سفارتکاری

پاکستان وائرس کے باعث افغانستان میں ویزوں کے اجراء میں ہونے والی تاخیر سے نپٹنے کی کوشش کر رہا ہے

عالم زیب خان

افغان شہری 15 اکتوبر کو جلال آباد، افغانستان میں پاکستانی قونصل خانے کے باہر جمع ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے قریبی فٹ بال اسٹیڈیم میں ویزے کے لیے ٹوکن حاصل کیے تھے۔ [بہ شکریہ عالم زیب خان]

افغان شہری 15 اکتوبر کو جلال آباد، افغانستان میں پاکستانی قونصل خانے کے باہر جمع ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے قریبی فٹ بال اسٹیڈیم میں ویزے کے لیے ٹوکن حاصل کیے تھے۔ [بہ شکریہ عالم زیب خان]

اسلام آباد -- پاکستانی حکومت جو کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے،زیادہ سے زیادہ افغان شہریوں کو ملک کا ویزہ حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے باعث ہونے والے تعطل سے درخواستوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی ہے۔

حکومت نے 29 ستمبر کو کابل میں اپنے سفارت خانے اور افغانستان میں دیگر قونصل خانوں کو ویزے کی درخواستوں پر کام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ بات کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے 13 اکتوبر کو ایک ٹوئٹ میں کہی تھی۔

انہوں نے پوسٹ میں کہا کہ "گزشتہ دن، 12 اکتوبر کو کابل میں پاکستان کے سفارت خانے نے 2,059 افغان شہریوں کو ویزے جاری کیے۔ ہم ویزوں کے درخواست گزاران کو مزید سہولیات دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ آج سے ہمارے قونصل خانے بھی افغان شہریوں کو ویزے جاری کریں گے"۔

خان نے 13 اکتوبر کو پاکستان فاروڈ کو بتایا کہ درخواستوں کا عمل کووڈ -19 کی وباء کے باعث سست ہو گیا جس نے افغانستان میں کچھ ایجنسیوں کو بند ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے اس قدم سے درخواستوں میں پیدا ہونے والے تعطل کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔

پاکستانی سیکورٹی اہلکار، ستمبر 2019 کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دینے سے پہلے، طورخم بارڈر کراسنگ پر افغان شہریوں کے کاغذات کی پڑتال کر رہے ہیں۔ [بہ شکریہ عالم زیب خان]

پاکستانی سیکورٹی اہلکار، ستمبر 2019 کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دینے سے پہلے، طورخم بارڈر کراسنگ پر افغان شہریوں کے کاغذات کی پڑتال کر رہے ہیں۔ [بہ شکریہ عالم زیب خان]

افغانستان کے لیے پاکستان کے سفیر منصور احمد خان (بائیں) 15 اکتوبر کو کابل میں افغان ہائی کونسل برائے قومی مفاہمت کے چیرمین عبداللہ عبداللہ سے بات چیت کر رہے ہیں۔ [عبداللہ عبداللہ /ٹوئٹر]

افغانستان کے لیے پاکستان کے سفیر منصور احمد خان (بائیں) 15 اکتوبر کو کابل میں افغان ہائی کونسل برائے قومی مفاہمت کے چیرمین عبداللہ عبداللہ سے بات چیت کر رہے ہیں۔ [عبداللہ عبداللہ /ٹوئٹر]

"کابل کے سفارت خانے پر لمبی قطاریں اس لیے لگی ہیں کیونکہ کووڈ-19 کے باعث ویزوں کا عمل بند تھا مگر اب ہم نے یہ عمل نہ صرف کابل بلکہ جلال آباد، ہرات، مزار شریف اور قندھار کے چاروں قونصل خانوں میں بھی شروع کر دیا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "قطاروں کو چھوٹا کرنے کے لیے، ہم نے اپنے عملے کی تعداد اور روزانہ جاری کیے جانے والے ویزوں کی تعداد، دونوں میں ہی اضافہ کر دیا ہے"۔

رکاوٹوں کو دور کرنا

خان نے کہا کہ ان کی ٹیم درخواست کے عمل کو آسان بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے تاکہ تمام افغان شہری باعزت طریقے سے ویزا حاصل کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم مکمل یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ ویزے کی کوئی فیس نہیں ہے اور کسی بھی ایجنٹ، پولیس کانسٹیبل، اہلکار یا دلال کو ایک پیسہ بھی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بھی مطلع کر دیا ہے اور سفارت خانے کی عمارت کے قریب بینر لگائے ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہی دی جا سکے"۔

خان نے کہا کہ "میں نے افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ محمد حنیف اتمار سے بھی ملاقات کی ہے جنہوں نے مکمل یقین دلایا ہے کہ سفارت خانے اور قونصل خانوں میں ویزے کے لیے آنے والوں کی قطاروں اور درخواست دہندگان کی تعداد کو مناسب طریقے سے سنبھالا جائے گا تاکہ سفارت خانہ اور افغان حکام دونوں ہی اس عمل کو زیادہ ہموار طریقے سے چلنے کے قابل بنا سکیں"۔

