تعلیم

قبائلی اضلاع کے پی انضمام کے حصہ کے طور پر نئے تعلیمی مواقع کی تلاش میں

محمد شکیل

کرم ڈسٹرکٹ میں پاراچنار-زیران سڑک پر 24 ستمبر کو ہزارہ قبرستان پُل پر تعمیر کا کام جاری ہے۔ [محمد شکیل]

کرم ڈسٹرکٹ میں پاراچنار-زیران سڑک پر 24 ستمبر کو ہزارہ قبرستان پُل پر تعمیر کا کام جاری ہے۔ [محمد شکیل]

پشاور -- قبائلی علاقے جو کسی زمانے میں انتہاپسندی اور عسکریت پسندی سے متاثر تھے، اب خوشحالی کے ایک نئے دور کے لیے پُرامید ہیں کیونکہ خیبر پختونخواہ (کے پی) کے نئے انضمام شدہ علاقوں میں نجی اور سرکاری شعبوں کی پہل کاریاں جاری ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان پہلکاریوں کا مقصد جنگ سے تباہ ہونے والے علاقوں کو ترقی دینا اور بڑھوتری اور ترقی کے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔

کے پی کی ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹی ای وی ٹی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر زرغون شاہ نے کہا کہ تنظیم "نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم کے جدید میدانوں میں تربیت دینے اور انہیں ایک باعزت روزگار فراہم کرنے کے لیے" کام کر رہی ہے۔

انہوں نے 10 نومبر کو کہا کہ ٹی ای وی ٹی اے انضمام شدہ اضلاع کے نوجوانوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جہاں شہریوں کو ابھی تک عسکریت پسندی اور شورش پسندی کے پس منظر میں مسائل کا سامنا ہے۔

پاراچنار، کرم ڈسٹرکٹ میں 23 ستمبر کو ریسکیو 1122 کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی۔ [ریسکیو 1122]

پاراچنار، کرم ڈسٹرکٹ میں 23 ستمبر کو ریسکیو 1122 کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی۔ [ریسکیو 1122]

"ان علاقوں کے نوجوانوں کو مناسب پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو ترقی کے نئے مواقع فراہم کرے اور مناسب ترین طریقے سے ان کی توانائیوں کو استعمال کرے"۔

شاہ کے مطابق، قبائلی نوجوانوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے، ٹی ای وی ٹی اے چار سرکاری پولی ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ تعمیر کر رہی ہے جو ڈیرہ آدم خیل اور کالیا کے قبائلی علاقوں میں ہیں، اور اس کے ساتھ ہی مانسہرہ میں لڑکیوں اور لڑکوں کا ایک ایک پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ بھی اس میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ انسٹی ٹیوٹ، جن کے بارے میں توقع ہے کہ وہ اگلے سال جون میں مکمل ہو جائیں ہے، ان علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھول دیں گے"۔

انہوں نے کہا کہ "2018 میں کے پی اور قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد، قبائلی نوجوان اپنی خداداد صلاحیتوں کو اپنے لیے اور اپنے علاقوں کے لیے زیادہ بہتر طور پر استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ٹی ای وی ٹی اے انسٹی ٹیوٹ اور ووکیشنل سینٹرز، 35,000 نوجوانوں کو مختلف میدانوں میں تعلیم فراہم کر رہے ہیں جن میں قبائلی اضلاع کے نوجوان بھی شامل ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال، ٹی ای وی ٹی اے ایسے 10 قبائلی نوجوانوں کی تعلیم و رہائش کا خرچہ اٹھاتا ہے جو غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجنیرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

شاہ نے کہا کہ "انضمام نے قبائلی علاقوں میں ترقی کے امکانات کو بڑھا دیا ہے جو کہ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں صفِ اول میں لڑ رہے تھے"۔

قبائلی علاقوں میں ترقی

کے پی کے وزیرِ اطلاعات کامران خان بنگش نے کہا کہ "کے پی کی حکومت نے قبائلی پٹی کو ترقی دینے کے لیے ایک نتیجہ خیز منصوبہ بنایا ہے ۔۔۔ لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کو ترجیح دینااور ان میں محرومی کے احساس کو ختم کرنا"۔

