ٹیکنالوجی

پاکستان کا ٹیکنالوجی کا شعبہ امریکہ-چین تجارتی رسہ کشی میں موقعے کی تاڑ میں

از ضیاء الرحمان

کال سنٹر کا ایک اہلکار 9 ستمبر کو کراچی کے ایک ہسپتال میں کام کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

کال سنٹر کا ایک اہلکار 9 ستمبر کو کراچی کے ایک ہسپتال میں کام کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

اسلام آباد -- پاکستان کے ٹیکنالوجی کے تجزیہ کار پاکستانی حکام کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ ملک کے ٹیکنالوجی کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے امریکہ اور چین کی جاری تجارتی کشمکش سے فائدہ اٹھائیں۔

واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشمکش نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے جن میں تجارت، کورونا وائرس کی عالمی وباء، اور چینی حکومت کی پالیسیاں جو سنکیانگاور ہانگ کانگ میں اپنائی گئی ہیں، شامل ہیں۔

نتیجتاً، ٹیکنالوجی کی امریکی کمپنیوں نے اپنی نظریں نئی منڈیوں، خصوصاً بھارت، کی طرف بتدریج موڑ لی ہیں۔

سی این این نے جولائی میں بتایا تھا کہ سنہ 2020 کے آٖغاز سے، امریکہ کی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں بشمول ایمازون، فیس بُک اور گوگل، نے بھارت میں تقریباً 17 بلین ڈالر (2.8 ٹریلین روپے) کی سرمایہ کاری کی ہے۔

فروری میں اسلام آباد میں پاک امریکہ ٹیکنالوجی کے تبادلے کی ایک تقریب میں ایک مقرر شریک ہے۔ پروگرام کے تحت، پاکستان کے ٹیکنالوجی سے وابستہ کاروباری حضرات سیلیکون ویلی، کیلیفورنیا میں عملی تعلیم کا تجربہ اور نیٹ ورکنگ کے مواقع حاصل کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

فروری میں اسلام آباد میں پاک امریکہ ٹیکنالوجی کے تبادلے کی ایک تقریب میں ایک مقرر شریک ہے۔ پروگرام کے تحت، پاکستان کے ٹیکنالوجی سے وابستہ کاروباری حضرات سیلیکون ویلی، کیلیفورنیا میں عملی تعلیم کا تجربہ اور نیٹ ورکنگ کے مواقع حاصل کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

رپورٹ میں کہا گیا، "چین کے ساتھ بھارت کا سفارتی جھگڑا ٹیکنالوجی کے شعبے میں جا نکلا ہے۔"

رپورٹ میں کہا گیا، "اور جبکہ بھارت امریکہ کی ٹیکنالوجی فرموں کے لیے ایک بڑی کشش کا سبب رہا ہے، چین کے ساتھ ٹیکنالوجی میں تعاون کے لیے کم ہوتا ہوا امکان اور مختلف جگہوں جیسے کہ ہانگ کان میں ان کے جمائے ہوئے قدموں کو لاحق نئے خطرات بھارتی منڈی کو ایک نئی اہمیت دے رہے ہیں۔"

سٹین فورڈ یونیورسٹی کے قانون، سائنس اور ٹیکنالوجی کے پروگرام کے ڈائریکٹر، مارک لیملے نے کہا، "چین کے ساتھ کاروبار کرنا مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے۔ ایک بڑھتا ہوا احساس یہ بھی ہے کہ چین کے ساتھ کاروبار کرنے میں مشکل اخلاقی مفاہمتیں کرنا شامل ہے."

سرمایہ کاری کا موقع ضائع ہونا

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیئے کہ بھارت کے نقشِ قدم پر چلے اور تجارتی جھگڑے میں طرفداری نہیں کرنی چاہیئے اور امریکی فرموں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے ناصرف ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں اور اشیاء سازی میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بلکہ پاکستان میں کال سنٹر کی خدمات، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور سافٹ ویئر کے شعبوں کو ترقی دینے کے لیے بھی۔"

اسلام آباد میں ایک کثیر قومی تجارتی ادارے، جس کی شناخت وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کے ساتھ وابستہ ایک معیشت دان، شیخ سراج نے کہا، "پاکستان امریکی کمپنیوں کے ساتھ بڑے سرمایہ کاری کے معاہدوں سے مکمل طور پر محروم رہا ہے، بنیادی طور پر چین کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے.

