معیشت

پاک افغان سرحد پر نئے تجارتی ٹرمینل کا مقصد علاقائی استحکام کو پھیلانا

عبدالغنی کاکڑ

16 ستمبر کو، دائیں جانب سے دوسرے، بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ جام کمال پاک افغان بدینی تجارتی ٹرمینل کا افتتاح کر رہے ہیں۔ [عبد الغنی کاکڑ]

16 ستمبر کو، دائیں جانب سے دوسرے، بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ جام کمال پاک افغان بدینی تجارتی ٹرمینل کا افتتاح کر رہے ہیں۔ [عبد الغنی کاکڑ]

کوئٹہ – معاشیات دانوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پاک افغان سرحد پر بدینی میں تجارتی ٹرمینل کا آغاز خطے میں معاشی استحکام میں معاونت اور دہشتگردی کی بیخ کنی میں ایک کلیدی اقدام ہے۔

16 ستمبر کو بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ جام کمال اور سینیئر عسکری عہدیداران نے بدینی تجارتی ٹرمینل کا افتتاح کیا۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری اور رئیل اسٹیٹ کنسلٹنٹ ثناءاللہ خان نے کہا، "چمن میں دوستی دروازہ کے بعد، بلوچستان میں بدینی تجارتی ٹرمینل دوسری اہم ترین گزرگاہ ہے۔ یہ گزرگاہ سرحد کے دونوں جانب دسیوں لاکھوں ملازمتیں مہیا کرے گی۔"

پاک افغانسرحدی علاقے کئی دہائیوں تک شورش کے لیے ایک زرخیز زمین رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان علاقوں میں امن مخالف عناصر ارکان کو بھرتی کرنے اور خطے میں دہشتگردی پھیلانے کے لیے سرحد پر سمگلنگ اور غیر قانونی منشیات کی فروخت سے حاصل ہونے والا روپیہ استعمال کرتے رہے ہیں۔

16 ستمبر کو پاک افغان سرحد پر ایک پہاڑی چوٹی سے ملحقہ بدینی تجارتی ٹرمینل پر سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ [عبدالغنی کاکڑ]

16 ستمبر کو پاک افغان سرحد پر ایک پہاڑی چوٹی سے ملحقہ بدینی تجارتی ٹرمینل پر سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ [عبدالغنی کاکڑ]

خان نے کہا، "معاشی استحکام کا سرحدی سلامتی اور سرحد کے دونوں جانب قبائل کے ارکان کی زندگیوں پر ایک نہایت مثبت اثر ہو گا۔"

انہوں نے کہا، "شدت پسند اور دیگر امن مخالف عناصر خطے میں امن میں خلل ڈالنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ وہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دوستانہ تعلقات نہیں چاہتے۔"

انہوں نے مزید کہا، "بدینی تجارتی ٹرمینل مقامی آبادی کی معاشی تکالیف کے خاتمہ میں مدد گار ہوں گے۔"

اعتماد کی بحالی

بدینی میں ایک قبائلی بزرگ حاجی بختیار کاکڑ نے کہا کہ مقامی آبادی سرحدی علاقوں کے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے اس نئے ٹرمینل کو نہایت اہم خیال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "بدینی سرحدی ٹرمینل کو کھولنے کا فیصلہ امن کے عمل پر اس کے دیرپا اثرات کی وجہ سے بہت پہلے ہو جانا چاہیئے تھا کیوں کہ قبائل ہمیشہ حکومت سے شکایت کرتے رہے ہیں کہ وہ ان کی تکلیف کو کوئی توجہ نہیں دیتی۔"

انہوں نے مزید کہا، "جب تک سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ رہنے والے قبائل کے مسائل دھیمے نہیں ہوتے، دشمن اپنے مقٍاصد کے لیے غلط فہمیوں کی افزائش کرتا رہے گا۔"

کاکڑ نے کہا، "اس سرحدی گزرگاہ کا کھولا جانا سرحد کے دونوں جانب کے عوام کے مابین اعتماد کی بحالی کے لیے نہایت اہم ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام نے مقامی تاجروں کے لیے بھی افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک کو برآمد کرنا آسان بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا، "قبل ازاں افغانستان کو اشیاء بھیجنے میں بہت سا وقت ضائع ہوتا تھا، لیکن اب بلوچستان سے کابل پہنچنے کا وقت نصف ہو گیا ہے، جس سے یقیناً برآمد کنندگان کو فائدہ ہو گا۔"

کاکڑ نے حوالہ دیتے ہوئے کہا، "قبائل نے ہمیشہ خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں چند امن مخالف عناصر نے صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک شورش پیدا کر دی ہے جس نے ان کی زندگیاں قابلِ رحم بنا دی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "یہاں زندگیاں بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جانا ضروتِ وقت ہے تاکہ عسکریت پسند فائدہ نہ اٹھا سکیں۔"

فاصلے مٹانا

ایک اسلام آباد اساسی دفاعی تجزیہ کار لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کا خیال ہے کہ یہ نیا ٹرمینلعسکریت پسندی کو روکنے کی کوششوں میں ایک تذویری کردار ادا کرے گا۔