خان نے مزید کہا کہ اگرچہ ویزے کا عمل ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس میں صرف ایک یا دو دن نہیں لگتے ہیں "مجھے یقین ہے کہ حالہ پیش رفت سے دونوں ممالک پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے

انہوں نے کہا کہ اس قدم سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی جس میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔

خان نے کہا کہ "حالیہ اقدامات سے نہ صرف نقل و حمل اور دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہو گا بلکہ اس سے دونوں ممالک کے تاجروں کے لیے مواقع پیدا کرنے کے عملی اقدامات کو اٹھاتے ہوئے رابطوں میں بھی اضافہ ہو گا"۔

خان نے کہا کہ "دونوں ممالک کے راہنما تعلقات کو بہتر بنانے میں سنجیدہ ہیں اور وہ دونوں ممالک کے لوگوں کو سیاحت، تجارت، نقل و حمل اور رابطے کے حوالے سے قریب لانے کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں"۔

سینئر افغان صحافی باز محمد عابد نے کہا کہ جلال آباد، ننگرہار صوبہ میں پاکستان کے قونصل خانے کو آٹھ مختلف صوبوں سے ہزاروں درخواستیں وصول ہوتی ہیں اور بہت سے درخواست گزاران، مانگ میں انتہائی اضافے کے باعث ویزے حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

عابد نے کہا کہ "تاہم، اب ننگرہار میں انتظامیہ نے، دیگر متعلقہ شعبوں کے ساتھ مل کر، 14 اکتوبر سے عمل کو ہموار بنانا شروع کیا ہے۔ تمام درخواست دہندگان ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں جمع ہوتے ہیں جہاں انہیں قونصل خانے میں جانے سے پہلے ٹوکن دیے جاتے ہیں۔ حکام اور قونصل خانے میں کام کرنے والے سماجی کارکن ویزے کے عمل کو آگے بڑھانے سے پہلے ان کے ٹوکن کی جانچ کرتے ہیں"۔

عابد نے مزید کہا کہ "اس طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے، 15 اکتوبر کو تقریبا 1,000 درخواست دہندگان کو ویزہ دیا گیا اور اگلے دن بھی اتنی ہی تعداد کی درخواستوں کو دیکھا گیا، اس لیے یہ عمل اب اسی رفتار سے جاری رہے گا"۔

'درست سمت میں ایک قدم'

ویزوں کے اقدام دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کی تازہ ترین دو طرفہ کوشش ہیں۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان 29 فروری کو ہونے والے تاریخی امن معاہدے میں پاکستان کو بین-افغان امن مذاکرات کو شروع کرنے میں مدد کے لیے اقدام اٹھاتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور افغان ہائی کونسل برائے قومی مفاہمت کے چیرمین، عبداللہ عبداللہ نے ستمبر کو آخیر میں اسلام آباد کا دورہ کیا۔

وہاں انہوں نے اعلی پاکستانی حکام جن میں صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی شامل ہیں، سے افغان امن کے عمل، ٹرانزٹ تجارت، پاک-افغان تعلقات، اقتصادی تعلقات، ویزوں اور دیگر معاملات کے بارے میں بات چیت کی۔

اسی مہینے میں تجارت کو باسہولت بنانے کے لیےکئی پاک-افغان سرحدی گزرگاہوں کو دوبارہ سے کھول دیا گیا۔

ویزوں کی درخواستوں کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے حالہ اقدامات سے، مشاہدین تعلقات کودرست سمت میں بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

"ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ویزوں کا ایک بہتر نظام ایسے افغان شہریوں کی طرف سے طویل عرصے سے کیا جانے والا مطالبہ تھا جو باقاعدگی سے پاکستان آتے ہیں اور جن کے پاکستان سے خاندانی یا تاریخی تعلقات ہیں"۔ یہ بات اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی پاک-افغان تعلقات کی محقق اور ماہر عمارہ درانی نے کہی۔ "اس کی تعلیم، صحت، کام اور کاروبار کے لیے بھی ضرورت تھی"۔

انہوں نے کہا کہ "مجموعی طور پر، یہ ایسے پاکستانی اداروں، مارکیٹوں، کاروباروں، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کے لیے اچھا ہے جن کی خدمات افغان شہری استعمال کرتے ہیں"۔

درانی نے کہا کہ "یہ درست سمت میں ایک قدم ہے اور خوش قسمتی سے امن کے عمل کا وقت اسے زیادہ معنی اور حقیقت دے رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "آپ سرحد کے پار بنیادی ڈھانچے کی سہولیات قائم کر سکتے ہیں، مہاجرین کو عارضی امداد فراہم کر سکتے ہیں مگر یہ سب قلیل وقتی سرمایہ کاری ہے۔ یہ درحقیقت اپنے ہمسایہ ملک کے لوگوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری ہے جو ایک زیادہ قابلِ اعتماد، معاون اور ہم آہنگ دو طرفہ تعلقات کے لیے طویل المعیاد بنیادیں فراہم کرتی ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500