سفارتکاری

اشرفی کی بطور نمائندۂ خصوصی تعیناتی کو بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے نعمت کے طور پر دیکھا گیا ہے

از ضیاء الرحمان

حافظ محمد طاہر محمود اشرفی 17 اکتوبر کو کراچی پریس کلب میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

حافظ محمد طاہر محمود اشرفی 17 اکتوبر کو کراچی پریس کلب میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

اسلام آباد -- حکام کا کہنا ہے کہ عالمِ دین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کی بطور نمائندۂ خصوصی تعیناتی ملک میں بین المذاہب اور فرقوں کے مابین ہم آہنگی برقرار رکھنے اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے میں حکومت کی مدد کرے گی۔

اشرفی کو 22 اکتوبر کو وزیرِ اعظم عمران خان کے نمائندۂ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی و مشرقِ وسطیٰ تعینات کیا گیا تھا۔

اشرفی، جو کہ ایک طویل عرصے سے بین المذاہب ہم آہنگی کے حامی اور انتہاپسندی کے سخت مخالف ہیں، پاکستان علماء کونسل (پی یو سی) کے چیئرمین ہیں، جو کہ امن اور بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کرنے والے علمائے دین پر مشتمل ایک قومی سطح کی جماعت ہے۔

وہ سنہ 2012 سے 2015 تک اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے، اسلام آباد میں قائم ایک سرکاری تنظیم جو پارلیمنٹ کو مشورہ دیتی ہے کہ کوئی قانون اسلام سے متصادم ہے یا نہیں۔

حافظ محمد طاہر محمود اشرفی 27 اگست کو وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔ [دفترِ ابلاغ حکومتِ پاکستان]

حافظ محمد طاہر محمود اشرفی 27 اگست کو وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔ [دفترِ ابلاغ حکومتِ پاکستان]

اس سے قبل، اشرفی نے سنہ 2000 سے لے کر 2007 تک حکومتِ پنجاب کی وزارتِ داخلہ کے اعزازی مشیر برائے مذہبی امور و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے طور پر خدمات انجام دیں۔

انتہاپسندی سے جنگ

سنہ 2019 میں، اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)، ایک عالمی اسلامی ادارہ جس کا ہیڈکوارٹر جدہ میں ہے، نے اشرفی کو پاکستان اور عالمِ اسلام میں دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ فسادات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی کوششوں پر ایوارڈ سے نوازا تھا۔

اشرفی اور پاکستان علماء کونسل جولائی 2014 میں پاکستان میں ان اولین لوگوں میں سے تھے جنہوں نے "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔

اُسی سال، اشرفی نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں داعش کے مظالم کی مذمت کرنے کے لیے ملک کے ممتاز علمائے دین کو جمع کیا تھا۔

اُس وقت ایک بیان میں ان کا کہنا تھا، "اسلام اور مسلمان داعش کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کے قتل اور ان کی املاک کی تباہی کی حمایت نہیں کر سکتے۔"

انہوں نے اسلامی ممالک کے باشندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ "کسی بھی فسادی گروہ کے ساتھ تعاون نہ کریں جس کی تعلیمات یا افعال اسلام اور پیغمبر محمد (ﷺ) کی تعلیمات کے خلاف ہوں۔"

سنہ 2015 میں جاری کردہ ایک اور بیان میں، اشرفی نے شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کی جانب سے "وحشیانہ مظالم" کے ارتکاب اور عراق میں فرقہ وارانہ امتیاز کا الزام لگایا جس نے ایک ایسا ماحول بنا دیا جس نے داعش کو پروان چڑھایا۔

گزشتہ برس، اشرفی نے اسلام آباد میں پیغامِ اسلام کانفرنس کا اہتمام کیا، جس میں انتہاپسندی اور تشدد کے خلاف ایک مشترکہ حکمتِ عملی بنانے کے لیے پاکستانی اور بین الاقوامی علمائے دین کو اکٹھا کیا گیا۔

اشرفی نے باقاعدگی کے ساتھ یمن میں ایرانی پشت پناہی کے حامل حوثیوں کی جانب سے حملوں کی مذمت کی ہے۔

پولیو ویکسینیشن کی تشہیر کرنا

جولائی میں اسلام آباد کے اندر پہلے ہندو مندر کی تعمیر کی مخالفت کے درمیان، اشرفی اور پاکستان علماء کونسل نے حمایت پیش کی اور کہا کہ مندر کی تعمیر کے مخالفین شریعت کی غلط تشریح کر رہے ہیں۔

تعمیر جاری ہے۔

اس وقت ایک انٹرویو میں اشرفی کا کہنا تھا، "اپنی عبادت گاہ رکھنا اور اپنے عقیدے اور روایات کے مطابق زندگی گزارنا وہ حقوق ہیں جو آئین اور ساتھ ہی ساتھ شریعت میں تمام غیر مسلموں کو دیئے گئے ہیں۔"

فروری میں، اشرفی نے پاکستان علماء کونسل، دار الافتاء پاکستان، وفاق المساجد اور مدارسِ پاکستان، سے تعلق رکھنے والے دیگر علماء نیز ممتاز علماء اور مشائخ کے ہمراہ، پولیو ویکسینیشن کے قطروں کو حلال اور محفوظ قرار دینے کا ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔

کراچی میں پولیو کے قطرے پلانے والے ایک اہلکار، شکیل علی نے کہا، "اشرفی سمیت، علمائے دین کی ایسی کوششیں خوف پھیلانے والوں اور طالبان جنگجوؤں کی جانب سے ان دعووں کو مسترد کرنے میں حکام کی مدد کرتی ہیں کہ پولیو کے قطرے بچوں کے لیے غیرمحفوظ ہیں۔"

کراچی کے مقامی ایک عالمِ دین، علامہ محمد احسن صدیقی، جو بین المذاہب کمیشن برائے امن و ہم آہنگی (آئی سی پی ایچ) کے سربراہ ہیں، نے اشرفی کو معاونِ خصوصی مقرر کرنے پر عمران خان کی تعریف کی۔

صدیقی نے کہا، "مذہبی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ اشرفی کا عملی تعلق فرقہ وارانہ تنازعات کی بیخ کنی کرنے اور مختلف فرقوں اور مذاہب کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینے میں حکومت کی مدد کرے گا۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ اشرفی کا مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں بہت احترام کیا جاتا ہے اور ان کی تعیناتی عرب ممالک، خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے میں حکومت کی مدد کرے گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500