صحت

آگاہی کی مہمات نے قبائلی اضلاع میں کووڈ-19 کا رُخ موڑ دیا

دانش یوسف زئی

مجید خٹک، جو لدھا کے ٹی ایم او ہیں، 8 ستمبر کو مقامی مرکزی بازار میں پمفلٹ تقسیم کر رہے ہیں جن میں دکانداروں کو اس وباء کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ [دانش یوسف زئی]

مجید خٹک، جو لدھا کے ٹی ایم او ہیں، 8 ستمبر کو مقامی مرکزی بازار میں پمفلٹ تقسیم کر رہے ہیں جن میں دکانداروں کو اس وباء کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ [دانش یوسف زئی]

پشاور -- حکام کا کہنا ہے کہ عوامی آگاہی کی مہمات کی کامیابی کے بعد، نئے انضمام شدہ قبائلی اضلاع کے شہری، ایسے اقدامات پر عمل کر رہے ہیں جن کا مقصد نوول کرونا وائرس پر قابو پانا ہے۔

جمرود کے تحصیل میونسپل افسر (ٹی ایم او) نصیر احمد نے کہا کہ "عالمی وباء کے آغاز میں، جمرود اور خیبر ڈسٹرکٹس کے شہریوں کی اکثریت اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی مگر آگاہی کی مہمات کے ذریعے، مقامی شہریوں کو ممکنہ خطرے کا احساس ہوا اور انہوں نے حفاظتی اقدامات پر عمل کرنا شروع کر دیا"۔

انہوں نے شہریوں کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ تحصیل انتظامیہ اور مقامی افراد کی مشترکہ کوششوں سے اس عالمی وباء نے جمرود کی صرف 30 فیصد آبادی کو متاثر کیا۔ حکام کو وہاں پر اس سے کہیں زیادہ افراد کے متاثر ہو جانے کی توقع تھی۔

صوبائی حکومت نے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) کو نافذ کرنے کا حکم دیا تاکہ کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

جمرود کے شہری، 9 ستمبر کو ٹی ایم اے کی طرف سے نصب کیے جانے والے اسٹیشن پر اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ [دانش یوسف زئی]

جمرود کے شہری، 9 ستمبر کو ٹی ایم اے کی طرف سے نصب کیے جانے والے اسٹیشن پر اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ [دانش یوسف زئی]

ٹی ایم اے کے کارکن 9 ستمبر کو لدھا میں پوسٹر لگا رہے ہیں ہیں جو کہ کووڈ 19 کی آگاہی مہم کا ایک حصہ ہے۔ [دانش یوسف زئی]

ٹی ایم اے کے کارکن 9 ستمبر کو لدھا میں پوسٹر لگا رہے ہیں ہیں جو کہ کووڈ 19 کی آگاہی مہم کا ایک حصہ ہے۔ [دانش یوسف زئی]

پہلے مرحلے میں، اس نے عام لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر آگاہی کی مہمات کا آغاز کیا تاکہ انہیں کرونا وائرس کے بارے میں تعلیم دی جا سکے اور حساس بنایا جا سکے۔

احمد نے کہا کہ "ہم نے مختلف گاڑیوں پر لاوُڈ اسپیکر لگائے جن سے ان کی حفاظت اور آگاہی کے لیے عوامی خدمت کے پیغامات نشر کیے گئے"۔

انہوں نے کہا کہ جمرود کی تحصیل میونسپل اتھارٹی (ٹی ایم اے) نے مختلف مقامات پر ہاتھ دھونے کی اسٹیشن لگائے اور فیس ماسک، صابن اور سینیٹائسر تقسیم کیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے گھر پر رہیں۔ ہم نے انہیں بتایا کہ یہ وائرس بہت سفاک ہے اور یہ پورے خاندان کو ہلاک کر سکتا ہے اور محفوظ رہنے کا واحد طریقہ احتیاطی تدابیر میں ہے"۔

احمد نے کہا کہ طورخم سرحد کی نگرانی مشکل تھی مگر مقامی انتظامیہ صوبائی حکومت کے تعاون سے اس چیلنج پر قابو پانے میں کامیاب رہی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ "جمرود میں متاثرہ افراد اور مبینہ مریضوں نے بخوشی قرنطینہ میں جانا قبول کیا۔ یہ آگاہی کی کامیاب مہمات کا نتیجہ تھا"۔

انہوں نے کہا کہ عوام ابھی تک حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کر رہے ہیں کیونکہ یہ ہلاکت خیز وائرس ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

کووڈ 19 کے خلاف مثبت ردعمل

اگست میں پاکستان میں کووڈ 19 کے واقعات میں کمی آئی تھی مگر اس ماہ میں دوبارہ واقعات میں اضافے نے چوکنا کر دیا ہے۔

پیر (28 ستمبر) تک، وائرس نے کے پی میں 37,701 افراد کو متاثر اور 1,259 کو ہلاک کیا ہے۔

مقامی ٹی ایم او مجید خٹک کے مطابق، ابھی تک، جنوبی وزیرستان کے ضلع لدھا، میں کسی شہری کو کرونا وائرس نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب کے پی کی حکومت نے عالمی وباء کے آغاز میں ایمرجنسی نافذ کی تھی تو مقامی شہریوں نے ان تمام ہدایات پر عمل کیا تھا جنہیں حکام نے تجویز کیا تھا۔

