پیرس -- ناواقفانِ حال کو، "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) اور القاعدہ علاقائی توسیع اور خونریزی کے ذریعے شرعی قانون کے پھیلاؤ کے اپنے یکساں طویل مدتی ہدف کے تعاقب میں نظر آ سکتے ہیں۔
البتہ۔ ان کے نظریات اور طریقہ ہائے کار حقیقت میں اتنے مختلف ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے مدِمقابل آ رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ، مغربی افریقہ میں داعش نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں اس کے لوگوں کو ان جنگجوؤں کے گلے کاٹتے ہوئے دکھایا گیا تھا جنہیں مالی میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم، جماعت نصرت الاسلام والمسلمین کے ارکان بنا کر پیش کیا گیا تھا۔
باون افراد کو مارا گیا تھا۔
مونٹیری، کیلیفورنیا میں امریکی نیول پوسٹ گریجویٹ سکول کے ایک پروفیسر، محمد حافظ کے مطابق، صرف جولائی کے بعد سے ہی مغربی افریقہ کے ساحل علاقے میں متحارب شدت پسندوں کے درمیان لڑائی میں کوئی 300 "جہادیوں" کی جانیں گئی ہیں۔
لڑائی کی وجوہات علاقے پر تسلط یا غیر قانونی نقل و حمل کے منافع بخش عبوری راستوں سے لے کر مقامی قائدین کے مارے جانے پر پیچھے پیدا ہونے والے طاقت کے خلاء کو پُر کرنے تک ہیں۔
امریکی فوجی اکیڈمی کے دہشت گردی سے لڑائی کے مرکز کی جانب سے شائع ہونے والے سی ٹی سی عسکری جریدے میں حافظ نے لکھا، "عالمگیر جہادیوں کے درمیان خانہ جنگی میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔"
امریکی فوجی اکیڈمی کے دہشت گردی سے لڑائی کے مرکز کی جانب سے شائع ہونے والے سی ٹی سی عسکری جریدے میں انہوں نے لکھا، "یہ دوبدو لڑنے والے دھڑے جنگی دباؤ اور علاقائی پسپائی کے تحت ٹوٹ پھوٹ کے چیلنج پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔"
"انہوں نے قریب اور دور کے دشمنوں سے اپنی نظر ہٹا لی ہے اور اس کی بجائے سب سے زیادہ نزدیک دشمن -- ایک دوسرے-- سے لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔"
دل و دماغ
داعش القاعدہ کی ایک شاخ، القاعدہ عراق، کی راکھ سے اٹھی تھی، جسے بہت زیادہ حد تک 2000 کے عشرے کے وسط میں مقامی جنگجوؤں کی پشت پناہی سے امریکی قیادت میں افواج نے تباہ کر دیا تھا۔
لیکن داعش نے دفعتاً القاعدہ سے ایک بالکل مختلف راستہ اپنا لیا -- جو اس وقت تک امریکہ میں 11/9 کے حملوں کی وجہ سے مغرب کی سرِعام دشمن نمبر ایک تھی۔
فرنچ ادارہ برائے بین الاقوامی و تزویراتی امور کے جریدے میں ایک جغرافیائی و سیاسی محقق نتھانیل پونٹیسیلی نے لکھا جبکہ القاعدہ مغرب کی تباہی کو ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے بنیادی ضرورت سمجھتی ہے، داعش نے "آزاد کروائے گئے علاقوں" میں ایک خلافت قائم کرنے کا فیصلہ کیا جس سے اپنی جنگ کو شروع کرنا تھا۔
داعش کو گزشتہ برس "خلافت" سے نکال باہر پھینکا گیا تھا جس کا اس نے سنہ 2014 میں شام اور عراق میں دعویٰ کیا تھا۔ اس نے اپنی خراسان شاخ (داعش-کے) کے ذریعے افغانستان میں بھی اپنی جڑیں بنانے کی کوشش کی تھی، مگر افغان اور امریکی افواج نے تنظیم کو قدم جمانے نہیں دیئے۔
حافظ نے لکھا کہ القاعدہ نے خود کو ایک "مشمولہ، مفید اور عوامیت پسند اسلام کی حامی تحریک" کے طور پر رکھنے کی کوشش کی، جبکہ داعش "ایک خصوصی، غیر مصالحانہ اور جہاد کی ایک شدت پسند بصیرت" کی نمائندگی کرتی ہے۔
