صحت

تہران کی کووڈ-19 پر عجلت سے پاکستان کے دوبارہ کھلنے پر بُرے اثرات

از ضیاء الرحمان

14 جون کو محکمۂ صحت کراچی کا ایک اہلکار ایک شخص کو کورونا وائرس کے تشخیصی مرکز میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے قبل اس پر جراثیم کش سپرے کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

14 جون کو محکمۂ صحت کراچی کا ایک اہلکار ایک شخص کو کورونا وائرس کے تشخیصی مرکز میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے قبل اس پر جراثیم کش سپرے کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

اسلام آباد -- کووڈ-19 کے نئے کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی کی وجہ سےپاکستان کے دوبارہ کھلنے کے آغاز پر، حکومت اور محکمۂ صحت کے اہلکار ملک میں وائرس کی وباء کے پھیلاؤ کو تیز کرنے کے لیے تہران کے غافلانہ افعال کو ذمہ دار ٹھہرانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان نے 10 اگست سے ریستورانوں اور سینما گھروں جیسے کاروباروں کے اوپر سے بتدریج ملک گیر لاک ڈاؤن اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ 7 ستمبر کو، حکومت نے 15 ستمبر سے مرحلہ وار تعلیمی اداروں کو کھولنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔

ایرانی حکومت کی کارروائیوں کے باوجود پاکستان کووڈ-19 کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب رہا ہے۔

'مجرمانہ غفلت'

پاکستانی شہریوں اور سرکاری حکام، اپنی سرحدوں کے اندر کورونا وائرس کی وباء پھیلنے کے حکومت کے تاخیری اعلان کے نتیجے میںپاکستان کے اندر کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر تہران کو "مجرمانہ غفلت" کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

وفاقی حکومت کے 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے دوبارہ کھولنے کے اعلان کے بعد 13 ستمبر کو پشاور میں سٹی گرلز کالج کا ایک ملازم کلاس روم میں کرسیاں جھاڑتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

وفاقی حکومت کے 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے دوبارہ کھولنے کے اعلان کے بعد 13 ستمبر کو پشاور میں سٹی گرلز کالج کا ایک ملازم کلاس روم میں کرسیاں جھاڑتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

سکولوں کے دوبارہ کھلنے سے قبل 13 ستمبر کو ریسکیو 1122 اہلکار شہید بینظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور کے ایک تعلیمی بلاک کی جراثیم کشی کرتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

سکولوں کے دوبارہ کھلنے سے قبل 13 ستمبر کو ریسکیو 1122 اہلکار شہید بینظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور کے ایک تعلیمی بلاک کی جراثیم کشی کرتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

ایران میں کووڈ-19 کے پہلے دو کیس 26 فروری کو منظرِ عام پر آئے تھے۔

فروری میں عالمی وباء کے آغاز پر، ایرانی حکام نے سینکڑوں پاکستانی زائرین کو وائرس کی جانچ کیے بغیر ملک بدر کر دیا تھا، جس سے وباء پاکستان کی مقامی آبادی میں پھیل گئی۔

اپریل تک، پاکستان میں متاثر ہونے والے 51 فیصد افراد کے تانے بانے ان زائرین کے ساتھ جا کر ملتے تھے۔

کراچی کے مقامی ایک ٹریول ایجنٹ جو زائرین کو ایران اور عراق بھجواتے ہیں، مصور حسینی نے کہا کہ ایرانی حکومت نے ایران جانے والے ہزاروں زائرین کو ملک میں کورونا وائرس کی وباء کے پھیلاؤ کے متعلق بالکل درست معلومات فراہم نہیں کیں۔

انہوں نے کہا، "فروری کے آغاز میں، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایران میں ہونے والی اموات کے متعلق افواہیں پہلے ہی پھیلنا شروع ہو گئی تھیں۔ مگر ایرانی حکومت نے ہر کسی سے، خصوصاً دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے زائرین سے، معلومات چھپائیں۔"

حسینی نے کہا کہ غفلت کی وجہ سے، زائرین نے سرحد پار کرنا اور ایران میں وقت گزارنا جاری رکھا، تاوقتیکہ آخرکار تہران نے 19 فروری کو کووڈ-19 کے پہلے کیسز کا اعلان کر دیا۔

