کراچی – پولیس کی ہنگامی صورتِ حال میں ردِّ عمل دینے کی صلاحیتوں کی تعمیرِ نو سے کراچی میں نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
کراچی میں ایک کامیاب کریک ڈاؤن کے ذریعے،عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورکس ختم کرنے کے بعد، رواں برس پولیس فورس نے ایمرجنسی رسپانس فورس کی اعانت اور شکایات درج کرانے اور عسکریت پسندانہ سرگرمی سے متعلق معلومات فراہم کرنے میں باشندوں کی مدد کرنے کے لیے متعدد اقدامات کا آغاز کیا ہے۔
صوبہ سندھ میں ایک اعلیٰ پولیس افسر، انچارج سیکیورٹی آپریشنز، مقصود میمن نے کہا کہ کراچی میں ہنگامی ردِ عمل کی نگرانی کرنے والے مددگار کمانڈ اینڈ کنٹرول (ایم سی سی -15) کی تشکیلِ نو نمایاں نتائج دے رہی ہے۔
میمن نے 5 جولائی کو کہا، "اب ایمرجنسی کالز پر پولیس کا رسپانس ٹائم 10 منٹ ہے"، جو کہ اس تبدیلی سے قبل 30 منٹ کے وقت سے بہتر ہوا ہے۔
ایم سی سی -15 کو مستحکم کرنے کے لیے سندھ پولیس کی ریپڈ رسپانس فورس سمیت متعد پولیس یونٹس پولیس کی سیکیورٹی اینڈ ایمرجنسی ڈویژن کے تحت کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا، "نو تشکیل شدہ ایم سی سی -15 جرائم پیشہ افراد کے پرزور تعاقب، گلی محلے کے جرائم کی انسداد، معاشرہ مخالف عناصر کی نگرانی، اچانک تلاشیاں، ایس او ایس الرٹس اور ایمرجنسی سروسز کے ساتھ تعاون کو۔۔۔ یقینی بنائے گی۔"
انہوں نے کہا کہ اس تشکیلِ نو کے تحت، اس فورس کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے درست ہونے کی تصدیق کے لیے شناختی تصدیق کے نظام کے ساتھ ساتھ غیر اندراج شدہ اور چوری شدہ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی شناخت کے لیے گاڑیوں کے تصدیقی نظام تک بھی رسائی حاصل ہو گی۔
ناکام حملہ
یہ پولیس فورس کسی بھی شخص کے ماضی کے جرائم کا ریکارڈ تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ جاننے کے لیے کہ آیا یہ شخص ماضی میں اخلاق سوز واقعہ میں ملوث تھا، "سانحات کو نتھی کرنے" کا عمل بھی کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جیل سے رہا ہونے والے سابق قیدیوں کی نگرانی رکھنا بھی منصوبے کا جزُ ہے۔
میمن نے کہا کہ رواں برس، سیکیورٹی اینڈ ایمرجنسی ڈویژن 1,100 پولیس اہلکاروں سے توسیع پا کر 2,200 اہلکاروں تک پہنچ گئی۔ اسی طرح سے ہنگامی خدمات کے لیے پولیس کی گاڑیوں کا بیڑہ 106 سے 176 تک وسعت پا گیا۔
رواں برس کے اوائل میں ایک ناکام حملہ کامیابی کے ایک اقدام کی نمائندگی کرتا ہے۔
جون میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کراچی میںپاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ای) پر ایک حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
چار حملہ آور ایکسچینج پہنچے، گولیاں چلائیں اور ایک دستی بم پھینکا، سیکیورٹی فورسز نے حملہ شروع ہونے کے آٹھ منٹ کے اندر انہیں مار گرایا، قبل اس کے تین سیکیورٹی گارڈ اور ایک پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔
پاکستانی آر آر ایف کے ان نوجوان افسران کو سلام پیش کرتے ہیں جنہیں نے اس ردِّ عمل میں حصہ لیا اور ایک خونریزی سے بچا لیا۔
ایک تاجر، شبّیر اللہ والا، جن کا دفتر اسی تنصیب میں تھا، نے کہا، "اگر پولیس کی ایمرجنسی پولیس فورس فوری طور پر ردِّ عمل نہ دیتی تو جانی نقصان بہت زیادہ ہو سکتا تھا کیوں کہ پی ایس ای کی عمارت کے اندر سینکڑوں افراد موجود تھے۔"
اللہ والا نے کہا، "تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اورلیاری کے مجرمانہ گینگزسمیت مختلف قسم کے گروہوں کے خلاف کامیاب کریک ڈاؤن کے بعد کراچی میں امن لوٹ آیا ہے۔"
انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے ایمرجنسی رسپانس فورس کی تشکیلِ نو متعدد گروہوں کے سلیپر سیلز کی جانب سے کیے جانے والے دہشتگردانہ اقدامات کو ناکام بنانے میں معاون ہو سکتی ہے۔
جی ہاں
جوابتبصرے 1