صحت

چین کی طرف سے کورونا وائرس ویکسین کی غیر روایتی جانچ نے تجزیہ نگاروں کو حیران کر دیا

پاکستان فارورڈ

شین یانگ، چین میں لیبارٹری کے محققین، 9 جون کو یشیانگ بایوفارما میں، جہاں وہ کووڈ-19 کورونا وائرس کے لیے ویکسین تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ [نوئل سلیس/ اے ایف پی]

شین یانگ، چین میں لیبارٹری کے محققین، 9 جون کو یشیانگ بایوفارما میں، جہاں وہ کووڈ-19 کورونا وائرس کے لیے ویکسین تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ [نوئل سلیس/ اے ایف پی]

بیجنگ -- عالمی اسٹیج پر اپنا مقام دوبارہ سے حاصل کرنے کی نیت سے، چین کی حکومت اپنی کورونا وائرس ویکسین مہم پر پورے جوش و جذبے سے عمل پیرا ہے -- جس کے تحت جانچ کے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر، غیر مصدقہ ادویات ہزاروں چینی شہریوں کو دے دی گئی ہیں۔

کووڈ-19 کے لیے مصدقہ ویکسین تیار کرنے والے پہلا ملک بن جانے کی دوڑ میں، بیجنگ اپنے شہریوں کو ٹیکہ لگوانے کے لیے آمادہ -- یا زبردستی -- کرتا رہا ہے۔

یہ تجرباتی ویکسین سرکاری ملکیتی کمپنیوں کے ملازمین، ایسے کارکن جنہیں حکومت ضروری تصور کرتی ہے اور ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کے اپنے ہی ملازمین، کو لگائی جا رہی ہیں۔ یہ خبر نیویارک پوسٹ نے 26 ستمبر کو دی ہے۔

طبی عملہ، اساتذہ، سُپرمارکیٹ کے کارکن، سرحدی انسپکٹر، فضائی صنعت کے ملازمین اور "درمیانے اور سخت خطرے کے علاقوں" کا سفر کرنے والے افراد کو بھی اس ویکسین کی پیشکش کی گئی ہے۔

برازیل کے شہر پورٹو ایلگرے، میں ایک طبی کارکن کو، 8 اگست کو چین کی کمپنی سینوواک بایوٹیک کی طرف سے تیار کردہ کووڈ-19 ویکسین دی جا رہی ہے۔ [سلویو اویلا/ اے ایف پی]

برازیل کے شہر پورٹو ایلگرے، میں ایک طبی کارکن کو، 8 اگست کو چین کی کمپنی سینوواک بایوٹیک کی طرف سے تیار کردہ کووڈ-19 ویکسین دی جا رہی ہے۔ [سلویو اویلا/ اے ایف پی]

چائنا نیشنل بائیوٹیک گروپ کی کورونا وائرس کے لیے تجرباتی ویکسین 6 ستمبر کو بیجنگ میں نمائش کے لیے رکھی ہے۔ [نوئل سلیس/ اے ایف پی]

چائنا نیشنل بائیوٹیک گروپ کی کورونا وائرس کے لیے تجرباتی ویکسین 6 ستمبر کو بیجنگ میں نمائش کے لیے رکھی ہے۔ [نوئل سلیس/ اے ایف پی]

جولائی میں، بیجنگ نے اس ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دی تھی جو ایسے مخصوص گروہوں کے لیے تجربات سے گزر رہی تھی جن کے بارے میں تصور ہے کہ انہیں یہ بیماری لگ جانے کے لیے زیادہ امکانات ہیں۔

تیل کے انتہائی بڑے سرکاری ملکیتی ادارے پیٹروچین، کے ملازمین کو ایک پرکشش پیشکش ہوئی: وہ بیرونِ ملک کام کرتے ہوئے دو ویکسینز میں سے ایک کو اپنی حفاظت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ بات دی نیویارک ٹائمز کی طرف سے ایک نوٹس کا جائزہ لینے سے پتہ چلی۔

حکومت نے زور دیا کہ مطبی تجربات -- جو کہ ابھی بھی ابتدائی مرحلوں میں ہیں -- سے ظاہر ہوا ہے کہ یہ ٹیکے محفوظ ہیں۔ اس نے اس کے ممکنہ مضر اثرات کے بارے میں نہیں بتایا اور نہ ہی ایسی ویکسین لینے کے خطرات سے متنبہ کیا جسے ابھی نگرانی کرنے والوں نے منظور نہیں کیا ہے۔

اخبار نے خبر دی ہے کہ ملازمین "باضابطہ مطبی تجربات سے باہر، غیر مصدقہ ویکیسن کو ٹیسٹ کرنے کے لیے قربانی کے بکرے بن جائیں گے"۔

چین کی "ملک میں ہنگامی استعمال کے لیے منظوری" عالمی ادارہِ صحت کی منظوری کی محتاج نہیں ہے۔ یہ بات عالمی ادارے کے ایک ترجمان نے 26 ستمبر کو بتائی۔

