صحت

کووڈ-19 پر کمزور ردِعمل نے مضبوط حکومتوں کا ستیاناس کر دیا

سلام ٹائمز اور اے ایف پی

کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران، 7 ستمبر کو ماسکو میں ایک شخص موسمی نزلے کی ویکسینیشن مہم کے دوران ویکسین لگوانے کے بعد اپنا بازو دکھاتے ہوئے۔ [نتالیہ کولیسنیکوا / اے ایف پی]

کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران، 7 ستمبر کو ماسکو میں ایک شخص موسمی نزلے کی ویکسینیشن مہم کے دوران ویکسین لگوانے کے بعد اپنا بازو دکھاتے ہوئے۔ [نتالیہ کولیسنیکوا / اے ایف پی]

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حقائق کے لحاظ سے انداز، جبروتشدد اور ناگواری کی بات یہ ہے کہ: دنیا کی مضبوط حکومتوں نے کووڈ-19 کورونا وائرس کی عالمی وباءسے بالکل ویسے نمٹا ہے جیسے باقی ہر چیز سے نمٹا جاتا ہے۔ ان میں چین، روس اور ایران کی حکومتیں شامل ہیں۔

لیکن بعض اوقات جب عوام الناس کی فلاح و بہبود سے صریح غفلت، واضح نااہلیکے ساتھ مل کر، شہریوں کے ایسے قائدین پر اعتماد کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔

برطانیہ میں یونیورسٹی آف ریڈنگ میں ایک ترقیاتی معیشت دان، اوما کمبھمپتی نے کہا، "ان سبھی کی قیادت کی ایک یکساں قسم ہے، ایک حاکمانہ قیادت۔"

"اس قسم کی عالمی وباء لازمی طور پر ان کے لیے انتہائی پریشان کن ہونی چاہیئے تھی۔"

جن لوگوں نے کووڈ-19 کے خلاف جنگ لڑی تھی انہیں اعزاز دینے کے لیے منعقدہ ایک تقریب سے قبل 8 ستمبر کو بیجنگ میں گریٹ ہال آف پیپل کے باہر چینی محافظ پہرہ دیتے ہوئے۔ [نکولس ایسفور/ اے ایف پی]

جن لوگوں نے کووڈ-19 کے خلاف جنگ لڑی تھی انہیں اعزاز دینے کے لیے منعقدہ ایک تقریب سے قبل 8 ستمبر کو بیجنگ میں گریٹ ہال آف پیپل کے باہر چینی محافظ پہرہ دیتے ہوئے۔ [نکولس ایسفور/ اے ایف پی]

کوئی اور موردِ الزام نہیں

کمبھمپتی نے اے ایف پی کو بتایا کہ بحرانی حالات کے شروع میں عوام میں نمایاں موجودگی کے بعد، بھارتی وزیرِ اعظم نریندرا مودی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جیسے رہنماء اب لوگوں کے سامنے آنے سے کترا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "ابتدائی مراحل میں وہ دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے تھے، مگر اب، چھ ماہ کے بعد، وہ کسی اور پر الزام نہیں دھر سکتے۔"

"یہ ان کے لیے ایک آرام دہ مؤقف نہیں ہے۔"

چین، روس، ملائشیاء اور پاکستان کا بطور مثالیں حوالہ دیتے ہوئے، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں کہا کہ ایک عام ردِعمل محکمۂ صحت کے اہلکاروں اور دیگر بنیادی اہلکاروں کی جانب سے ہونے والی تنقید کو کچلنا رہا ہے۔

جولائی کی ایک رپورٹ میں، جس کا عنوان "منکشف، خاموش کردہ، حملہ کردہ" ہے، ایمنسٹی نے ایسے اہلکاروں کو پالیسی کے متعلق تشویشوں کا اظہار کرنے سے روکنے کے لیے حکومتوں کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے واقعات کو اجاگر کیا ہے۔

