پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کی نئی انصمام شدہ ڈسٹرکٹس میں سرکاری اسکولوں میں والدین-اساتذہ کونسلیں (پی ٹی سی ایس) بنائی جائیں گی جو کہ پڑھائی چھوڑ دینے کی شرح کو کم کرنے اور انتہاپسندی کو روکنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
پی ٹی سی ایس جو کہ والدین اور اساتذہ کی مشترکہ تنظیمیں ہیں، کو تعلیم کے عمل کو فروغ دینے اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
ایسی کونسلوں کے پاس اکثر اسکول فنڈز کو استعمال کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔
مارچ میں کیے جانے والے ایک فیصلے کے تحت، پی ٹی سی کے 10,000 سے زیادہ ارکان کو، سات انضمام شدہ اضلاع اور 6 سرحدی علاقوں (ایف آر ایس) جو کہ گزشتہ چار دہائیوں سے جاری جنگ کے باعث تباہ و برباد ہو چکے ہیں، میں 5,000 سے زیادہ اسکولوں کو چلانے اور ان کے انتظام کے لیے تربیت فراہم کی جائے گی۔
کے پی کے وزیر برائے ایلیمنٹری و اسکینڈری تعلیم شاہرام ترکائی نے 20 اکتوبر کو کہا کہ "ہم ہر قبائلی بچے کو تعلیم دینا چاہتے ہیں کیونکہ دہشت گردی نے انہیں ہر چیز سے محروم کر دیا ہے"۔
انہوں نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) جو کہ 2018 میں کے پی کے ساتھ منظمم ہو گئے تھے، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "تعلیم اور ترقی کے ساتھ امن لانے کے مقصد کے تحت، سابقہ فاٹا کے اسکولوں کا معیار باقی صوبہ کے اسکولوں کی سطح پر لایا جائے گا"۔
انہوں نے مزید کہا کہ انضمام شدہ علاقوں میں تعلیم "اولین ترجیح" ہے۔
چار روزہ تربیت کاروں کی تربیت ورکشاپ، جس میں 91 اساتذہ کو تربیت دی گئی، 7 اکتوبر کو پشاور میں انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز (آئی ایم سائنسز) میں اختتام پذیر ہوئی۔ یہ بات پروگرام کے ایک مشیر حسیب خان نے بتائی۔
اساتذہ کے پی کے انضمام شدہ علاقوں میں نئے پی ٹی سی ارکان کو تربیت دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ "یہ تربیت اسکولوں کو خودمختار بنائے گی کہ وہ اسکول کی بہتری کے منصوبوں کی تخلیق، فنڈز کے استعمال اور ترقیاتی سرگرمیوں کی نگرانی سے، اپنی ضروریات کو کیسے ترجیح دیں۔
یہ تربیت آئی ایم سائنسز کے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ سینٹر (ایچ آر ڈی سی) کی طرف سے، جرمن ایجنسی برائے بین الاقوامی تعاون (جی آئی زیڈ)، جرمنی کی معاشی تعاون و ترقی کی وفاقی وزارت اور یورپین یونین کی مدد سے فراہم کی گئی تھی۔
جی آئی زیڈ- فاٹا ترقیاتی پروگرام (ایف ڈی پی) نے آئی ایم سائنسز کے ساتھ ایک مالی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت وہ، پہلکاری کے حصہ کے طور پر انضمام شدہ علاقوں میں ڈسٹرکٹ کی سطح پر تکنیکی مدد اور صلاحیتوں کی تعمیر میں مدد کرے گا۔ یہ بات جی آئی زیڈ کے اہلکار فیاض علی خان نے بتائی۔
عسکریت پسندی کا انسداد
پی ٹی سی کی پہلکاری سے قبائلی اضلاع میں خواندگی کی شرح بڑھانے، اسکولوں کی ٹوٹی ہوئی عمارتوں کی مرمت اور فنڈز کے استعمال میں شفافیت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ یہ بات پشاور میں قائم سول سوسائٹی کی تنظیم، بلو وینز جو کہ انسانی حقوق اور تعلیم پر کام کر رہی ہے، کے ڈائریکٹر قمر نسیم نے بتائی۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ فاٹا میں جنگ اور جھگڑے نے اسکولوں کے زیادہ تر بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔
نسیم نے کہا کہ انضمام شدہ ڈسٹرکٹس میں 79 فیصد لڑکیاں اور69 فیصد لڑکے اسکولوں میں داخل نہیں ہیں۔ داخلوں کی شرح کو بڑھانے سے، نوجوانوں کو انتہاپسند گروہوں کی طرف سے بہلا پھسلا کر عسکریت پسند گروہوں میں شامل کیے جانے کو روکنے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ "وقت نے ثابت کیا ہے کہ صرف تعلیم اور آگاہی سے ہی دہشت گردی کو شکست دی جا سکتی ہے، اس لیے اگر زیادہ بچے اسکول جائیں گے تو ہم دہشت گردوں کو بھرتی کی بنیادوں سے محروم کر سکیں گے"۔
یونیورسٹی آف پشاور کے امن و تنازعات کے مطالعہ کے شعبہ کے چیرمین ڈاکٹر سید حسین شہید سہروردی نے کہا کہ "اگر ان اسکولوں میں ہمارے پاس اچھی سہولیات ہوں تو ہم ان بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح کو کم کر سکتے ہیں جو کم عمری میں تعلیم چھوڑ دیتے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی سی ایس برداری کی ترجیحات کا فیصلہ کرنے میں موثر ہوں گی اور شفافیت کو یقینی بنانے میں مدد کریں گی۔
سہروردی نے کہا کہ غربت کا مقابلہ کرنے میں جہاں بچوں کو اسکول میں رکھنا انتہائی ضروری ہے وہاں اگر معاشرہ نئی انضمام شدہ ڈسٹرکٹس سے دہشت گردی کا مستقل طور پر خاتمہ کرنا چاہتا ہے تو مزید اسکولوں اور کالجوں کو قائم کرنے کی ضرورت بھی ہے۔
مہمند ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والے ایک تربیت کار عالم زیب نے کہا کہ "ہمیں انہیں ایک بار پھر جنگ اور عسکریت پسندی کا شکار بننے کی اجازت نہیں دینی چاہیے -- اگر ہم انضمام شدہ علاقوں میں دیرپا امن چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو ترقی دینے کی ضرورت ہے"۔