تعلیم

باجوڑ کی پہلکار فارغ التحصیل خاتون ناخواندگی سے جنگ کرنے کا عزم رکھتی ہیں

حنیف اللہ

فاطمہ اقبال اپنے اسکول میں 13 مارچ کو پڑھا رہی ہیں۔ [حنیف اللہ]

فاطمہ اقبال اپنے اسکول میں 13 مارچ کو پڑھا رہی ہیں۔ [حنیف اللہ]

خار، باجوڑ ڈسٹرکٹ -- 24 سالہ فاطمہ اقبال، جنہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے لیے کبھی خود بھی مسائل کا سامنا کیا تھا، اب باجوڑ کی اپنی آبائی ڈسٹرکٹ میں ناخواندگی کا خاتمہ کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

گزشتہ جنوری میں، اقبال باجوڑ سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون بن گئیں جنہوں نے اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی سے طبیعیات میں اعلی کارکردگی پر سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

انہوں نے نومبر میں کہا کہ تعلیم حاصل کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ عسکریت پسندوں نے بہت سے اسکولوں کو تباہ کر دیا تھااور مقامی افراد کو اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنے سے روکنے کے لیے ڈرایا دھمکایا تھا، مگر یہ سب کچھ انہیں نہیں روک سکا۔

انہوں نے کہا کہ "میرے والد ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے میری تعلیم میں سرمایہ کاری کی"۔

فاطمہ اقبال 2 فروری کو اپنے گھر میں لیپ ٹاپ پر کام کر رہی ہیں۔ [حنیف اللہ]

فاطمہ اقبال 2 فروری کو اپنے گھر میں لیپ ٹاپ پر کام کر رہی ہیں۔ [حنیف اللہ]

انہوں نے کہا کہ بہت سے نقادوں نے ان کی حوصلہ شکنی کی کہ وہ طیبعیات کے مضمون کا انتخاب نہ کریں جس پر مردوں کی اجارہ داری ہے۔

تاہم، انہوں نے یہ ثابت کیا کہ "خواتین اگر محنت کریں تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں"۔

فاطمہ کے والد، ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ "لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعلیم بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ تعلیم یافتہ خاتون پورے خاندان کو تعلیم دے سکتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ذاتی طور پر میں اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیتا ہوں تاکہ انہیں اس قابل بناؤں کہ وہ ہمارے پس ماندہ معاشرے کے لیے کچھ کریں اور انہیں ایک اچھا مستقبل دے سکوں"۔

اقبال نے کہا کہ "میری دوسری بیٹی اس وقت سافٹ ویئر انجنیرنگ میں بی ایس کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بھی ہمیں قابلِ فخر بنائے گی"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "میں تمام والدین پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اسکول بھجیں تاکہ وہ بہتر تعلیم حاصل کر سکیں اور انہیں تعلیم سے خودمختار بنائیں کیونکہ ہمارے ملک میں صرف مضبوط خواتین ہی تبدیلی لا سکتی ہیں"۔

اس مقصد کے لیے، فاطمہ اقبال نے اپنے خاوند ثناء للہ جو کہ خود بھی معاشیات میں سونے کا تمغہ رکھتے ہیں، کے ساتھ مل کر گزشتہ سال اگست میں باجوڑ کے علاقے عنایت کلی میں لڑکیوں کا اولین نجی اسکول قائم کیا۔

انہوں نے کہا کہ "لڑکیوں کا نجی اسکول قائم کرنے کا بنیادی مقصد باجوڑ کی لڑکیوں کے لیے تعلیم کے معیاری مواقع فراہم کرنا تھا کیونکہ قبائلی ارکان اپنی بیٹیوں کو لڑکوں کے نجی اسکولوں میں نہیں بھیجتے ہیں۔ علاوہ ازیں، علاقے میں لڑکیوں کے اسکولوں کی کمی تھی"۔

فاطمہ اقبال نے کہا کہ "میرا مقصد باجوڑ میں ناخواندگی سے جنگ کرنا اور مزید اسکول کھولنا ہے کیونکہ ڈسٹرکٹ میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ میں نے قبائلی خواتین کے لیے ایک مثال بننے کے لیے خود کو چیلنج کیا"۔

انہوں نے کہا کہ "ایک خاتون وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو ایک مرد کر سکتا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "پاکستان جیسا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین کے لیے تعلیم کو لازمی قرار نہ دیا جائے --- خواتین پاکستان کی آبادی کا 50 فیصد حصہ ہیں اور ترقی کی طرف واحد راستہ خواتین کو تعلیم دینے کا ہے"۔

عسکریت پسندوں کے سامنے کھڑا ہونا

اپنے دورِ عروج میں، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر عسکریت پسند گروہوں نے قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کو دبایا تھا۔

انہوں نے اس وقت کی باجوڑ ایجنسی میں 2008 سے 2015 کے دوران 111 اسکولوں کو تباہ کیا جن میں لڑکیوں کے 12 اسکول بھی شامل تھے اورعلاقے کے لوگوں کو اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنے سے روکنے کے لیے خواتین اساتذہ تک کو ہلاک کر دیا تھا۔

اگست 2014 میں، نامعلوم عسکریت پسندوں نے تین خواتین اساتذہ، دو بچوں اور ان کے ڈرائیور کو باجوڑ ایجنسی میں ریموٹ کنٹرول بم سے ہلاک کر دیا تھا۔

عسکریت پسندوں نے نومبر 2009 میں باجوڑ کے لڑکیوں کے ایک اسکول کی دیگر دو خواتین اساتذہ کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔

باجوڑ کے نائب ضلعی تعلیمی افسر عبدل الرحمان نے کہا کہ "خیبر پختونخواہ کی حکومت نے 100 نئے پرائمری اسکولوں کی منظوری دی ہے اور ان کا ممکن العمل مطالعہ جلد شروع ہو جائے گا"۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں علم ہے کہ نئے انضمام شدہ علاقوں میںخواتین میں خواندگی کی شرح کم ہے۔ حکومت نئے اسکول قائم کرنے اور اساتذہ کو بھرتی کرنے سے خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے"۔

رحمان نے کہا کہ "ہم قبائلی اضلاع کے لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکولوں کے طلباء کو نقد وظیفہ دیں گے۔ لڑکوں کو 1000 روپے (6 ڈالر) اور لڑکیوں کو 2000 روپے (12 ڈالر) ماہانہ دیے جائیں گے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ منصوبہ کردہ 100 اسکولوں میں سے، اکثریت کو لڑکیوں کے لیے قائم کیا جائے گا۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکولوں کو جدید بنانے کا کام بھی ہونے والا ہے"۔

باجوڑ میں حکام نے والدین-اساتذہ کونسل فنڈز کے ذریعے اسکولوں پر 220 ملین روپے (1.4 ملین ڈالر) خرچ کیے ہیں۔ رحمان نے اس دورانیے کو واضح نہیں کیا جس کے دوران یہ رقم خرچ کی گئی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

حنیف اللہ صاحب! باجوڑ میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے آپ کے شاندار کام کے لیے شکریہ۔۔ وہ قابلیت کی بہترین مثال ہیں اور اب ان کی صلاحیتیں ہمارے معاشرے کو متحرک کرنے کے لیے استعمال ہونی چاہیئں۔

جواب