ویکسین کے غیر روایتی تجربات

چین کے حکام، ممکنہ ویکسینز کے مطبی تجربات کے ساتھ ساتھ چلنے والے غیرمصدقہ تجربات، جو کہ زیادہ تر چین سے باہر ہو رہے ہیں، کے لیے اس سے بھی زیادہ ٹیکے لگانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔

مطبی فیز تھری تجربات میں شریک ہونے والوں کی انتہائی زیادہ نگرانی اور پتہ رکھا جاتا ہے مگر یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا چینی حکام ہر اس شخص کے لیے ایسے ہی اقدامات کر رہے ہیں جو ملک کے اندر یہ ٹیکے لگوا رہے ہیں۔

تجزیہ نگاروں نے متنبہ کیا ہے کہ چین کے ویکسین بنانے والے اداروں اور حکومتی ملکیتی اداروں کے ملازمین اس ویکسین کو لگوانے کے لیے دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ملبورن، آسٹریلیا میں مرڈوک چلڈرن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایک ماہر امراض بچگان، ڈاکٹر کم ملہولنڈ جو کہ ویکسین کے بہت سے مطبی تجربات کی نگرانی میں ملوث رہے ہیں جس میں کووڈ-19 کی ویکسین بھی شامل ہے، نے دی نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ "اداروں کے ملازمین کے لیے میری پریشانی یہ ہے کہ ہو سکتا ہے ان کے لیے انکار کرنا مشکل ہو"۔

یہ بات واضح نہیں ہے کہ کتنے چینی شہریوں نے ان غیر روایتی تجربات میں شرکت کی ہے۔

اداروں نے ویکسین کے تجربات میں شریک ہونے والے افراد سے کہا ہے کہ وہ انکشاف نہ کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کریں جو انہیں اس بارے میں ذرائع ابلاغ سے بات کرنے سے روکے رکھے گا۔

چین کی سرکاری ملکیتی کمپنی، سینوفارما جس نے وہ تجرباتی ویکسین بنائی ہے جو پیٹروچین کے ملازمین کو دی جا رہی ہے، نے کہا کہ اس کے ٹیکے ہزاروں افراد نے لگوائے ہیں۔

بیجنگ میں قائم سینوواک بائیوٹیک نے کہا کہ ملک کی ہنگامی استعمال کی اسکیم کے تحت، بیجنگ میں 10,000 سے زیادہ زیرِ تحقیق افراد کو ٹیکے لگائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس نے 6 ستمبر کو کہا کہ اس کے تقریبا سارے ملازمین -- جن کی کل تعداد تقریبا 3,000 ہے -- اور ان کے اہلِ خاندان نے یہ ٹیکے لگوائے ہیں۔

چائنا نیشنل بائیوٹیک گروپ (سی این بی جی) کی نائب جنرل مارکیٹنگ مینیجر ژانگ ینان نے کہا کہ انہیں ان کی کمپنی کی ویکسین دی گئی ہے۔ یہ خبر ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے 6 ستمبر کو بتائی۔

انہوں نے بیجنگ میں چین انٹرنیشنل فیئر فار ٹریڈ ان سروسز میں کہا کہ "میرے جیسے 150 ملازمین ایسے ہیں جنہیں ٹیکے لگائے گئے ہیں"۔

'حالات کو مشکوک بنانا'

سینوواک اور سی این بی جی، دونوں ہی بیرونِ ملک وسیع مطبی تجربات کر رہی ہیں۔

سی این بی جی کے تیسرے مرحلے کے تجربات میں توقع ہے کہ 10 ممالک سے تعلق رکھنے والے 50,000 رضاکار شرکت کریں گے۔ یہ بات کمپنی کے نائب صدر ژانگ یونتاوُ نے بتائی۔

رائٹرز نے 5 ستمبر کو خبر دی ہے کہ یہ تجربات ارجنٹینا، بحرین، اردن، مراکش، پیرو اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں جاری ہیں۔

پاکستان اور سربیا نے بھی سی این بی جی کے تیسرے مرحلے کے تجربات میں شامل ہونے پر اتفاق کیا ہے۔

ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق، یو اے ای میں تیسرے مرحلے کے تجربات، جس میں 35,000 ہزار سے زیادہ شرکاء کو ویکسین دی گئی ہے، نومبر میں ختم ہونے کی توقع ہے۔

دریں اثناء، سینوواک ترکی، بنگلہ دیش، برازیل اور انڈونیشیاء میں بھی تیسرے مرحلے کے تجربات کر رہا ہے۔

رائنا میکانٹیئر جو کہ سڈنی، آسٹریلیا میں یونیورسٹی آف نیو ساوتھ ویلز کے کربی انسٹی ٹیوٹ کے بائیو سیکورٹی پروگرام کی سربراہ ہیں، نے تیسرے مرحلے کے تجربات کے نتائج سے پہلے ویکسین کے ہنگامی استعمال کے خلاف مشورہ دیا ہے۔

