پشاور – منگل (27 اکتوبر) کو پشاور کے نواحی علاقہ دیر کالونی میں ایک مدرسہ میں تعلیمِ قرآن کلاس میں ایک بم حملہ میں کم از کم آٹھ افراد شہید اور 96 زخمی ہو گئے۔
عینی شاہد عبدالرحمٰن نے کہا، "مسجد کے مرکزی ہال میں سینکڑوں طلبہ جمع تھے جب صبح کے آٹھ بجے کے قریب دوسرے درس کے دوران بم پھٹا۔"
دھماکے کے بعد مرکزی ہال میں ایک آگ بھڑک اٹھی۔
پشاور شہر کے سپرانٹنڈنٹ پولیس وقار عظیم نے کہا، "ایک شخص ایک بستہ کے ہمراہ مرکزی ہال میں آیا۔ کچھ دیر بعد وہ چلا گیا، قیاس ہے کہ بستہ میں موجود دھماکہ خیز مواد پھٹا،" انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردوں نے ایک ٹائمر استعمال کرتے ہوئے بم چلایا۔
خیبر پختونخوا (کے پی) بم ڈسپوزل سکواڈ کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل شفقت ملک نے کہا، "دھماکہ میں تقریباً 5 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا۔"
پولیس عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملزمان کو پکڑنے کے لیے ایک سرچ آپریشن جاری ہے۔
مقامی اہلکاروں کے مطابق، کم از کم 76 افراد کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال، 36 کو نصیراللہ بابر ہسپتال، اور چند دیگر کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور خیبر ٹیچنگ ہسپتال لے جایا گیا۔
خان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "جاںبحق اور زخمی ہونے والوں میں سے زیادہ تر کو بال بیئرنگ سے چوٹیں آئیں، اور کچھ بری طرح جھلس گئے۔"
انہوں نے کہا کہ جانبحق ہونے والے تمام 20 اور 40 برس کے درمیان کی عمر کے تھے۔ اساتذہ اور سات سال تک کی عمر کے لڑکے زخمی ہونے والوں میں شامل تھے۔
استاد سیف اللہ خان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مدرسے میں 1,000 سے زائد طلبہ اندراج شدہ ہیں، جس میں 18 برس اور اس سے بڑی عمر کے طلبہ کے لیے ایک سیکشن، اور بچوں کے لیے دوسرا ہے۔
انہوں نے کہا، "یہ دھماکہ اس سیکشن میں ہوا جہاں 18 برس سے بڑی عمر کے طلبہ درس لے رہے تھے۔" انہوں نے مزید کہا کہ دھماکے میں دونوں سیکشنز کے درمیان کی دیوار گر گئی۔
چند ایسے طلبہ جو محفوظ رہے، زخمیوں کی مدد کو بھاگے۔
ایک طالبِ علم، جس نے اپنا نام بتانے سے انکار کیا، نے کہا، "چونکہ میں محفوظ رہا، میں نے تقریباً آٹھ افراد کو ہال سے باہر نکالا۔"
اس نے کہا کہ حملے کے وقت سینکڑوں طلبہ موجود تھے۔ یہ طلبہ کے پی کے مختلف اضلاع کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور افغانستان سے تھے۔
وسیع پیمانے پر مذمت
صدر عارف علوی، وزیرِ اعظم عمران خان اور کے پی کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے اس بم حملے اور مسجد میں معصوم بچوں کے قتل کی شدید مذمت کی۔
وزیرِ اعظم نے ٹویٹ کیا، "میں اپنی قوم کو یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم اس بزدلانہ اور وحشیانہ حملے کے ذمہ دار دہشتگردوں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے تک لائیں گے۔"
کے پی کے وزیرِ اعلیٰ نے جاںبحق ہونے والوں میں سے ہر ایک کے خاندان کے لیے 500,000 روپے (3,100 ڈالر) اور ہر زخمی ہونے والے کے لیے 200,000 روپے (1,240 ڈالر) سمیت متاثرین کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔
کسی گروہ نے فوری طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یہ دھماکہ پاکستان میں کئی ماہ کے نسبتاً سکون کے بعد ہوا۔
کبھی پشاور ملک میں عسکریت پسندانہ تشدد کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ پاکستانی عسکری آپریشنز کے ایک سلسلہ کے بعد حالیہ برسوں میں تشدد میں کمی آ چکی ہے۔
2014 میں پاکستانی فوج نے علاقہ میں عسکریت پسندوں کی چھاؤنیوں کا صفایا کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر ایک جارحانہ کاروائی کا آغاز کیا۔
دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول میںتحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کی جانب سے 150 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلکے بعد فوج نے اس آپریشن کو تیز تر کر دیا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی سمیرا ججا نے ٹویٹ کیا، "پشاور میں مدرسے میں ہونے والے دھماکے نے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے کئی زخم تازہ کیے۔ نوجوانوں—جو کسی ملک کی امّیدوں اور عزم کی علامت ہوتے ہیں—پر حملہ کرنے کا اقدام نہایت ظالمانہ اور دلسوز ہے۔ یہ لوگ کس قدر بیمار ہیں جو ہمارے خوابوں کو مٹانا چاہتے ہیں؟"