ان کی پریشانیوں کا اکثر تعلق کام کرنے کے غیر محفوظ حالات، ذاتی حفاظت کے آلات کے ناکافی ہونے، محکمۂ صحت کے اہلکاروں کی ناکافی تربیت اور ناکافی ٹیسٹنگ سے تھا۔

'افواہیں پھیلانا'

ایمنسٹی نے چین میں ایک ماہرِ امراضِ چشم لی وینلیانگ کے معاملے کا حوالہ دیا، جس نے اپنے رفقائے کار کو کورونا وائرس کے متعلق متنبہ کیا تھا اور اس پر "افواہیں پھیلانے" کے لیے فوراً ہی پابندی لگا دی گئی تھی۔

ایمنسٹی کے مطابق، مصر میں، حکام نے مارچ اور جون کے درمیان، آواز بلند کرنے پر کم از کم نو ڈاکٹروں اور فارماسسٹ کو گرفتار کرنے کے لیے ان پر "غلط خبریں پھیلانے" اور "دہشت گردی" کے الزامات استعمال کیے ہیں۔

یہی الزامات الجزیرہ کے لیے کام کرنے والے ایک 65 سالہ صحافی، محمد منیر پر لگائے گئے، جن کا جولائی میں جیل میں کووڈ-19 سے انتقال ہو گیا تھا۔

ایمنسٹی نے کہا کہ پاکستان میں، پولیس نے ڈاکٹروں کی جانب سے اپنے کام کرنے کے حالات اور آلات کی قلت کے خلاف کیے گئے ایک احتجاجی مظاہرے کو ختم کروایا، جس میں ہجوم پر ڈنڈے برسائے گئے اور درجنوں کو گرفتار کیا گیا۔

سوئٹزرلینڈ میں سنٹر فار سیکیورٹی سٹڈیز کے ایک سینیئر محقق، بینو زوگ نے کہا، "آمرانہ ممالک کا ایک بہت مخصوص طریقہ ہوتا ہے جسے عالمی وباء سے تقویت دی گئی۔"

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "وہ مضبوط ہونے کا ایک تاثر دینا چاہتے ہیں، جو روس اور چین کے لیے حقیقت تھا، یہ دکھانے کے لیے کہ آمرانہ حکومتیں ایسے بحران کو جمہوری حکومتوں سے بہتر طور پر سنبھالنے کے قابل ہوتی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "انہوں نے بنیادی طور پر معاشرے کو قابو کرنے اور یہ یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے کہ نہ تو کوئی متبادل معلومات ہوں نہ ہی متبادل اختیارات ہوں۔"

غلط خبریں اور جھوٹ

روسی اور چینی دونوں حکومتیں وائرس کے متعلق خبروں اور سوشل میڈیا میں واشگاف غلط خبروں کا سیلاب لاتے ہوئے پکڑی گئی ہیں۔.

کریملن نے ترقی کا باجا بجاتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے والا "پہلا" ملک ہے، مگر دنیا بھر کے صحت کے سائنسدانوں اور طبی تجزیہ کاروں نے یہ کہتے ہوئے تشویشوں کا اظہار کیا ہے کہ غیر مصدقہ، غیر آزمائش کردہ دوا درحقیقت کووڈ-19 سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے.

اگست میں روس کے آر بی سی نے خبر دی تھی کہ روس میں رائے عامہ لیے جانے والے نصف سے زائد ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہکریملن کی "سپتنک پنجم" کورونا وائرس ویکسین نہیں لگائیں گے۔

جولائی میں برطانیہ کے نیشنل سائبر سیکیورٹی سنٹر نے کہا تھا کہ روسی ہیکروں نے برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کی ویکسین پر تحقیق اور تیاری کی تنظیموں کو نشانہ بنایا ہے۔

دریں اثناء، چینی حکومت تاریخ رقم کرنے اور مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں کووڈ-19 عالمی وباء کے خلاف جنگ میںچین کا "ہیروانہ کاموں" کا بیانیہ پھیلانے کی کوشش کرتی رہی ہے.