انہوں نے دی نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ "تیسرے مرحلے کے نتائج ہو سکتا ہے کہ تین سے چھہ ماہ میں ہمیں ملیں -- اتنا انتظار کرنا مشکل نہیں ہے"۔

"آپ ممکنہ طور پر اس وقت کے لیے حالات کو مشکوک بنا رہے ہیں جب ہمارے پاس، بہترین ممکنہ ویکسین بنانے کے لیے، تیسرے مرحلے کے تجربات کے اعداد و شمار دستیاب ہوں گے"۔

سیول میں انٹرنیشنل ویکیسن انسٹیٹیوٹ کے سربراہ جیرمی کم نے کہا کہ انہیں پریشانی ہے کہ وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں، ایک ایسی ویکیسن سے جس کے موثر ہونے کا ابھی علم نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ پرخطر کاموں میں ملوث ہو جائیں"۔

انہوں نے ٹائمز کو بتایا کہ "اس کے بہت سے منفی نتائج ہیں۔ وہ ممکنہ طور پر انفکیشن کا شکار ہو سکتے ہیں اور اس بارے میں انہیں علم نہ ہو یا ہو سکتا ہے کہ وہ انفکیشن پھیلا رہے ہوں کیونکہ ان میں علامات نہیں ہوں گی اگر ویکسین جزوی طور پر کام کر رہی ہو"۔

تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش

بیجنگ کو کووڈ-19 کی عالمگیر وباء کو سنبھالنے میں غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرنے اوراس کے بعد ایسی غلط معلومات کی مہمات چلانے جن کا مقصد دوسروں پر الزام لگانا اور جھوٹ پھیلانا تھا، پر سرزنش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

تجزیہ نگاروں اور مشاہدین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت آغاز میں ہی اس بارے میں شفاف ہوتی کہ کووڈ-19 کتنا خطرناک ہے تو دنیا کو پاس ردِعمل کے لیے زیادہ وقت ہوتا جس سے ہزاروں جانیں بچ جاتیں اور بعد میں ہونے والی افراتفری سے بچا جا سکتا تھا۔

چین کے حکام، جنہیں شروع سے ہی پتہ تھا کہ ایک ہلاکت انگیز وباء متحرک ہے، تقریبا ایک ہفتے تک،14 سے 19 جنوری تک کچھ نہیں کہا جس سے اس وائرس کو ووہانمیں قدم جمانے اور دنیا بھر میں پھیل جانے کا موقع مل گیا۔ یہ خبر ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے اپریل میں دی تھی۔

اے پی کی طرف سے حاصل کردہ اندرونی دستاویزات اور ماہرین کے تخمینوں کے مطابق،خاموشی کے ان منحوس چھہ دنوں میں کم از کم 3,000 افراد کو یہ بیماری لگی تھی۔

دنیا بھر میں طبی عملے نے اکتوبر کے آغاز تک، کووڈ-19 کے 40 ملین واقعات اور ایک ملین ہلاکتوں کو رجسٹر کیا ہے۔

دنیا بھر سے تنقید کا سامنا کرتے ہوئے،بیجنگ اپنے ان "بہادارانہ کاموں" کا بیانیہ پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے جو اس نے کووڈ-19 کی عالمی وباء سے جنگ کے دوران انجام دیے ہیں۔

دریں اثناء، چین کے ادارے وباء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منافع کما رہے ہیں۔

چین کی حکومت نے وباء کے باعث، ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) کی کمی کو پورا کرنے کے لیے، اسے بنانے کی بہت بڑی کوشش کا آغاز کیا۔

سال کے پہلے چھہ ماہ کے دوران، 73,000 سے زیادہ کمپنیوں نے ماسک بنانے والوں کے طور پر خود کو رجسٹر کیا -- جس میں صرف اپریل میں ہی 36,000 سے زیادہ کمپنیاں شامل ہیں -- جیسے جیسے قیمت اور مانگ میں اضافہ ہوا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق، مارچ اور مئی کے درمیان، چین کی حکومت نے 50 بلین فیس ماسک برآمد کیے -- جو کہ گزشتہ سال کی کل پیداوار سے 10 گنا زیادہ ہے۔

اس کوشش کے حصہ کے طور پر، چین کے حکام سنکیانگ کے صوبہ میں مسلمان اقلیتوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ پی پی ای کے کارخانوں میں کام کریں۔یہ بات دی نیویارک ٹائم کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے جس میں انہوں نے ہزاروں ویڈیوز، تصاویر اور حکومتی دستاویزات کا حوالہ دیا ہے۔

یہ پروگرام بیجنگ کی طرف گزشتہ چند سالوں سے کی جانے والی اس کوشش کا حصہ ہے جس کے تحتایک ملین سے زیادہ مسلمانوں کو، جن میں قازق النسل اور کرغیز بھی شامل ہیں، کو تَلقینِ عقیدہ کے کیمپوں میں بھیجا گیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500