کراچی – متعدد پولیس اہلکاروں کے قتل کے بعد، کراچی میں نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز تر کر دیا ہے۔
رواں برس اب تک شہر کے مختلف حصّوں میں چودہ پولیس اہلکار قتل کیے جا چکے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے شعبہٴ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے مہلک حملوں کی اس لہر کی چھان بین کرنے کے لیے حال ہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔
سی ٹی ڈی میں ٹرانسنیشنل ٹیرراسٹ انٹیلی جنس گروپس کی قیادت کرنے والے راجہ عمر خطاب کے مطابق، 14 میں سے پانچ قتل ٹارگٹڈ تھے۔
خطاب نے کہا، "باقی یا تو ڈاکوؤں کے ساتھ مقابلہ میں ہوئے یا اس وقت جب پولیس اہلکاروں نے ڈکیتی [کسی کاروبار کو لوٹنے کی کوشش] کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔"
ٹی ٹی پی نے ایک پولیس اہلکار—عارف خان کے قتل کی ذمہ داری قبول کی، جو کہ ایک کانسٹیبل تھے اور جنہیں 19 ستمبر کو کورنگی کے علاقہ میں مہلک طور پر گولیاں ماری گئیں۔
خطاب نے کہا کہ خان پر پولیس اہلکار شاکر پر کیے جانے والے حملے کی طرز پر حملہ کیا گیا، جنہیں جنوری 2018 میں نارتھ ناظم آباد میں لنڈی کوتل چورنگی کے قریب قتل کیا گیا۔
اس وقت جس خصوصی ٹی ٹی پی رکن کو اس پولیس اہلکار کو قتل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، اس نے ذمہ داری قبول کی تھی۔
نفاذِ قانون کی ایجنسیوںنے مرتکبین کو پکڑنے کے لیے اپنی کاوشیں تیز تر کر دی ہیں۔
24 ستمبر کو سی ٹی ڈی کی ایک ٹیم نے پہلوان گوٹھ کے علاقہ میں ایک مقابلہ میں نوید خان المعروف نومی کو مار ڈالا، جس نے 23 جولائی کو جٹ لائن کے علاقہ میں پولیس اہلکار غلام محمّد کو قتل کیا تھا۔
خطاب کے مطابق، وہ ماضی میں متعدد پولیس اہلکاروں اور متحدہ قومی موومنٹ سیاسی جماعت کے ارکان کے قتل میں ملوث تھا۔
جون میں سی ٹی ڈی نے ایک چھاپے کے دوران فرنٹیئر کالونی کے علاقہ میں ایک مشتبہ ٹی ٹی پی عسکریت پسند جان عالم کو گرفتار کر لیا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق، جب اسے گرفتار کیا گیا تب وہ شہر میں دہشتگردانہ سرگرمیاں کرنے کی منصوبہ سازی کر رہا تھا۔
سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق، عالم نے دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ انسدادِ دہشتگردی کے دو پولیس اہلکاروں شفیق تنولی اور بہاؤالدین بابر کے قتل کی منصوبہ سازی کی۔
تنولی، جو متعدد خود کش اور بندوقوں کے حملوں سے بچ نکلے، اپریل 2014 میں پرانی سبزی منڈی کے علاقہ میں ایک خود کش بم حملے میں شہید ہوئے۔ بابر دسمبر 2013 میں میٹروویلے کے علاقہ میں شہید کیے گئے۔
ٹی ٹی پی کی تنظیمِ نو کی کوششیں
نفاذِ قانون کے حکام اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق، ستمبر میں اپنے علیحدہ ہو جانے والے متعدد دھڑوں کے اتحادِ نو کا اعلان کرنے والی ٹی ٹی پی اپنی موجودگی کا مظاہرہ کرنے اور کراچی میں اپنے روابط کو از سرِ نو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ستمبر 2013 میں شہر میں کام کرنے والے پرتشدد گروہوں کے خلافایک سیکیورٹی آپریشنکے آغاز سے قبل منگھوپیر، سہراب گوٹھ، اتحاد ٹاؤن اور لانڈھی سمیت کراچی کے متعدد علاقے ٹی ٹی پی کے گڑھ تھے۔
سیکیورٹی امور کو کور کرنے والے ایک صحافی عباد احمد نے کہا کہ ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں نے پولیس اہلکاروں، پولیو ویکسینیشن کے طبی عملہ اور متعدد آزاد خیال سیاسی جماعتوں، جیسا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان پر حملے کیے۔ مزید برآں، انہوں نے کراچی میں سکولوں پر بم حملے کیے۔
احمد نے کہا، "لیکن ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں اور کمانڈروں کےقتل اور گرفتاریوںکے بعد ان علاقوں میں امن لوٹ آیا ہے۔"
جون 2014 میں شمالی وزیرستان میںآپریشن ضربِ عضبکے آغاز نے ٹی ٹی پی کو مزید کمزور کر دیا اور قبائلی علاقوں میں ان کی کمین گاہوں کو تباہ کرتے ہوئے انہیں افغانستان کے پڑوسی صوبے کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔
افغانستان میں بھی حال ہی میں افغان سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اور بم دھماکوں میںٹی ٹی پی کے متعدد کلیدی کمانڈرمارے گئے، جس سے یہ گروہ شدید کمزور اور بے سمت رہ گیا۔
ٹی ٹی پی کراچی کا ایک کمانڈر عزیز اللہ، المعروف شامزئی، جس نے شہر میں پولیس کے قتل کی منصوبہ سازی کی، جون میں کابل میں مارا گیا۔
کراچی میں ایک پشتون بزرگ، گل، جو کراچی میں ٹی ٹی پی نیٹ ورک سے آشنا ہیں اور جنہوں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنا خاندانی نام ہی بتایا، نے کہا، "عزیز اللہ نے پولیس اہلکاروں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے قتل کا فتویٰ (حکم) جاری کیا۔"