جب ایران میں انفیکشنز تیزی کے ساتھ پھیلنے لگیں، پاکستانی حکام نے 16 مارچ کو پاکستان-ایران سرحد کو بند کر دیا۔

پاکستانی حکومتی اہلکاروں کے مطابق، سرحد کی بندش کے باوجود، سینکڑوں زائرین سرحد پار کر کے ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے۔

شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بلوچستان میں محکمۂ صحت کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا، "ایران نے کورونا وائرس کو محدود رکھنے میں پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ اس کی بجائے، اس کی غفلت اور عدم تعاون [پاکستان میں] وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنا ہے۔"

اہلکار نے کہا کہ تہران نے "پاکستانی زائرین کی ایران سے پاکستان میں متواتر نقل و حرکت کی اجازت دی اور انہیں وطن واپس بھیجنے سے قبل ان کی چھان بین نہیں کی۔"

انہوں نے کہا، "ایران اور افغانستان دونوں کے ساتھ بین الاقوامی سرحدیں 16 مارچ 2020 سے بند ہیں، اور یہ باضابطہ طور پر ایران کو بتا دیا گیا تھا، مگر اس نے زائرین کو وطن واپس بھیجنا جاری رکھا۔"

اسلام آباد کے مقامی محکمۂ صحت کے ایک سینیئر اہلکار جنہوں نے اپریل میں شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی تھی، نے کہا، "بنیادی طور پر ایران کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے پاکستان وائرس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔"

تہران نے 'کان نہیں دھرے'

صوبہ بلوچستان، جس کی سرحد ایران کے ساتھ مشترکہ ہے، میں صوبائی حکام نے خطے میں کورونا وائرس کی عالمی وباء میں اضافے میں ایرانی حکومت کے کردار پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

جولائی میں مقامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ایک انٹرویو میں صوبائی وزیرِ داخلہ میر ضیاء اللہ نے کہا، "جب فروری میں پہلی بار وباء پھیلی تھی، بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت سے کہا تھا کہ ایرانی حکام کو مطلع کریں کہ وہ مناسب چھان بین کے بغیر زائرین کو پاکستان واپس نہ بھیجیں۔"

انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کے اہلکاروں نے اپنی تشویشیں بیان کرنے کے لیے ایرانی حکام کے ساتھ ملاقات کی تھی۔

انہوں نے کہا، "مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمسایہ ملک نے پاکستان کی بات پر کان نہیں دھرے اور ہزاروں زائرین کو بغیر چھان بین کیے واپس بھیج دیا۔"

مئی میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایرانی حکومت نے بلوچستان کی سرحد کے ذریعے 5،000 سے زائد پاکستانی شہریوں کو جبری طور پر بھیجا، باوجود اس کے کہ اسلام آباد نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ جب تک کورونا وائرس کے کوارنٹین مراکز انہیں وصول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو جاتے، اس وقت تک پاکستانی شہریوں کو واپس نہ بھیجا جائے۔

انہوں نے کہا، "میں نے ایرانی وزیرِ خارجہ کے ساتھ بات کی تھی اور [شیعہ زائرین کے لیے] انتظامات کرنے کا وقت مانگا تھا۔"

قریشی نے کہا کہ ایرانی حکومت کے یہ جواب دینے کے بعد کہ وہ ٹائمنگ پر تعاون نہیں کر سکتے، "پاکستان کے پاس اپنے شہریوں کو وصول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔"

عالمی ٹریکرز، جو ممالک کی اپنی رپورٹوں پر انحصار کرتے ہیں، کے مطابق ایران دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے جہاں کووڈ-19 کے 416،000 سے زائد کیسز ہیں اور بیماری سے لگ بھگ 24،000 اموات ہوئی ہیں۔

اگست کے اوائل میں بی بی سی فارسی نے بتایا تھا کہایران میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی اصل تعداد ایرانی حکومت کی سرِعام اعتراف کردہ تعداد سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے.

ایرانی حکومت کے ریکارڈز -- جو بی بی سی کو لیک ہوئے تھے -- ظاہر کرتے تھے کہ 20 جولائی تک کووڈ-19 والی علامات سے لگ بھگ 42،000 مریض ہلاک ہوئے تھے، جبکہ اس کے برعکس اس وقت حکومت کی وزارتِ صحت کی جانب سے 14،405 اموات بتائی گئی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ متاثرہ مریضوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے تقریباً دُگنی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500