دہشتگردی

پاکستان نے دہشت گردی سے تعلقات کا خاتمہ کرنے کے لیے ہزاروں مدرسوں کا اندراج شروع کر دیا

ضیاء الرحمان

مدرسہ کے طلباء اپریل 2019 کو کراچی کے ایک مدرسے میں سالانہ امتحان دے رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

مدرسہ کے طلباء اپریل 2019 کو کراچی کے ایک مدرسے میں سالانہ امتحان دے رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

اسلام آباد -- کئی مدرسہ بورڈز کے راہنماؤں کے ساتھ بہت مہینوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد، پاکستانی حکام نے ملک بھر میں کام کرنے والے 30,000 سے زیادہ مذہبی اسکولوں کے اندراج کا کام شروع کر دیا ہے جس کا مقصد دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری اور بھرتی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کی وزارت نے 2 اکتوبر کے بعد سے، شہر اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر 133 دفاتر قائم کیے ہیں تاکہ اس عمل کو سہل بنایا جا سکے۔ یہ بات وزارت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک اعلان میں بتائی گئی۔

وزارت نے مقامی اخبارات میں اشتہار شائع کیے ہیں تاکہ مدرسوں کے منتظمین کو راہنمائی اور اندراج کے مراکز کے پتہ کے بارے میں معلومات فراہم کی جا سکیں۔ یہ بات وزارت کے ایک سینئر اہلکار، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کی ہے، نے بتائی۔

اہلکار نے کہا کہ "مدرسوں کا اندراج، حکومت کے ایک جامع منصوبہ کا حصہ ہے جس کا مقصد مذہبی اسکولوں کو اپنے کنٹرول میں لانا، مذہبی تعلیم کو بنیادی دھارے میں شامل کرنا، ان کے نصاب میں جدید مضامین کو شامل کرنا اور ان کی فنڈنگ کو شفاف بنانا ہے۔

کراچی میں ایک صحافی 3 اکتوبر کے مدرسوں کے اندراج کے بارے میں حکومت کے اشتہار کو آن لائن پڑھ رہا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی میں ایک صحافی 3 اکتوبر کے مدرسوں کے اندراج کے بارے میں حکومت کے اشتہار کو آن لائن پڑھ رہا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے مدرسوں کے اندراج کا ایک مثبت ردعمل دیکھا ہے جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ کوشش اپنا مقصد -- تمام مدرسوں کو وزارتِ تعلیم کے پاس درج کرنا -- حاصل کر لے گی۔

اہلکار نے کہا کہ حکومت نے اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان (آئی ٹی ایم پی) جو کہ ملک میں پانچوں مکاتبِ فکر کی مدرسوں کی نمائںدگی کرنے والا ادارہ ہے، کے ساتھ اگست 2019 میں ہونے والے ایک معاہدے کے بعد اندراج کا عمل شروع کیا۔

اندراج کا عمل مارچ میں شروع ہونا تھا مگر کرونا وائرس کی عالمی وباء کے باعث اس میں تاخیر ہو گئی۔

ماضی میں، یکے بعد دیگرے پاکستانی حکومتوں -- سویلین اور فوجی -- مدرسوں کی نگرانی کی کوششوں میں ناکام رہی ہیں اور اس کی وجہ مذہبی گروہوں کی طرف سے ڈالا جانے والا دباؤ ہے جو ان اصلاحات کو مغربی حمایت یافتہ، اسلام مخالف منصوبہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں تقریبا 30,000 ہزار مدارس ہیں جن میں 3 ملین سے زیادہ طلباء داخل ہیں جو قرآن حفظ سے لے کر عربی ادب میں مہارت اور اسلامی فقہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

مدرسوں کا اندراج اور نگرانی، نیشنل ایکشن پلان (این اے پی)، جو کہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک پالیسی ہے جسے حکومت نے جنوری 2015 میں طالبان کے عسکریت پسندوں کی طرف سے دسمبر 2014 میں پشاور میں اسکول کے 150 بچوں کو ہلاک کیے جانے کے بعد اپنایا تھا، کے 20 مقاصد میں سے ایک رہا ہے۔