انہوں نے کہا کہ "جو علاقے گزشتہ دہائی کے دوران، عسکریت پسندی اور غیر یقینی سے تباہ ہوئے تھے، نے پاکستانی حکام کی طرف سے اپنائی جانے والی پالیسیوں کے ثمرات سے مستفید ہونا شروع کر دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "انضمام شدہ علاقوں کی ترقی اور قبائل کو ملک کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا، حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، حکومت نے بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں جن کے لیے کثیر سرمایہ مختص کیا گیا ہے"۔

بنگش کے مطابق، انضمام کے بعد سے، حکومت نے تعلیم، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ریسکیو 1122 اور مقامی سرعتی نفاذ پروگرام (اے آئی پی) منصوبوں، عدالتی نظاموں اور دوسرے شعبوں سے متعلق کثیر بجٹ مختص کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "تبدیلی ناگزیر ہے اور قبائل انضمام کے بعد شروع ہونے والے ترقیاتی عمل کے ثمرات سے جلد لطف اندوز ہونا شروع کر دیں گے"۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم تک رسائی طویل عرصے سے ملک کو شہرت، عالمی عزت اور بہتر مستقبل کی طرف لے جانے کے واحد راستے کے طور پر دیکھی جاتی رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کے پی کی حکومت نے معاشرے کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت کا احساس کرنے کے بعد، تعلیم کے شعبے پر غیر معمولی توجہ مرکوز کی ہے"۔

ایکسپریس ٹریبیون نے ستمبر میں خبر دی تھی کہ صوبائی حکومت نے گزشتہ سال کے دوران، انضمام شدہ قبائلی علاقوں میں مختلف منصوبوں پر 24 بلین روپے (150 ملین ڈالر) خرچ کیے ہیں۔

اے آئی پی منصوبوں کے حصہ کے طور پر، کے پی کی حکومت نے تعمرِ نو پر 12 بلین روپے (75 ملین ڈالر)، انضمام شدہ علاقوں میں تنازعات سے متاثر ہونے والے کاروباروں کی بحالی کے لیے 6.6 بلین روپے (41 ملین ڈالر)، ریسکیو 1122 کی خدمات کو ضلع کی سطح پر فراہم کرنے کے لیے 1.5 بلین روپے (9.4 ملین ڈالر) اور قبائلی اضلاع میں مختلف پرائمری و اسکینڈری اسکولوں کے منصوبوں پر 2.9 بلین روپے (18 ملین ڈالر) خرچ کیے ہیں۔

نئے مواقع

کرم ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ ملک معین حسین نے کہا کہ پاکستانیوں کی سوچ اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک انہیں اپنے آپ کو تبدیل کرنے اور ترقی کرنے کے مواقع نہیں مل جاتے۔

انہوں نے کہا کہ "ایسی ترقی جو شہریوں کو مستقبل کے بہتر مواقع کے بارے میں امید دیتی ہے، ان کے بہکنے کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ اپنے علاقوں میں ترقی کو دیکھنا، جو کسی زمانے میں عسکریت پسندوں کا گڑھ تھے، ایک اچھا شگن ہے جو انضمام شدہ قبائلی علاقوں کے شہریوں کی نجات کا راستہ ہموار کرے گا"۔

انہوں نے کہا کہ "ایسے قبائلی ارکان جنہیں انضمام سے پہلے، غیر یقینی حالات میں زیادہ مواقع میسر نہیں تھے، اب اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اعلی حکام تک اپنی تشویش کو بہتر طریقے سے پیش کر سکتے ہیں"۔

حسین نے کہا کہ انضمام شدہ علاقوں میںعدالتی نظام، پولیس فورس،ضلعی انتظامیہ اور دیگر حکومتی شعبوں میں توسیع، قبائلی ارکان کا طویل عرصے سے کیا جانا والا مطالبہ تھا، جسے حکام نے پورا کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "قبائلی علاقوں میں کے پی حکومت کی وسیع پہلکاریوں سے ان علاقوں میں رہنے والے تمام معاشرے پر ان گنت اثرات ہوں گے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "قبائلی شہریوں سے کیے جانے والے تمام وعدوں کو پورا کیا جانا چاہیے جنہوں نے انتہاپسندی کے دور میں انتہائی غیر یقینی حالات کا مقابلہ کیا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500