بحران کے آغاز سے ہی، سازشی نظریات کو فروغ دے کربیجنگ بہت متحرک ہو کر کورونا وائرس کی عالمی وباء میں اپنے کردار پر تنقید کا رخ موڑنے کی کوششیں کرتا رہا ہے.

انتباہ سے ان انتباہات اور اطلاعات کے سلسلے میں اضافہ ہوا ہے جن میں الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ایران، شمالی کوریا، روس، اور چین میں حکومتی پشت پناہی کے حامل ہیکرز کورونا وائرس کی عالمی وباء سے متعلق مشکوک سرگرمی میں ملوث ہیں، اور اہلکاروں اور سائنسدانوں کو نشانہ بنا کر غلط خبریں پھیلا رہے ہیں۔

ایرانی حکومت کووڈ-19 عالمی وباء کے متعلق غلط معلومات اور جھوٹ پھیلانے میں مشغول رہی ہے۔

اس سے پہلے، ایران کے سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کو وسیع پیمانے پر آن لائن تضحیک کا سامنا کرنا پڑا تھا اور حتیٰ کہ صدر کے ایک مشیر کو ایک "حیران کن" مگر نقلی کووڈ-19 کا سراغ رساں آلے کی نقاب کشائی کرنے پر ایرانی وزارتِ صحت کی جانب سے بھی مسترد کر دیا گیا تھا۔

کڑی نگرانی میں اضافہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں زیادہ تر آزادانہ اظہارِ رائے اور اجتماع پر پابندی لگانےپر مشتمل رہا ہے۔

ایک قابلِ ذکر استثناء بیلاروس ہے، جہاں عالمی وباء کو افراتفری میں سنبھالنے نے، صدارتی انتخابات میں دھوکہ بازی کے الزامات کے ساتھ مل کر، وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کو مہمیز دی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فلپائن، روس، کرغیزستان اور قازقستان اور دیگر ممالک کی حکومتیں عالمی وباء سے متعلق ناقدانہ آوازوں کو دبا کر رکھنے کی مجرم ثابت ہوئی ہیں۔

کووڈ-19 کے پھیلاؤ کو روکنے کی ضرورت کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، بہت سی حکومتوں نے کڑی نگرانی کے آلات -- جو اکثر چینی ساختہ ہیں -- پر خرچ میں اضافہ کر دیا ہے، جیسے کہ جی پی ایس ٹریکنگ، کلوزڈ سرکٹ ٹیلی وژن (سی سی ٹی وی)، چہرے کی شناخت اور شناختی کارڈ کی پڑتال کے سافٹ ویئر۔

سینٹر فار سیکیورٹی سٹڈیز کے زوگ کا کہنا تھا، "جب کڑی نگرانی کی جاتی ہیں، تو اسے باآسانی اگلے بحرانوں میں، یا حتیٰ کہ بطور ایک مستقل اقدام استعمال کیا جا سکتا ہے۔"

دوسری جانب، کچھ مردانِ آہن کو اپنی خامیوں کے سبب سکڑتی ہوئی عوامی حمایت کا سامنا ہو گا، یا یہاں تک کہ بغیر ساکھ والے کووڈ-19 کے حل جیسے کہ ہائیڈروکسی کلوروکوئین کی پشت پناہی کرنے یا پیٹرول یا جڑی بوٹیوں کے محلول سے ہاتھ دھونے جیسے عجیب حل پیش کرنے پر شرمندگی کا سامنا کرنا ہو گا۔

یونیورسٹی آف ریڈنگ کی کمبھمپتی نے کہا، "میرا نہیں خیال کہ مضبوط قائدین میں سے کوئی بھی اس صورتحال سے بہتر طور پر نکلتا نظر آیا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500