توانائی

شمالی کے پی میں چھوٹے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس سے طویل الانتظار ترقی کی افزائش

دانش یوسفزئی

18 اگست کو بیلہ بالا پاور پلانٹ کا پاور ہاؤس دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ پلانٹ 200 کلو واٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

18 اگست کو بیلہ بالا پاور پلانٹ کا پاور ہاؤس دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ پلانٹ 200 کلو واٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

پشاور – خیبر پختونخوا (کے پی) کی صوبائی حکومت نے صوبے کے شمالی خطے میں 302 سے زائد منی ہائیڈرو پاور منصوبے قائم کیے ہیں، جس سے علاقہ کی طویل الانتظار ترقی کی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔

کے پی کے وزیرِ اعلیٰ کے مقامی اطلاعات کے لیے معاونِ خصوصی کامران خان بنگش کے مطابق، زیادہ تر پاور سٹیشن افغاستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ منی پاور پلانٹ کام کر رہے ہیں اور 24 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جو کہ 250,000 گھروں کی بجلی کی ضروریات کے لیے کافی ہے۔ یہ منصوبہ کے پی کی حکومتی پارٹی کے طور پر پاکستان تحریکِ انصاف (PTI) کے پہلے دور (2013-2018) میں سامنے آیا۔

بنگش نے کہا کہ صرف گیارہ منی پلانٹ کل 3.3 میگا واٹ پیدا کرتے ہوئے ضلع سوات کی وادیٴ کالام میں ہوٹلوں، ریستورانوں، سرکاری دفاتر، دکانوں، گھروں، سکولوں، ٹراؤٹ ہیچریز اور مساجد کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

18 اگست کو بٹگرام میں بیلہ بالا پاور پلانٹ کے پانی کی راہداری دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ پلانٹ 200 کلوواٹ پیدا کرتا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

18 اگست کو بٹگرام میں بیلہ بالا پاور پلانٹ کے پانی کی راہداری دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ پلانٹ 200 کلوواٹ پیدا کرتا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

18 اگست کو بٹگرام میں بیلہ بالا منی ہائیڈرو پاور پلانٹ پر ایک انجنیئر اس سٹیشن کو پانی کی سپلائی ایڈجسٹ کر رہا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

18 اگست کو بٹگرام میں بیلہ بالا منی ہائیڈرو پاور پلانٹ پر ایک انجنیئر اس سٹیشن کو پانی کی سپلائی ایڈجسٹ کر رہا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

18 اگست کو بٹگرام میں بیلہ بالا منی ہائیڈرو پاور پلانٹ پر ایک کارکن سٹیشن کے پاور لوڈ کا جائزہ لے رہا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

18 اگست کو بٹگرام میں بیلہ بالا منی ہائیڈرو پاور پلانٹ پر ایک کارکن سٹیشن کے پاور لوڈ کا جائزہ لے رہا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

گزشتہ برسوں میں جزوی طور پر سخت زمین اور عدم رسائی کے مسائل کی وجہ سے اور خطے میں شورش اور عسکریت پسندی کی وجہ سے بھی کے پی کے زیادہ تر حصوں میں ترقیاتی سرگرمیاں موقوف تھیں۔ ملازمتوں کے فقدان کی وجہ سے متعدد مقامی باشندے یہاں سے نکلنے اور دیگر مقامات پر روزگار تلاش کرنے پر مجبور تھے۔

بنگش نے کہا، "صوبائی حکومت کی جانب سے ان علاقوں کی ترقی کے لیے لیے جانے والے بڑے اقدامات میں سے ایک بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا، جو عمومی ذرائع سے ممکن نہ تھا۔"

گزشتہ برسوں میں مسلسل ببوطِ ارض، چٹیل پہاڑی زمینوں اور عدم تحفظ کی وجہ سے پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اس علاقہ تک رسائی کے لیے کوشاں رہی۔

رواں برس صوبائی حکومت منی ہائیڈروپاور سٹیشنز کے دوسرے مرحلے کے آغاز کا ارادہ رکھتی ہے، جو کہ مزید علاقہ اور آبادی کو کور کرے گا۔

بنگش نے کہا کہ حکام نے نوانضمام شدہ قبائلی اضلاع میں منصوبوں سمیت 650 اضافی پاور سٹیشنز کی منظوری دی ہے، جن کی استعداد 55 میگا واٹ سے زیادہ ہے۔

نئی ترقی کی جانب قیادت

بگش نے کہا کہ بحالیٴ امن کے ساتھ اب ان علاقوں کی تیز تر ترقی کے لیے راہ ہموار ہے۔