این اے پی کے حصہ کے طور پر، صوبائی حکومتوں نے مدرسوں میں سے اکثریت کی ڈیجیٹل میپنگ مکمل کر لی ہے جس میں جائے مقام کے بارے میں معلومات اور جی پی ایس کوآرڈینیٹ شامل ہیں۔

این اے پی میں دہشت گردوں کو سرمایے کی فراہمی کو روکنے کی کوشش کی گئی جس کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ملک کے مرکزی بینک نے مدرسوں کے سرمایے کی نگرانی کا آغاز کیا۔

آئی ٹی ایم پی کے ساتھ وابستہ حالیہ معاہدوں کے تحت، حکومت ایسے تمام مدارس کو بند کر دے گی جو وزارت کے ساتھ اندراج سے انکار کریں گے اور انہیں بینک اکونٹ کھولنے سے روک دیا جائے گا۔

دہشت گردی کے خلاف اگلا قدم

یہ ایسے اقدامات کے لیے بہت اچھا وقت ہے۔ یہ بات کراچی سے تعلق رکھنے والے محقق، ابوبکر یوسف زئی، جنہوں نے مدارس کے ساتھ امن کے قیام کے منصوبوں پر کام کیا ہے، نے کہی۔

انہوں نے کہا کہ "اندراج اور قواعد کے علاوہ حکومت نے عملی طور پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے"۔

یوسف زئی نے کہا کہ چونکہ دہشت گرد تنظیموں پر فوجی کریک ڈاؤن ایسے گروہوں کو کمزور کرنے میں کامیاب رہا ہے اس لیے حکومت کی طرف سے قواعد پر توجہ مرکوز کرنا اگلا منطقی قدم ہے۔

انہوں نے انٹیلیجنس کی ایسی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے، جن میں تجویز کیا گیا تھا کہ کچھ مدرسے کالعدم دہشت گرد گروہوں کے لیے بھرتیاں کرنے اور سرمایہ فراہم کرنے میں ملوث ہیں، کہا کہ "مذہبی اسکولوں کو منظم کرنے سے عسکریت پسندوں اور دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری سے ان کو تعلقات کو ختم کرنے میں مدد کرے گا"۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے قدم سے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تجاویز پر عمل کرنے میں مدد ملے گی۔ پیرس سے تعلق رکھنے والے بین الاحکومتی ادارے نے پاکستان کو، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری کے خلاف اقدامات اٹھانے میں ناکامی پر، جون 2018 میں باضابطہ طور پر اپنی گرے لسٹ میں شامل کر لیا تھا۔

مدارس کے منتظمین نے حکومت کی طرف سے مدرسوں سے معاملات نپٹانے کی ذمہ داری وزارتِ تعلیم کو دینے کے فیصلے کی تعریف کی ہے۔

ماضی میں، بہت سی وزارتوں اور حکومتی اداروں -- جسے کہ کامرس، داخلہ اور مذہبی امور کو سنبھالنے والے اداروں -- نے مدرسوں کی نگرانی کی ہے۔ یہ بات کراچی کے ایک مدرسے کے منتظم قاری عبدل رشید نے بتائی۔

رشید نے کہا کہ وزارت کے ساتھ اندراج سے اسکولوں کو بینک اکاونٹ کھولنے اور دیگر حکومتی مراعات حاصل کرنے میں آسانی رہے گی جیسے کہ مدارس کے طلباء کی طرف سے اسکول اور کالج کے بورڈ کے امتحانات میں حصہ لینا اور اپنی ڈگریاں حاصل کرنا۔

رشید نے کہا کہ "ماضی میں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے معلومات حاصل کرنے کے نام پر، اساتذہ اور طلباء کو ہراساں کرنے کی پالیسی اپنائی تھی"۔ انہوں نے س امید کا اظہار کیا کہ حالیہ کوششوں سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500