو گئے۔"

چارسدہ کے رہائشی، 25 سالہ سہیل احمد، اپنی دائیں آنکھ کے قرنیئے کی پیوندکاری کے لیے بیجنگ کے نزدیک ایک شہر گئے تھے۔

احمد نے کہا، "ہم نے 2،500 ڈالر [399،954 روپے] ادا کیے اور امید تھی کہ میری دھندلی بینائی بہتر ہو جائے گی، مگر ایک ماہ کے بعد، میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ چینی ڈاکٹروں کی جانب سے غلط طریقے سے آپریشن کرنے کی وجہ سے ان کی بینائی مکمل طور پر ضائع ہو گئی۔

ان کا کہنا تھا، "چین کے ایک ہسپتال کے پشاور میں مقامی ایجنٹ نے ہمیں وہاں بھیجا تھا۔ اب، ہم قرنیئے کی قانونی پیوندکاری کے لیے پشاور میں ڈاکٹروں کے پاس جا رہے ہیں۔ اب ہم فہرستِ منتظرین میں ہیں۔"

عطیہ کرنے کی روایت میں تبدیلی

ماہرِ امراضِ چشم، خان نے کہا کہ ان کے ہسپتال نے گزشتہ دو برسوں میں پشاور میں قرنیئے کی پیوندکاری کے 300 آپریشن کیے ہیں اور یہ کہ کامیابی کی شرح 98 فیصد سے زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ہمیں شمالی امریکہ کے پاکستانی نژاد معالجوں کی انجمن کی جانب سے مفت قرنیئے موصول ہوتے ہیں، جو ہم خراب قرنیئے والے مریضوں کو فراہم کرتے ہیں۔ اعضاء صحت مند ہوتے ہیں، اور تربیت یافتہ عملہ بہترین سہولیات کے ساتھ پیوندکاری کرتا ہے۔"

لاہور کے ایک جگر کی پیوندکاری کے سرجن، اے۔ شاہد احمد چودھری نے کہا کہ مایوسی کی حوصلہ شکنی کرنے اور اعضاء کی پیوندکاری کے لیے چین جانے کے دھوکے سے بچنے کا واحد طریقہ پاکستان میں اعضاء عطیہ کرنے کی روایت کو ترقی دینا ہے۔

انہوں نے کہا، "پاکستان میں ہمارے پاس 18 سے زائد قسم کے اعضاء کی پیوندکاری کے لیے سرجن اور سہولیات موجود ہیں، مگر ہمارے پاس عطیہ کنندگان نہیں ہیں، اس لیے مریضوں کو چین جانا پڑتا ہے، جہاں ان میں صحت کے اضافی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ چینی حکومت ایسے مشکوک اداروں اور سرجنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی کیونکہ یہ ہسپتال حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اس لیے قانونی نتائج سے بچ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اعضاء کی پیوندکاری کے بعد مریضوں کو ماہانہ معائنوں کی ضرورت پڑتی ہے، مگر ایسے آپریشن کروانے کے بعد چین سے واپس لوٹنے والوں کی رسائی ایسی سہولیات تک نہیں ہوتی، جس سے ان کی صحت بگڑ جاتی ہے۔

غرباء سے اعضاء جمع کرنا

حکام کے مطابق، چین میں واقع پیوندکاری کے مراکز کے ایجنٹس ممکنہ مریضوں کو لبھانے کے لیے نیز غرباء کو اپنے اعضاء سے محروم ہونے پر قائل کرنے کے لیے پاکستان میں مصروفِ عمل ہیں۔

ڈان نے خبر دی کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے 7 ستمبر کو چین میں اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث کثیر ملکی گروہ کو گرفتار کیا تھا۔

اس نے ساتھ مشتبہ عطیہ کنندگان اور ایجنٹوں کو گرفتار کیا تھا۔ ملزم ایجنٹ مبینہ طور پر غریب اور ضرورت مند افراد کو اپنے گردے یا اپنے جگر کا کچھ حصہ فروخت کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کرتے تھے، جس میں آپریشن چین میں ہونا ہوتا تھا۔

ڈان نے بتایا، "ابتدائی تحقیقات کے دوران، یہ معلوم ہوا کہ ایجنٹوں کے چین میں رابطے تھے، جہاں وہ چینی ڈاکٹروں سے پیوندکاری کرواتے تھے۔"

ایک ایجنٹ عطیہ کرنے والے کو تقریباً 2،500 ڈالر (401،250 روپے) ادا کرتا ہے اور اس کے چین کے سفر کا انتظام کرتا ہے۔ یہ رقم شدید معاشی مشکلات کے شکار کسی فرد کو بہت زیادہ لگ سکتی ہے مگر ایک عضو سے محروم ہونے کے بعد آپریشن کی ممکنہ پیچیدگیوں اور مشکلات کے مقابلے میں دھندلا جاتی ہے۔

پیوندکاری کروانے والا عام طور پر چین جانے کا اپنا انتظام خود کرتا ہے۔

خبر میں بتایا گیا کہ گروہ ایک بین الاقوامی مجرم تنظیم کا حصہ تھا۔

اس میں کہا گیا، "تحقیقات کے دوران، یہ انکشاف ہوا کہ گروہ نے حالیہ مہینوں میں تقریباً 30 افراد کو چین پہنچایا تھا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اچھی معلومات

جواب