داعش دعویٰ کرتی ہے کہ اس کا "تکفیریوں"، وہ مسلمان جنہیں تعلیمات سے منحرف سمجھا جاتا ہے، کو سزا دینا جائز ہے۔
حافظ کا کہنا تھا کہ اگرچہ القاعدہ "اور دیگر اسلام پسند اپنی مقبوضہ آبادیوں کے دل و دماغ جیتنے کے لیے ان کے شانہ بشانہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، [داعش] عوامی مملکت کے اصول کی پرواہ کم ہی کرتی ہے اور اس کی بجائے، مخصوص، علمبرداری کی بصیرت کو آگے بڑھاتی ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آفاقی حکم کے ذریعے دلوں اور دماغوں کو ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔"
اپریل میں، داعش نے 52 منٹ کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں اشارہ کیا گیا تھا کہ وہ القاعدہ کے کتاب سے انحراف کی کیا مثالیں پیش کرتی ہے۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک، دی فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے تھامس جوزیلن نے اے ایف پی کو بتایا، "خود ساختہ خلاف نے القاعدہ کے لیے ایک نمایاں ادارہ جاتی نفرت پیدا کر دی ہے۔"
"یہ ہمیشہ ممکن ہوتا ہے کہ ہر ایک تنظیم کے اندر کچھ دھڑے فی الوقت مل کر کام کر رہے ہوں، یا وہ مستقبل میں کریں گے۔ مگر ویڈیو نشاندہی کرتی ہے کہ دو جہادی مخالفوں کے درمیان کسی بڑی مصالحت کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں ہے۔"
دسمبر 2018 میں، القاعدہ نے اس وقت کے داعش کے امیر، "منحرف" ابوبکر البغدادی کے خلاف ایسے ہی دعوے کیے تھے، جن میں ہر جگہ کے مسلمانوں سے کہا گیا تھا کہ اٹھ کھڑے ہوں اور اس تنظیم کو برباد کر دیں۔
البغدادی اکتوبر 2019 میں شام کے اندر امریکی قیادت میں ایک حملے کے دوران ہلاک ہو گیا تھا۔
جنگجوؤں کی کوئی قلت نہیں
مگر، مبصرین کا کہنا ہے، کہ مغرب کو دو جنگجو تنظیموں کے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں آرام محسوس نہیں کرنا چاہیئے۔
وہ تنبیہہ کرتے ہیں کہ برتری، علاقے، پیروکاروں اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ان کی جنگ میں بہت کچھ اتھل پتھل ہو سکتا ہے۔
حافظ نے لکھا، "11/9 کے بعد سے، پرتشدد جہادیوں کا مسئلہ تعداد، گنجائش اور تشدد کی شدت کے لحاظ سے بڑھا ہے -- یہ سب تقسیم شدہ ہونے اور ایک سپر پاور، کثیر قومی اتحادوں اور مقامی حکومتوں کی جانب سے تعاقب کیے جانے کے باوجود ہوا ہے۔"
"جبکہ ماضی میں بین الاقوامی برادری افغانستان میں ایک عالمی جہادی تحریک کے ہیڈکوارٹر کے ساتھ نمٹ رہی تھی، آج دو ہیں جن کی شاخیں کئی خطوں اور ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔"
حافظ کا کہنا تھا کہ مزید برآں، عسکریت پسندوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ "ایک دوسرے کے ساتھ لڑ بھی رہے ہیں تب بھی وہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور اپنے مخالفین کے ساتھ لڑ سکتے ہیں۔"
فرنچ ادارہ برائے بین الاقوامی تعلقات کے ایک محقق، ایلی ٹیننبام کے مطابق، دونوں تنظیمیں ایک دوسرے کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں -- اور کسی ایک کے پاس بھی جنگجوؤں کی قلت ہونے کا امکان نہیں ہے۔"
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "لڑائی کے ذریعے، تنظیمیں اپنے غلبے کو ثابت کرتی ہیں اور یہاں تک کہ نئے علاقے بھی فتح کرتی ہیں۔"