خٹک نے کہا کہ مقامی حکام نے آگاہی کا مواد تقسیم کیا تھا اور برادری کے بزرگوں اور علماء کو شامل کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "وہ برادری میں سب سے بارسوخ شخصیات ہیں۔ عوام ان کی بات سنتے ہیں۔ ہمیں بہت مثبت ردعمل ملا تھا"۔

لدھا کے 24 سالہ رہائشی، سلیم خان نے کہا کہ وہ ٹیلی ویژن پر یہ سن کر بہت پریشان ہو گیا تھا کہ وائرس پاکستان پہنچ گیا ہے

انہوں نے کہا کہ "سب دیہاتی بہت خوفزدہ تھے۔ ہر کوئی اس ہلاکت خیز وائرس کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ مگر ٹی ایم اے کے حکام نے ہمیں سکھایا کہ اس وائرس کو کیسے شکست دینی ہے"۔

خان نے کہا کہ ٹی ایم اے نے لدھا کی تمام سڑکوں اور گلیوں میں جراثیم کش محلول کا سپرے کیا۔ بزرگوں نے ہمیں کہا کہ کچھ عرصہ کے لیے ہم مصافحہ کرنا بند کر دیں۔

لوکل گورنس اسکول کے پی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اسد اللہ خان نے کہا کہ ٹی ایم اے کی ٹیمیں منضمم علاقوں کے مختلف اضلاع میں سخت محنت کر رہی ہیں تاکہ عوام کو کرونا وائرس کے بارے میں تعلیم دی جا سکے اور ان کی حفاظت کی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی افراد ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اور مقامی حکام کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

خان نے کہا کہ نئے انضمام شدہ اضلاع میں کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد باقی ملک کے مقابلے میں کم ہے مگر اب جب کہ مثبت واقعات کی تعداد میں ایک بار پھر سے اضافہ ہو رہا ہے، حکام یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ کرونا وائرس چلا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر واقعات ہمسایہ ملک انڈیا میں ہوئے ہیں جو کہ پاکستان کے لیے پریشان کن صورتِ حال ہے۔

خان نے کہا کہ کے پی کی مقامی حکومت، انتخابات اور دیہی ترقی کا شعبہ، امداد کنندگان اداروں کے ساتھ مل کر، منضمم اضلاع کی مقامی انتظامیات کو خصوصی تربیت فراہم کر رہا ہے تاکہ انہیں کرونا وائرس کی دوسری لہر کے لیے تیار کیا جا سکے۔

"ہمیں صوبہ بھر میں کاروباری مراکز، بازاروں اور دوسری عوامی جگہوں پر ایس او پیز پر سختی سے عمل کرنا چاہیے کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ دوسری لہر ہمیں بھی متاثر کرے"۔

وباء کا پھیلنا ایران سے جڑا ہے

بہت سے پاکستانی شہری اپنے ملک میں کووڈ -19 کے پھیلاو کا ذمہ دار ایران کی لا پرواہی کو قرار دیتے ہیں۔

ایران میں کووڈ 19 کے پہلے دو واقعات کو26 فروری کو عوامی طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔

فروری میں اس عالمی وباء کے آغاز میں، ایرانی حکام نے ہزاروں پاکستانی زائرین کو وائرس کے لیے ٹیسٹ کیے بغیر ملک بدر کر دیا تھا جس کا نتیجہ اس وائرس کے پاکستان کی مقامی آبادی میں پھیل جانے کی صورت میں نکلا۔

اپریل تک، پاکستان میں متاثر ہونے والے 51 فیصد افراد کا تعلق ان زائرین سے جوڑا جا سکتا تھا۔

دریں اثنا، چین اور روس کی حکومتوں نے اس عالمی وباء کے بارے میں غلط معلومات کو پھیلانا جاری رکھا۔

امریکہ کی کونسل برائے بیرونی تعلقات کی 10 سمتبر کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، بیجنگ نے کرونا وائرس کی وباء کے دوران جارح اور سازشی قسم کی جھوٹی معلومات پھیلنا شروع کر دیں تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ "بیجنگ نے نہ صرف حقیقی معلومات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور غلط معلومات پھیلائیں -- یا جان بوجھ کر غلط معلومات فراہم کیں -- تاکہ اس وائرس کے ماخد سے توجہ ہٹائی جا سکے، امریکہ کی ناکامیوں کو اجاگر کیا جائے اور چین کو عالمی راہنما کے طور پر پیش کیا جا سکے"۔

اپنا کردار ادا کرتے ہوئے، امریکہ کی حکومت نے جولائی میں، بین الاقوامی ترقی کی امریکی ایجنسی اور پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ مل کر 100 نئے، انتہائی جدید وینٹی لیٹر پاکستان کو فراہم کیے تاکہ کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اس کی مدد کی جا سکے۔

یہ وینٹی لیٹر2 جولائی کو کراچی پہنچے اور انہیں ملک بھر کے ہسپتالوں میں بھیجا گیا ہے۔ یہ امداد، عالمی وباء کے خلاف پاکستان کے فوری ردعمل کی مدد کرتا ہے۔ یہ بات اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے نے ایک بیان میں بتائی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500