جرم و انصاف

پاکستان نے امریکہ کی سربراہی میں بچوں کی غیر قانونی تحویل کو ہدف بنانے والے بین الاقوامی ادارے میں شمولیت اختیار کر لی

ضیاءالرّحمٰن

فروری میں بچے کراچی میں مقابلہٴ مصوری میں شریک ہیں۔ پاکستان نے ہاگ غیر قانونی تحویل اجلاس کے تحت بچوں کی غیر قانونی تحویل کے بین الاقوامی مسائل سے نمٹنے کے لیے امریکہ کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ [ضیاءالرّحمٰن]

فروری میں بچے کراچی میں مقابلہٴ مصوری میں شریک ہیں۔ پاکستان نے ہاگ غیر قانونی تحویل اجلاس کے تحت بچوں کی غیر قانونی تحویل کے بین الاقوامی مسائل سے نمٹنے کے لیے امریکہ کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ [ضیاءالرّحمٰن]

اسلام آباد – پاکستان اب امریکہ کی زیرِ قیادت ایک بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ کام کر رہا ہے جو ان بچوں کی واپسی کی تسہیل کرتی ہے جنہیں والدین میں سے کوئی ایک غلط طریق سے بین الاقوامی سرحدوں سے پار لے جاتا ہے۔

حکام اور مشاہدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اپنے "پرجوش" تعلق کو مزید مستحکم کرنے میں پاکستان اور امریکہ کی جاری کاوشوں کی عکاسی کرتا ہے۔

امریکی وزارتِ خارجہ کی کاوشوں کی وجہ سے جولائی میں پاکستان کو بچوں کے بین الاقوامی غیر قانونی تحویل کے شہری پہلوؤں پر 1980 کے ہاگ کنوینشن، جو ہاگ غیر قانونی تحویل کنوینشن کے نام سے بھی معروف ہے، کے نئے شراکت دار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔

واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان یہ معاہدہ یکم اکتوبر کو نافذالعمل ہوا۔

نومبر 2019 میں لاہور میں وکلاء بچوں کے بین الاقوامی غیر قانونی تحویل کے مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

نومبر 2019 میں لاہور میں وکلاء بچوں کے بین الاقوامی غیر قانونی تحویل کے مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے یکم اکتوبر کو اپنی ویب سائیٹ پر ایک بیان میں کہا، "یہ معاہدہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک قانونی دستورالعمل کو نافذ کرے گا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان والدین کی جانب سے بچوں کی غیر قانونی تحویل کے مقدمات حل ہو سکیں گے۔"

وزارتِ خارجہ نے ایک جداگانہ بیان میں کہا، "ایک شریک کے طور پر ہم بچوں کو تحفظ فراہم کرنے اور پرجوش پاک امریکہ تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے میں اپے مشترکہ عزم کو بہتر بنائیں گے۔"

یہ کنوینشن ایک دوطرفہ معاہدہ ہے جو ان بچوں کی فوری واپسی کے لیے طریق ہائے کار وضع کرے گا جنہیں غلط طریق پر لے جایا گیا یا اپنے آبائی وطن سے دور رکھا گیا۔

شراکت کا خیرمقدم

بچوں کے حقوق کے اداروں اور ماہرینِ قانون نے دونوں ملکوں کے مابین اس اشتراک کی پذیرائی کی۔

وارتِ خارجہ کا ایک ادارہ، بچوں کے مسائل کا دفتر، اس معاہدہ کے تحت امریکہ کے لیے ایک مرکزی مقتدرہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کنوینشن کے تحت اب امریکہ کے 80 شراکت دار ہیں۔

پاکستان ہیگ غیر قانونی تحویل کنوینشن پر دستخط کرنے والا چوتھا مسلمان ملک اور پہلا وسط ایشیائی ملک ہے۔

ایک کراچی اساسی بچوں کے حقوق کی تنظیم انیشیئیٹر ہیومن ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر رانا آصف حبیب نے کہا کہ اس کنوینشن کے تحت ایک شراکت دار بننا پاکستان کو ان مقدمات میں والدین کی جانب سے بچوں کی غیر قانونی تحویل کی انسداد کے لیے قانونی بنیادیں فراہم ہوں گی جو امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک سے متعلقہ ہوں۔

حبیب نے کہا، "خاندان کی جانب سے غیر قانونی تحویل ایک جرم ہے، نہ کہ تحویل کا مسئلہ۔"

بچوں کے بین الاقوامی غیر قانونی تحویل پر وزارتِ خارجہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2017 میں پاکستان میں کل واقعات کی تعداد 25 تھی جن میں 35 بچے تھے۔ 2018 میں 37 بچوں پر مشتمل 26 واقعات تھے۔

بچوں کے حقوق کے فعالیت پسندوں کا کہنا ہے کہ ابھی بھی اصل تعداد زیادہ ہے کیوں کہ شائع ہونے والے اعداد و شمار صرف ان واقعات کی عکاسی کرتے ہیں جو وزراتِ خارجہ کے پاس درج ہوئے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل، زاہد لغاری، جنہوں نے طلاق اور بچوں کی تحویل کے مقدمات میں مہارت حاصل کر رکھی ہے، نے کہا کہ پاکستان کی شمولیت بین الاقوامی سرحدوں کے آرپار غیر قانونی تحویل یا نکالے جانے کے مضر اثرات سے بچوں کو بچانے کی عالمی کاوشوں میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس امر کے پیشِ نظر کہ تقریباً ستر لاکھ پاکستانی بیرونِ ملک رہائش پذیر ہیں اور کام کرتے ہیں، پاکستان کے لیے اس کنوینشن کا شراکت دار بننا ضروری تھا۔

لغاری نے کہا، "اس سے والدین کی جانب سے بچوں کے بین الاقوامی غیر قانونی تحویل کے ایسے مقدمات کو حل کرنے میں مدد ملے گی جو پاکستان کی متعدد عدالتوں میں انصاف کے منتظر ہیں، اور ان میں سے اکثریت ایسے میاں بیوی سے متعلق ہیں جو امریکہ سے پاکستان یا اس کے برعکس واپس لوٹے۔"

پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری

مشاہدین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو اس کنوینشن کے تحت لایا جانا انسدادِ دہشتگردی، تجارت اور جرائم سمیت عالمی امور پر واشنگٹن کے اسلام آباد کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی عکاسی ہے۔

جولائی 2019 میں وزیرِ اعظم عمران خان اور امریکی انتظامیہ کے درمیان ایک ملاقات کے بعدپاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات بہتر ہوئے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تناؤ کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے۔

تجارت، کرونا وائرس وبا، ژنجیانگ اور ہانگ کانگ میںحکومتِ چین کی جانب سے حقوقِ انسانی کی پامالی،کوویڈ-19 وبا کو پھیلنے دینے میں اس کی غلط معلومات کی مہم، اور اس کی جانب سےفوج کے جارحانہ استعمالسمیت متعدد مسائل پر واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستانی ٹیکسٹائل کاروباراور ملک کا شعبہٴ ٹیکنالوجی پہلے ہی ان ممکنہ منڈیوں سے استفادہ کر رہے ہیں جو اس تناؤ کے نتیجے میں سامنے آئیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500