تعلیم

خطرناک ڈاکٹر: روسی، چینی میڈیکل اسکولوں کی جانب سے مشکوک ڈگریوں کا اجراء

از اشفاق یوسفزئی

پشاور میں میڈیکل کا ایک طالب علم 9 نومبر کو لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

پشاور میں میڈیکل کا ایک طالب علم 9 نومبر کو لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

پشاور -- خیبرپختونخوا (کے پی) حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ان ڈاکٹروں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کر دیا ہے جنہوں نے روس اور چین میں واقع یونیورسٹیوں اور کالجوں سے طب کی مشکوک ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں۔

کے پی محکمۂ صحت کے ایک سینیئر اہلکار، ڈاکٹر ہاشم خان نے منگل (10 نومبر) کے روز کہا، "ہم نے ڈاکٹروں کے خلاف تحقیقات شروع کی ہیں اور 28 ایسے ڈاکٹروں کو نوٹس جاری کیے ہیں جو چین اور روس سے ڈگریاں حاصل کرنے کے دعویدار ہیں۔ وہ شعبۂ صحت میں پچھلے پانچ سے 10 برسوں سے کام کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ چین اور روس میں میڈیکل سکول قیمتی زرِ مبادلہ سے جیبیں بھرنے اور منافع کمانے کے لیے پاکستان جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کو ڈگریاں دینے کے لیے بدنام ہیں۔

بعض اوقات، کسی ملک کے فرضی سکول میں جسمانی طور پر موجودگی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

پشاور میں میڈیکل کے طلباء و طالبات 9 نومبر کو سینیئر ڈاکٹر کے ساتھ کام کرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

پشاور میں میڈیکل کے طلباء و طالبات 9 نومبر کو سینیئر ڈاکٹر کے ساتھ کام کرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

خان نے مزید کہا، "چند ایک ادارے پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے تسلیم شدہ ہیں، مگر اکثریت نے ایسے طلباء و طالبات کو ڈگریاں جاری کی ہیں جو ان ممالک میں گئے بھی نہیں مگر ان کالجوں کے دلالوں کے ذریعے ڈگریاں وصول کر لیں۔"

ان کا کہنا تھا، "بہت سے پاکستانی طلباء و طالبات جنہیں ڈگریوں سے نوازا گیا تھا یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ وہ حقیقتاً سند یافتہ ہیں، اگرچہ ہم نے انہیں اہلیت ثابت کرنے کے لیے ایک سال سے زیادہ وقت بھی دیا تھا۔"

"ہم نے روس میں واقع یونیورسٹیوں سے رابطہ کیا جہاں سے ان ڈاکٹروں نے اپنی ڈگریاں وصول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، مگر ان میں سے نصف کا وجود صرف کاغذوں میں تھا اور باقی پی ایم سی کی جانب سے تسلیم شدہ نہیں تھیں۔"

خان نے کہا کہ چین کے میڈیکل سکولوں سے تعلیم یافتہ مزید 16 طلباء و طالبات مشکوک ڈگریوں کے حامل تھے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ جعلی ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے کام کرنے والے طلباء و طالبات نیز جو پہلے ہی ڈاکٹر بن کر کام کر رہے ہیں ان کے خلاف ملک بھر میں کارروائی کرے۔

پی ایم اے کی مرکزی شاخ کے سیکریٹری، کراچی کے ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا، "وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ اس روایت کو ختم کرنے اور عوام کی صحت کو بچانے کے لیے دونوں ممالک سے رابطہ کرے۔ وہ نام نہاد طبی تعلیم کے نام پر بھاری مقدار میں غیر ملکی زرِمبادلہ کما رہے ہیں۔"

دونوں ممالک پاکستانی طلباء و طالبات کو راغب کرنے کے قابل ہیں کیونکہ پاکستان کے بہت سے میڈیکل سکولوں میں پڑھنے کے لائق نہیں ہیں مگر ایک غیر ملکی ڈپلومہ خریدنے کو تیار ہیں۔