انہوں نے کہا، "بدینی سرحدی گزرگاہ تمام تر خطے کے استحکام کے لیے تذویری طور پر نہایت ضروری ہے؛ لہٰذا دونوں ملکوں کی عوام کے مابین اعتماد پیدا کرنے کے لیے دونوں طرف سے کاوشوں کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "مقامی آبادی کی حمایت کے بغیر عسکریت پسندی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔"

"پاکستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک افغانستان میں دیر پا امن نہ ہو۔ ان دونوں ملکوں میں بھائی چارے کا مستقبل میں خطے میں بطورِ کل سلامتی پر بھی ایک نہایت مثبت اثر ہو سکتا ہے۔"

مسعود نے کہا، "گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان میں عسکریت پسندوں نے افغان عوام کے مابین اپنی جڑیں گہری کر لی ہیں۔ افغان قبائل کو عسکریت پسندوں کے قابو سے چھڑانے کے لیے، ہمیں ان کو فوائد دینا ہوں گے تاکہ ایک آزاد اور معاشی طور پر مستحکم ماحول قائم ہو سکے۔"

انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی رکاوٹوں اور پاک افغان تعلقات میں غلط فہمیوں نے ہمیشہ سرحدی تنازعات سے ہی جنم لیا ہے۔

انہوں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ اس طویل اور سوراخ دار پاک افغان سرحد پر مزید گزرگاہیں کھولنے کی فوری ضرورت ہے کیوں کہ بلاشبہ تجارتی تعلقات دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان فاصلے کم کریں گے۔"

"افغان امن کے عمل کی کامیابی کے لیے ہر پہلو کو زیرِ غور رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ دونوں عوام کے درمیان فاصلہ ان کی معاشی مشکلات پر توجہ دے کر کم کیا جا سکتا ہے۔"

بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن اور وزیرِ اعلیٰ کے مشیر مٹھا خان کاکڑ نے کہا کہ یہ نیا ٹرمینل علاقہ میں مزید ترقی کی راہ ہموار کرنے میں مدد دے گا، جس سے بدلے میں عسکریت پسندی کے خاتمہ میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا، "ماضی میں حکومتی سطح پر قبائلی علاقہ جات کے ۔۔۔ طویل عرصے کے مسئلہ کو سنجیدہ طور پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، جو ان علاقوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا باعث بنا۔"

ترقی کا نیا دور

انہوں نے کہا، "بدینی گزرگاہ کے کھولے جانے سے اس خطے میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اب ان قبائلی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے صوبائی حکومت خصوصی فنڈ مختص کرے گی۔"

قانون ساز کاکڑ نے کہا، "حکومت قبائل کے طویل عرصے کے مسائل کو ان کے دروازوں پر حل کرنا چاہتی ہے۔ بدینی سرحدی گزرگاہ کا کھولا جانا جاری ترقیاتی منصوبوں کا ایک تسلسل ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہماری ترجیح ہے کہ اپنے ان قبائلی علاقوں کی آبادی کے احساسِ محرومی پر توجہ دیں جن سے عسکریت پسندوں نے مسلسل فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر ہم نے ماضی میں ان کے مالی مسائل کی جانب توجہ دی ہوتی تو آج صورتِ حال اس قدر ہیبت ناک نہ ہوتی۔"

بلوچستان چیمبر آف کامرس کے ایک اعلیٰ رکن عبدالعلی خان نے کہا، "ہم نہایت خوش ہیں کہ پاکستان نے بالآخر بدینی ٹرمینل کا افتتاح کر دیا ہے جس کا طویل عرصہ سے انتظار تھا۔ ہمیں امّید ہے کہ ہماری عوام تجارت اور دیگر فوائد میں اس اقدام سے بہت استفادہ کرے گی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ، "سرحدی علاقوں میں شورش قبائل کا بنیادی مسئلہ رہا ہے، اور انہوں نے عدم سلامتی کی وجہ سے ہمیشہ سہا ہے۔ ماضی میں ترقی کا فقدان اور قبائل کے کلیدی مسائل میں [وفاقی] حکومت کی عدم توجہی غیر یقینی کا باعث بنے۔"

انہوں نے کہا، "ہم نہایت پر امّید ہیں کہ اس گزرگاہ کا کھولا جانا نہ صرف افغان ٹرانزٹ تجارت کو بہتر بنائے گا بلکہ ہمیں افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک سے درآمدات و برآمدات کو بڑھانے کے قابل بنائے گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ درست ہے کہ سرحدی سیکیورٹی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنا سکتی ہے، تاہم دونوں ملکوں کو پہلے اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑنا ہو گا۔ ایک عام افغان ہونے کے ناطے میرا ماننا ہے کہ امن و استحکام ہماری مطلق خواہش ہے اور ہم ہر دوستانہ اشارے کا خیرمقدم کریں گے! افغانستان زندہ باد اصل دین افغان ننگرہار

جواب

اس اقدام کے لئیے شکریہ پاکستان، جو یقینی طور پر ہمارے قبائلی عوام کے لئیے ترقی کی راہ ہموار کرے گا. سرحد کی دونوں جانب رہنے والے پشتونوں کو اپنے معاشی و معاشرتی نظام مستحکم کرنے میں بہت فائدہ ہو گا. ہم اس اقدام کی حمایت کرنے پر افغانستان کی حالیہ حکومت کے مشکور ہیں. بلال سروری

جواب