دہشتگردی

حکام نے تحریکِ طالبان پاکستان اور لال مسجد کے ساتھ وابستہ دہشت گرد تنظیم، غازی فورس پر پابندی عائد کر دی

از ضیاء الرحمان

لال مسجد کے مہتممِ اعلیٰ مولانا عبدالعزیز (درمیان میں) 4 جنوری 2014 کو اسلام آباد میں ایک سُنی مسلمان رہنماء کی نمازِ جنازہ کی امامت کرواتے ہوئے جنہیں پاکستان کے دارلحکومت میں ایک روز قبل نامعلوم مسلح افراد نے ہلاک کر دیا تھا۔ [فاروق نعیم / اے ایف پی]

لال مسجد کے مہتممِ اعلیٰ مولانا عبدالعزیز (درمیان میں) 4 جنوری 2014 کو اسلام آباد میں ایک سُنی مسلمان رہنماء کی نمازِ جنازہ کی امامت کرواتے ہوئے جنہیں پاکستان کے دارلحکومت میں ایک روز قبل نامعلوم مسلح افراد نے ہلاک کر دیا تھا۔ [فاروق نعیم / اے ایف پی]

اسلام آباد -- پاکستانی حکام نے غازی فورس (جی ایف) پر پابندی عائد کر دی ہے، ایک دہشت گرد تنظیم جو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ وابستہ ہے۔.

پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے 25 اگست کو انسدادِ دہشت گردی کے قانون 1997 کے تحت تنظیم پر دہشت گردی کے ساتھ اس کے مشتبہ روابط کی وجہ سے پابندی عائد کر دی۔

قومی محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) نے غازی فورس کو اپنے اقدام کے جزو کے طور پر کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔

اس تنظیم کے متعلق بہت کم معلومات ہیں، جو اپنے آغاز سے ہی زیادہ تر زیرِ زمین رہی ہے۔

فروری 2016 میں کراچی میں سول سوسائٹی کے کارکنان کی جانب سے لال مسجد انتظامیہ کی دہشت گرد تنظیم کی کفالت پر مذمت۔ [ضیاء الرحمان]

فروری 2016 میں کراچی میں سول سوسائٹی کے کارکنان کی جانب سے لال مسجد انتظامیہ کی دہشت گرد تنظیم کی کفالت پر مذمت۔ [ضیاء الرحمان]

دفاعی حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق، غازی فورس کا نام عبدالرشید غازی کے نام پر رکھا گیا ہے، اسلام آباد میں لال مسجد کے ایک اسلامی بنیاد پرست رہنماء جو جولائی 2007 میں حکومت کی جانب سے لال مسجد کے محاصرے کے دوران مارے گئے تھے۔

سنگاپور کے مقامی انٹرنیشنل سنٹر فار پولیٹیکل وائلنس اینڈ ٹیررازم ریسرچ کے ساتھ وابستہ ایک محقق، عبدالباسط کے مطابق، تنظیم کا کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق ہے اور اس کے بیشتر ارکان لال مسجد کے طالب علم ہیں۔

عبدالباسط نے کہا، "انہوں [جی ایف کے عسکریت پسندوں] نے اسلام آباد میں کئی حملوں میں سہولت کاری کی، خصوصاً خود کش حملوںمیں، جو دفاعی قوتوں کی جانب سے لال مسجد کے محاصرے کے فوراً بعد ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ غازی فورس کی ویب سائٹ ظاہر کرتی تھی کہ تنظیم کی حکومت کے ساتھ کھلی دشمنی اور ٹی ٹی پی کے ساتھ حمایت تھی، ان کا مزید کہنا تھا کہ "غازی فورس کے علیحدہ ہونے والے ایک دھڑے نے 'دولتِ اسلامیہ عراق و شام' کی خراسان شاخ (داعش-کے) ".کے ساتھ الحاق کا وعدہ کیا تھا۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیکٹا کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ لال مسجد کے مدارس میں سے ایک، جامعہ فریدیہ کے ایک طالب علم، مولانا نیاز رحیم نے ٹی ٹی پی کے مستقبل کے امیر، مُلا فضل اللہ کی معاونت سے غازی فورس قائم کی تھی۔

فضل اللہ سنہ 2018 میں افغانستان میں ایک امریکی فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔.

اہلکار کا کہنا تھا کہ غازی فورس کے بیشتر ارکان کا تعلق لال مسجد کے مدارس -- جامعہ فریدیہ، صرف لڑکوں کا مدرسہ، اور جامعہ حفصہ، اس کا ہم منصب صرف لڑکیوں کا مدرسہ، سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنظیم نے اسلام آباد کے اندر یا اس کے قریب کئی ہائی پروفائل خودکش حملوں میں مدد کی، بشمول اکتوبر 2009 میں عالمی خوراک پروگرام کے دفتر پر حملہ، ستمبر 2008 میں میریئیٹ ہوٹل پر حملہ اور جون 2010 میں نیٹو کی رسد کے قافلے پر حملہ۔

اہلکار کے مطابق، تاہم غازی فورس کے ممتاز ارکان کی ایک بڑی تعداد گرفتار ہو چکی ہے یا ملک کے مختلف حصوں میں مقابلوں میں ماری جا چکی ہے، جس سے دہشت گرد تنظیم کمزور ہو گئی ہے۔

فرقہ وارانہ تقسیم کے دونوں اطراف کے دہشت گرد گروہوں پر پابندی لگانا

تازہ ترین پابندی اس وقت عائد کی گئی ہے جب پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شیعہ عسکری تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن شدید کر دیا ہے -- جو غازی فورس کے فرقہ وارانہ دشمن ہیں -- جنہیں پاکستان میں فرقہ واریت کو بھڑکانے اور نوجوانوں کو بھلا پھسلا کر شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے لیے لڑنے کے لیے بھرتی کرنے کا موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔

پاکستانی خفیہ اداروں نے شیعہ نوجوانوں کے ایرانی اثر و رسوخ کا شکار بننے اور عراق اور شام میں لڑ رہے تہرانی پشت پناہی کے حامل جنگی گروہوں میں بھرتی ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

19 اگست کو، وفاقی حکومت نے ، ایک شعیہ تنظیم ختم الانبیاء (کے یو اے) پر، شیعہ نوجوانوں کو حکومتی فوج کی معاونت کرنے والے ایرانی پشت پناہی کے حامل جنگجوؤں کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے شامل بھیجنے پر پابندی عائد کی تھی۔

وزارتِ داخلہ کی جانب سے دسمبر 2016 میں پابندی عائد کردہ شیعہ عسکری تنظیم، انصار الحسین کے ارکان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنے کی کوشش میں کے یو اے کے تحت کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

شام میں پاکستانی عسکریت پسندوں کے لیے بنیادی بھرتی کار، سرمایہ لگانے والے اور انہیں سنبھالنے والے ایران کے سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) اور اس کی قدس فورس ہیں۔

پاکستانی حکام نے درجنوں شیعہ نوجوانوں کو تنظیموں کے ساتھ مبینہ طور پر ملوث ہونے کے لیے گرفتار کیا ہے، بنیادی طور پر انہیں جن کا تعلق زینبیوں بریگیڈسے ہے، جو بشار الاسد حکومت کی حمایت میں شام کے اندر لڑنے کے لیے بھیجے گئے پاکستانیوں پر مشتمل ایک غیر سرکاری فوج ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

قبل اس کے کہ یہ زہریلی کونپل ایک تناور درخت بن جائے، اسے اکھاڑ پھینکیں۔

جواب