جرم و انصاف

پشاور کی مصالحتی کونسلوں میں اقلیتوں، خواتین کو نمائندگی مل گئی

جاوید خان

پشاور کے سی سی پی او محمد علی گنڈاپور (درمیان میں) کی اکتوبر میں پشاور کے علاقے گلبرگ میں ڈی آر سی کے ارکان کے ساتھ لی گئی گروپ فوٹو۔ [کے پی پولیس]

پشاور کے سی سی پی او محمد علی گنڈاپور (درمیان میں) کی اکتوبر میں پشاور کے علاقے گلبرگ میں ڈی آر سی کے ارکان کے ساتھ لی گئی گروپ فوٹو۔ [کے پی پولیس]

پشاور -- اقلیتی گروہوں کے ارکان اور خواتین خیبر پختونخواہ (کے پی) کیمصالحتی کونسلوں (ڈی آر سیز) میں شامل ہو رہے ہیں تاکہ مقامی برادریوں میں مختلف معاملات کو حل کرنے میں مدد کی جا سکے۔

پہلی ڈی آر سی 2014 میں پشاور میں قائم کی گئی تھی اور اب کے پی کی ہر ڈسٹرکٹ میں ایسی کونسلیں موجود ہیں۔

ہر تین رکنی ڈی آر سی، سابقہ ججوں، وکلاء، سرکاری ملازمین، پروفیسروں، قانون سازوں، وزراء اور دیگر پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ مختلف معاملات کو سنتی اور فیصلے جاری کرتی ہے۔

پشاور کے علاقے گلبرگ کی ڈی آر سی نے دو نئے ارکان کو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں شامل کیا، سموئیل، ایک عیسائی جو واحد نام سے جانے جاتے ہیں اور صائمہ عنبرین جو کہ ایک خاتون ہیں۔

دو الگ الگ تصویروں میں، کیپیٹل سٹی پولیس افسر محمد علی گنڈاپور(دائیں) اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گلبرگ میں مصالحتی کونسلوں کے نئے ارکان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ [کے پی پولیس]

دو الگ الگ تصویروں میں، کیپیٹل سٹی پولیس افسر محمد علی گنڈاپور(دائیں) اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گلبرگ میں مصالحتی کونسلوں کے نئے ارکان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ [کے پی پولیس]

کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) پشاور محمد علی گنڈاپور نے 5 نومبر کو کہا کہ "ہم نے پہلی بار ایک مسیحی رکن کو شامل کیا ہے تاکہ وہ اپنے (مسیحی) ارکان اور دیگر مذاہب کے ارکان کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں مدد کر سکیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ مزید خواتین ان کونسلوں میں شامل ہو رہی ہیں تاکہ ایسی خواتین کو پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکے جنہیں اپنے خاندان کے ساتھ یا معاشرے کے دوسرے ارکان کے ساتھ تنازعات کا سامنا ہے۔

گنڈاپور نے کہا کہ "اقلیتی گروہ کے ایک رکن کو شامل کرنا کا مقصد اقلیتوں کو نمائندگی دینا تھا تاکہوہ کسی بھی مسئلے کے سلسلے میں کونسل سے رابطہ کر سکیں ۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ "گلبہار میں ڈی آر سی نے 1,892 تنازعات اور گلبرگ میں مزید 904 تنازعات کو حل کیا ہے" کہا کہ پشاور کی پانچ ڈی آر سیز نے گزشتہ چھہ سالوں میں 2,862 تنازعات کو حل کیا ہے۔

اقلیتی ارکان کو ڈی آر سی میں شامل کرنے سے پشاور اور کے پی کے دوسرے حصوں کے ہزاروں مسیحی، سکھ اور ہندو خاندانوں کے تنازعات کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

انصاف کی فراہمی

سموئیل نے کہا کہ "ڈی آر سی کے رکن کے طور پر میں مسیحی برادری اور اس کے ساتھ ہی دوسرے مذاہب کو درپیش مختلف مسائل کو حل کرنے کی اپنی ہر ممکن کوشش کروں گا"۔

پشاور کے علاقے سواتی سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی شہزاد مسیح نے کہا کہ "یہ پاکستان کی مسیحی برادری اور دیگر اقلیتوں کے لیے ایک اچھی نشانی ہے کیونکہ وہ اپنے ڈی آر سی رکن تک کسی بھی مسئلے کے بارے میں آسانی سے رسائی حاصل کر سکیں گے"۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں، زمین اور رقم کے بارے میں تنازعات ابھرتے رہے ہیں۔

ایک مقامی مسیحی شخص ندیم جوزف اگست میں سواتی کے علاقے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ پولیس نے اس واقعہ سے تعلق پر دو ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔

پشاور پولیس کے ایک ترجمان الیاس خان نے کہا کہ "دونوں ملزمان جو کہ مسلمان تھے کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ہسپتال میں پولیس اہلکاروں نے ندیم کی جان بچانے کے لیے خون کا عطیہ بھی دیا"۔

گلبہار، پشاور سے تعلق رکھنے والی خاتونِ خانہ عذرا سہیل نے کہا کہ "پشاور اور دیگر ڈسٹرکٹس میں ڈی آر سیز میں کئی خواتین شامل ہیں جو کہ خاتون شکایت دہندگان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے بہت اچھا کام کر رہی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان میں زمین کا جھگڑا تھا جسے ڈی آر سی نے چند ہفتوں میں ہی حل کر دیا۔

پشاور پولیس کے سپریٹنڈنٹ عبدل سلام نے کہا کہ "ڈی آر سی کے ارکان کو صرف اس وقت ہی شامل کیا جاتا ہے جب خصوصی برانچ اور دیگر انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ذریعے اس کا ریکارڈ چیک کر لیا جاتا ہے تاکہصرف ایسے لوگ ہی ان کونسلوں کا حصہ بن سکیں جن کی ساکھ اچھی ہے

انہوں نے کہا کہ ڈی آر سیز جنہوں نے قبائلی اضلاع میں کام کرنا شروع کیا ہے، نے ہزاروں خونی جھگڑوں اور دیگر مسائل کو حل کیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500