انہوں نے کہا، "پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات پر از سرِ نو غور کرنا چاہیئے اور امریکہ اور چین کی [تجارتی] جنگ میں طرفداری نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ یہ اقتصادی محاذ پر پاکستان کو متاثر کر رہا ہے۔"

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق، پاکستان کی انٹرنیٹ صارف بیس میں سنہ 2019 میں 32.4 فیصد اضافہ ہوا تھا، جو اسے ایشیاء کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی انٹرنیٹ مارکیٹوں میں سے ایک بناتا ہے۔

کراچی میں ایک نجی یونیورسٹی میں ایک کمپیوٹر سائنٹسٹ، زین عالم نے کہا، "مگر انٹرنیٹ سپیس میں کافی زیادہ نشوونما کے باوجود، ملک کا ٹیکنالوجی کا ماحولی نظام بہت زیادہ ریڈار کے نیچے رہا ہے۔"

انہوں نے کہا، "[چین اور امریکہ کے درمیان] کشمکش نے پاکستان کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو راغب کرے، اور یہ صرف طرفداری نہ کر کے ممکن ہو سکتا ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ سیاسی تعلق اور معاشی انحصار کی وجہ سے، وہ مواقع دیگر ممالک کو جا سکتے ہیں۔

عالم نے کہا، "بھارت کے برعکس، پاکستان نے -- چین کے ساتھ اپنی شراکت داری کی وجہ سے -- ماضی میں سافٹ ویئر اور کاروباری عمل کی آؤٹ سورسنگ (بی پی او) کال سنٹر مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔"

ایک سنہری موقع

اگرچہ سرکاری اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں، میڈیا رپورٹیں تجویز کرتی ہیں کہ پاکستان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سالانہ 20،000 سے زائد گریجویٹ تیار کرتا ہے اور 200 ملین صارفین سے زائد کی ملکی مارکیٹ کی پیشکش کرتا ہے۔

تاہم، شروع میں پاکستان امریکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ناکام رہا ہے۔

امریکہ کی مقامی مکنسے اینڈ کو مینجمنٹ کنسلٹنسی کی جانب سے ایک تجزیئے کے مطابق، سنہ 2010 کے بعد سے، پاکستان میں 720 کمپنیاں قائم کی جا چکی ہیں جن میں سے 100 کمپنیاں کامیابی کے ساتھ فنڈنگ جمع کر رہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا، "فنڈنگ متواتر ایک بڑا مسئلہ رہی ہے -- سنہ 2017 میں صرف نو پاکستانی اداروں نے مالی کاروباری فنڈنگ وصول کی، جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت نے اتنے ہی عرصے کے دوران 790 کمپنیوں نے فنڈنگ وصول کی۔"

کراچی کے مقامی ایک مشیر جو کاروباری آغاز پر مشاورت فراہم کرتے ہیں، اشوک شرما نے کہا، "دونوں ممالک کے درمیان تناؤ نے پاکستان کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ملک میں امریکی سرمایہ کاروں کی توجہ مبذول کروائے جس نے ابھی اپنا پہلا بلند تخمینہ کاروباری آغاز کرنا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی مقامی کمپنیاں پاکستانی ٹیکنالوجی گریجویٹس کو دسیوں ہزاروں ڈیٹا آپریٹر اور بی پی او کال سنٹر ملازمتیں فراہم کر سکتی ہیں۔

شرما کا کہنا تھا، "امریکی تعاون سافٹ ویئر بنانے والوں، ڈیٹا کے تجزیہ کاروں، شماریات کے ماہرین، کال سنٹر کے ماہرین اور دیگر کے لیے ملازمتیں پیدا کر سکتا ہے۔"

پائینیر کے گلوبل گگ اکانومی انڈیکس کے مطابق، سنہ 2020 کی دوسری سہ ماہی میں پاکستان میں سنہ 2019 کے اسی سہ ماہی کے مقابلے میں فری لانس کام کرنے والوں کے لیے آمدن کی بڑھوتری کی چوتھی سب سے بلند شرح تھی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500