بٹگرام میں بیلہ بالا گاؤں کے ایک رہائشی شاہد خان، جو کہ 200 کلو واٹ کے ایک قریبی منی ہائیڈرو پاور سٹیشن سے استفادہ کررہے ہیں، نے کہا کہ علاقہ میں ایسی تنصیبات ممکن ہیں کیوں کہ تمام تر شمالی پہاڑی سلسلے میں متعدد آبشاریں اور ندیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صلاحیت کو مزید استعمال کرتے ہوئےسیّاحت کے فروغ کے ذریعے ترقی کے ایک نئے دور کے دروازے کھولے جا سکتے ہیں۔

وادیٴ کیلاش، ضلع چترال کے گاؤں رمبور کے ایک رہائشی ماریجیانا نے کہا کہ 150 کلوواٹ کا مقامی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ علاقہ مکینوں کی زندگیوں میں نمایاں بہتری لایا ہے۔

کل 450 کلو واٹ پیدا کرنے والے پانچ منی ہائیڈرو پاور پلانٹ اب وادیٴ کیلاش میں کام کر رہے ہیں، اور ایک ایسی کمیونیٹی کو بجلی فراہم کر رہے ہیں جن کے پاس کم ہی قابلِ اعتبار بجلی ہوتی تھی۔

یہ پاور پلانٹ صوبے کے شمالی علاقہ جات میں سیّاحت، تجارت اور کام کے مواقع کے لیے بجلی کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

ماریجیانا نے کہا، "قبل ازاں ہم اپنے پیسے سے چھوٹے ٹربائین لگاتے تھے۔ ان سے کبھی ہماری ضرورتیں پوری نہیں ہوتی تھیں۔ اب ہم ایک ہی وقت میں کپڑے دھونے کی مشینیں چلا سکتے ہیں، ٹیلی ویژن دیکھ سکتے ہیں، اپنے کپڑے استری کر سکتے ہیں اور بتیاں بھی جلا سکتے ہیں۔"

مزید برآں، ان منصوبوں کی وجہ سے جلانے کی لکڑی کی طلب میں کمی آنے کی وجہ سے خطے میں جنگلات کی کٹائی کی بیخ کنی میں بھی مدد ملی ہے۔

ضلع دیر بالا میں اشارئی گاؤں کے ایک رہائشی محمّد حنیف نے کہا کہ بند گھروں میں لکڑی اور مٹی کا تیل جلانے سے ہونے والے امراضِ تنفس عام ہوا کرتے تھے۔

حنیف نے کہا، "ہم نے اپنے بچوں میں ان بیماریوں میں نمایاں کمی دیکھی ہے کیوں کہ وہ مٹی کے تیل کی بتیوں میں پڑھا کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آلودگی سے صحت کے متعدد مسائل پیدا ہوتے تھے۔"

حنیف نے کہا کہ مزید برآں اب بچوں کے پاس دن کے وقت کھیلنے کے لیے زیادہ وقت ہوتا ہے کیوں کہ اب انہیں دن کے وقت کا زیادہ تر حصہ گھر کی پڑھائی کے لیے وقف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بتیوں کی مدد سے وہ اندھیرا پڑنے کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں۔

ملازمت کے مواقع

کالام کے ایک رہائشی حشمت علی نے کہا، "بے روزگاری کی وجہ سے ہمارے زیادہ تر لوگ ہجرت کر جایا کرتے تھے۔ موسمِ سرما میں صورتِ حال بد تر ہو جاتی اور بقا بھی مشکل ہو جاتی۔"

انہوں نے کہا، "اب جبکہ بجلی زیادہ سہولت کے ساتھ دستیاب ہے، متعدد کاروبار، جن میں سے کئی سیّاحت کی صنعت کے ساتھ منسلک ہیں، سامنے آئے ہیں اور ہمیں اب ہر سال ہجرت نہیں کرنا پڑتی۔"

جبکہ یہ اقدام مقامی باشندوں کے لیے متعدد روزگار پیدا کرنےمیں مدد کر رہا ہے، بالخصوص خواتین بڑھتے ہوئے مواقع سے مستفید ہو رہی ہیں۔

دیر بالا میں کسائی گاؤں کے ایک رہائشی انعام الّرحمٰن نے کہا کہ زیادہ قابلِ اعتماد بجلی کے ساتھ، "ہماری خواتین نے سلائی مشینوں کے ساتھ آمدنی کمانا شروع کر دی ہے اور وہ آہستہ آہستہ اپنی محنت پر پذیرائی حاصل کر رہی ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500