پاکستان میں ہر سال، اوسطاً تقریباً 200،000 طلباء و طالبات ڈینٹل یا میڈیکل سکول کے لیے داخلے کے امتحانات دیتے ہیں۔ تقریباً 10،000 کو ملک کے 167 میڈیکل اور ڈینٹل سکولوں میں داخلہ ملتا ہے۔

خان کا کہنا تھا، "مگر روس یا چین میں یہ معیار نہیں ہے، اور جو بھاری فیسیں ادا کر سکتے ہیں انہیں داخلہ مل جاتا ہے۔ نتیجتاً، ان میں سے چند ایک کو سرکاری ملازمتیں مل جاتی ہیں، جبکہ اکثریت نجی پریکٹس شروع کر دیتی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے بہت سے ڈاکٹر ہیں جنہوں نے چین اور روس سے ڈگریاں حاصل کی ہیں مگر ان کے پاس طب کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہم وقتاً فوقتاً اس تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں، اور ہمارا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت پاکستانی طلباء و طالبات کے دونوں ممالک سے طب کی ڈگریاں حاصل کرنے پر پابندی عائد کرے۔"

انہوں نے کہا، "وہ مریضوں کی مدد کرنے کی بجائے انہیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔"

طلباء و طالبات کی جانچ پڑتال

پی ایم سی کے ایک اہلکار، اسلام آباد کے ڈاکٹر عمر رئیس نے کہا کہ پی ایم سی پاکستان میں طب کی تعلیم کے ضوابط کو بہتر بنانے کی کوششکرتی رہی ہے۔

انہوں نے کہا، "ہم پہلے ہی کرغیزستان کو پاکستانی طلباء و طالبات کو طب کی ڈگریاں دینے کے لیے بلیک لسٹ کر چکے ہیں، اور چین، روس اور دیگر ممالک کے سکولوں کی جانب سے پاکستانی طلباء و طالبات کو پہلے سے دی گئی ڈگریوں کی چھان بین کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے پاکستان میں بہتر ضوابط لانے اور طبی تعلیم اور روایات کی نگرانی کرنے کا کام پی ایم سی کے ذمے لگایا ہے۔

انہوں نے کہا، "ہم غیر ملکی یونیورسٹیوں کی جانب سے پاکستانیوں کی ڈگریوں کی حیثیت کی پڑتال کرنے کا عمل شروع کر رہے ہیں، اور جن کی اسناد مشکوک پائی جائیں گی ہم ان لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔"

رئیس کا کہنا تھا، "اس وقت، روس اور چین کے طبی سکولوں میں اندازاً 10،000 [پاکستانی] طلباء و طالبات داخل ہیں، اکثریت ان یونیورسٹیوں میں ہے جن کے پاس موزوں تدریسی عملہ نہیں ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان چند ایک روسی اور چینی اداروں کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ ان کا تدریسی عملہ اچھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر بھی، ان کی اکثریت ایسی ہے جو پیسے ادا کرنے والے کسی بھی شخص کو ڈگری دے کر محض پیسے کمانے کے لیے ہے۔ مزید برآں، کچھ الزامات کے مطابق، ان نام نہاد طبی سکولوں میں سے بیشتر کا کوئی حقیقی تدریسی عملہ نہیں ہے اور اس کی بجائے وہ کوریئر سروسز اور اپنے دلالوں کے ذریعے طلباء و طالبات کو اپنی ڈگریاں فروخت کرتے ہیں۔

ضلع بنوں میں سرکاری شعبے کے ایک طبی کالج کے ڈین، ڈاکٹر شفیق احمد نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کی گئی کارروائی خوش آئند ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں نالائق ڈاکٹروں کو مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے روکا جائے گا۔

انہوں نے کہا، "دیگر صوبوں کو کے پی کی مثال کی پیروی کرنی چاہیئے کیونکہ گزشتہ چند دہائیوں میں ہزاروں ڈاکٹروں نے چین سے ڈگریاں خریدی ہیں۔ اب یا تو وہ سرکاری شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں یا اپنے ذاتی کلینک چلا رہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں، خطرے کی زد میں تو عوام ہی ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ ایسے ڈاکٹروں کو سرکاری شعبے سے نکالا جانا چاہیئے، جبکہ پاکستانی طلباء و طالبات -- جنہوں نے سخت مقابلے کے بعد مقامی طبی سکولوں میں داخلہ لیا تھا اور سخت محنت کی تھی -- مریضوں کا علاج کرنے کا موقع دیئے جانے کے حقدار ہیں۔

احمد نے کہا کہ پاکستان میں طبی تعلیم کی اسناد کا مقابلہ زیادہ شدت کے ساتھ روس اور چین میں ناپختہ معیارات کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا، مثال کے طور پر، پاکستان میں، پڑھائی کے پانچ برسوں کے بعد طب میں فارغ التحصیل ہونے والوں کے لیے 500 بستر کے ایک ہسپتال میں ایک سالہ ریزیڈنسی لازمی ہے، جبکہ روس اور چین ایسے تقاضوں کے بغیر ہی طلباء و طالبات کو ڈگریاں دے دیتے ہیں۔

جنوری میں، حکومتِ پاکستان نے ورلڈ فیڈریشن آف میڈیکل ایجوکیشن (ڈبلیو ایف ایم ای) کی جانب سے مقرر کردہ کم سے کم معیارات کو اختیار کرنے میں مدد کے لیے ملک بھر کے میڈیکل اور ڈینٹل سکولوں کے معائنے کروائے تھے۔

ان کا کہنا تھا، "تقریباً 40 سکولوں کو اپنی کمیوں کوتاہیوں پر قابو پانے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے تھے، اور سال کے آخر میں ان کا دوبارہ معائنہ کیا جائے گا۔ یہ عمل ڈبلیو ایف ایم ای کی رہنماء ہدایات کے مطابق ملک میں معیاری طبی تعلیم اور بہترین کلینیکل نگہداشت کو یقینی بنانے کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ تصدیق کرے آیا کہ روس اور چین کے وہ سکول جنہوں نے پاکستانی طلباء و طالبات کو ڈگریوں سے نوازا تھا وہ ڈبلیو ایف ایم ای کی رہنماء ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

حقیقت یہ ہے کہ آپ چین اور روس سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں لیکن طبی علم اور ہنر کے علاوہ۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور روس کے ڈاکٹر پاکستان میں این ایل ای کا امتحان پاس نہیں کر سکتے۔

جواب

اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اور روس جیسے بیرونی ممالک دہرے عالمی سطح کے معیار کے ساتھ ایم بی بی ایس کی اسناد پیش کرتے ہیں؛ ان کی جامعات ڈبلیو ایچ او اور متعدد عالمی تنظیموں سے منظورشدہ ہوتی ہیں، جبکہ پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش کے کالجوں کی اسناد کم معیار کی ہوتی ہیں اور بیرونی ممالک میں ان کی کوئی قدر نہیں۔ آپ ایف ایس سی 2022 کے نتائج دیکھ لیں، سینکڑوں طلبہ نے 1100/1100 نمبر حاصل کیے اور وہ داخلہ کا امتحان بھی پاس نہ کر سکے۔ ایسا ہی پاکستان کے میڈیکل کالجز کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں متعدد ایسے نجی میڈیکل کالج اور جامعات ہیں جو معیاری تعلیم کے بغیر اپنی ایم بی بی ایس کی اسناد مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ ایسے کالج اس قسم کے بلاگ شائع کرتے ہیں اور دیگر ممالک کے تعلیمی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور معصوم لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی ایسا میڈیکل کالج/جامعہ نہیں جو چین کی جامعات کے معیار کا مقابلہ کر سکے۔

جواب

Pakistan's top university Agha is not even in top 900 medical universities of the world.Look at our standard now and you are judging leading countries in medical world.thori sharm khao kis mun se u ko judge kr rhe ho.

جواب