صحت

حکام کی جانب سے ایرانی حکومت پر پاکستان میں منشیات فروش کے ساتھ تعلقات کا الزام

از عبدالغنی کاکڑ

قبضے میں لی گئی منشیات کو پاکستان کے محکمۂ انسدادِ منشیات کی جانب سے 24 دسمبر 2019 کو اسلام آباد کے مضافات میں ایک ڈھیر کی صورت میں نذرِ آتش کیا جا رہا ہے۔ [عامر قریشی / اے ایف پی]

قبضے میں لی گئی منشیات کو پاکستان کے محکمۂ انسدادِ منشیات کی جانب سے 24 دسمبر 2019 کو اسلام آباد کے مضافات میں ایک ڈھیر کی صورت میں نذرِ آتش کیا جا رہا ہے۔ [عامر قریشی / اے ایف پی]

کوئٹہ -- سرکاری ذرائع اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت دنیا بھر میں ہیروئین اور دیگر غیر قانونی منشیات کی غیر قانونی نقل و حرکت کے لیے پاکستانی علاقے کا فائدہ اٹھانے میں ڈرگ مافیاز کی مدد کر رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کا مقصد ایران کی گرتی ہوئی معیشت کو آگے بڑھانا اور خطے میں حکومت کی پراکسی جنگوں کے لیے پیسہ کمانا ہے۔

میرجاویہہ، جو ایران کے ساتھ ملحق ہے، کے ایک قبائلی عمائد، میر عرفان برمزئی نے کہا، "ایران میں منشیات کی سمگلنگ زرِ مبادلہ کا ایک پرکشش ذریعہ ہے، اور ایران کے کچھ حصوں میں، مقامی حکام منشیات کی تیاری اور غیر قانونی نقل و حرکت میں ملوثان گروہوں کو مبینہ طور پر معاونت فراہم کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا، "پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ایران کی طویل اور مسام دار مشرقی سرحد خطے میں منشیات کی غیر قانونی نقل و حرکت کے مرکزی راستے کے طور پر مشہور ہے۔ سرحدی علاقوں میں ایرانی حکام منشیات کی کئی فیکٹریوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔"

8 اگست کو خضدار، صوبہ بلوچستان میں لیویز حکام میڈیا کو ایک چھاپے کے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے جس میں ان کے محکمے نے ایک بین الاقوامی منشیات فروش گروہ کے دو مشتبہ ارکان کو گرفتار کیا تھا اور غیر قانونی منشیات کی ایک بڑی مقدار قبضے میں لی تھی۔ [عبدالغنی کاکڑ]

8 اگست کو خضدار، صوبہ بلوچستان میں لیویز حکام میڈیا کو ایک چھاپے کے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے جس میں ان کے محکمے نے ایک بین الاقوامی منشیات فروش گروہ کے دو مشتبہ ارکان کو گرفتار کیا تھا اور غیر قانونی منشیات کی ایک بڑی مقدار قبضے میں لی تھی۔ [عبدالغنی کاکڑ]

عرفان کا کہنا تھا، "ایران میں کاشت کردہ پوست سے تیار کردہ افیون پہلے ایران پہنچتی ہے اور پھر زیادہ تر بین الاقوامی منڈیوں میں سمگل کر دی جاتی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہمارے علاقے میں ایرانی حکومت پر اس کے دوہرے معیارات کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ایک طرف، ایرانی حکومت ڈرگ مافیاز کے خلاف اٹھائے گئے اپنے اقدامات کا دعویٰ کرتی ہے، اور دوسری طرف، سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی)اور قدس اور بسیج نیم عسکری فورسز مالی اہداف کے لیے اس گھناؤنے کاروبار کی سرپرستی کر رہی ہیں۔"

گزشتہ برس ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آئی آر جی سی پاکستان میں منشیات کی غیر قانونی نقل و حرکت کے لیے "بھرپور معاونت" فراہم کر رہی ہے.

انہوں نے مزید کہا، "ایک طویل عرصے سے، ہمارے لوگوں نے سرحدی علاقوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ایرانی حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے ڈرگ مافیاز بے قابو ہوتے جا رہے ہیں۔"

تفتان کے مقامی ایک سینیئر دفاعی اہلکار جو ماضی میں نارکوٹکس کنٹرول کی وزارت میں خدمات انجام دے چکے ہیں، مزمل وحید نے کہا، "یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ افغانستان میں تیار کردہ افیون کی بہت بڑی مقدار ایران کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک میں سمگل ہوتی ہے؛ لہٰذا، ایرانی حکومت منشیات کی غیر قانونی نقل و حرکت میں ایک مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہمارے باڑ نصب کرنے کے باوجود، 936 کلومیٹر طویل مشرقی سرحد ایرانی حکام کی غفلت کے سبب بیشتر غیر محفوظ ہوتی ہے، اور ڈرگ مافیاز سرحدی علاقوں میں بے خوف ہو کر آر پار کام کرتے ہیں۔"

وحید نے کہا کہ پاکستانی محکمۂ انسدادِ منشیات، اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف)، اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارےغیر قانونی منشیات کو روکنے میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں

انہوں نے کہا، "اس سال کے آغاز سے بلوچستان کے پاک-ایران سرحدی علاقوں میں کئی کارروائیوں کے دوران 11 بلین روپے (65 ملین ڈالر) سے زائد مالیت کی منشیات قبضے میں لی گئی ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "ایرانی سرپرستی کے بغیر، ڈرگ مافیاز ایرانی راستے سے بین الاقوامی منڈی میں منشیات کی سمگلنگ میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بین الاقوامی برادری کو لازمی طور پر ایران کی غیر قانونی منشیات کی کفالت کی بیخ کنی کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیئے۔

پراکسی ملیشیاؤں میں سرمایہ کاری کرنا

وحید نے کہا، "ایران سے منشیات کی طغیانی ناصرف ہماری نوجوان نسل کو برباد کر رہی ہے۔ یہ عدم استحکام میں بھی اضافہ کر رہی ہے کیونکہ منشیات سے کمایا گیا پیسہ دہشت گردوں کی جانب سے ہتھیار اور دیگر آلات خریدنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔"

راولپنڈی کے مقامی ایک خفیہ اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "خطے میں ایران منشیات کا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے، اور یہ تہران کے مفادات کے لیے مختلف ممالک میں جنگوں میں مصروف پراکسی ملیشیاؤں کو منشیات سے کمایا گیا پیسہ فراہم کرتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ امریکی پابندیوں نے "ایرانی معیشت کو ایک بڑا دھچکا لگایا ہے اور ایران کی خطے میں اپنے تزویراتی مفادات کو وسیع کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "ایران اپنے الحاق شدہ عسکری گروہ حزب اللہ کے ذریعے منشیات کی غیر قانونی نقل و حرکت کا ایک عالمی نیٹ ورک چلا رہا ہے جس کے منشیات کے بین الاقوامی کارٹلز کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ ایرانی فضائی کمپنی، ایران ایئر، وینزویلا، شام، لبنان، عراق، اور یورپ کے کچھ ممالک میں منشیات پہنچانے پر موردِ الزام ٹھہرائی جاتی رہی ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "ماضی میں، ایرانی ڈرگ مافیاز پاکستان میں منشیات بھیجنے کے لیے پاکستان کے شیعہ زائرین کو استعمال کرتے تھے۔ تاہم، تفتان میں پاک-ایران دوستی گیٹ پر سخت حفاظتی انتظامات نے ایسی کارروائیوں کو ناکام بنا دیا ہے۔"

ایک اور ایرانی فضائی کمپنی، مہان ایئر، جو کہ جزوی طور پر آئی آر جی سی کی ملکیت ہے، ایران اور پورے خطے میں کورونا وائرس کی بڑے پیمانے پر وباء میں ایک کلیدی عنصررہی ہے، اور بہت سے لوگ اسے آئی آر جی سی کی قدس فورس کی جانب سے اس کے استعمال کے سبب "ملیشیا فضائی کمپنی" کے طور پر جانتے ہیں۔.

انہوں نے کہا کہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تہران غیر قانونی منشیات کی کمائی کو زیادہ تر شیعہ عسکری گروہوں کو سرمایہ فراہم کرنے میں استعمال کرتا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی آر جی سی کے ساتھ منسلک شیعہ پراکسی ملیشیا -- زینبیون بریگیڈ اور فاطمیون ڈویژن -- نے اس کمائی کو ہتھیار خریدنے کے لیے استعمال کیا ہے.

اسلام آباد کے مقامی ایک دفاعی تجزیہ کار، میجر (ر) عمر فاروق نے کہا، "بنیادی طور ایرانی حکومت بلکان اور سلک روٹس کو جنوبی یورپ اور وسطی ایشیاء کو منشیات برآمد کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے، جبکہ افغانستان سے چرس اور ہیروئین کی کُل غیر قانونی نقل و حرکت کا 60 فیصد سے زائد حصہ ایرانی راستے سے بین الاقوامی منڈیوں میں جاتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "پاک-ایران سرحد کے ساتھ ساتھ بلوچ نسلی اکثریت والا علاقہ ان گروہوں کا مرکز ہے جو بین الاقوامی منڈی میں منشیات فروخت کرتے ہیں۔ منشیات کے عبوری ملک کے طور پر ایران کا کردار بین الاقوامی توجہ کا متقاضی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی حکام کی ملی بھگت کے بغیر، ایران کے حساس علاقوں میں غیر قانونی منشیات کی فیکٹریاں چلانا ناممکن ہے۔

فاروق نے کہا، "ایرانی ڈرگ مافیا کے چند ارکان عراق میں منشیات سمگل کرنے کے لیے قم، نجف، کربلا، اور مشہد کے مقدس شہروں میں ایرانی زائرین کے بھیس میں جاتے ہیں۔"

ممکنہ جبر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "ذرائع ابلاغ میں بہت سی رپورٹیں آئی ہیں کہ پاکستانی زائرین کو منشیات کی سمگلنگ پر حراست میں لیا گیا تھا، مگر میرے خیال میں زیادہ تر زائرین منشیات لے جانے کی رضامندی نہیں دیتے۔"

فاروق کا کہنا تھا، "ڈرگ مافیاز کا ایرانی نظامِ نقل و حمل میں ایک مضبوط نیٹ ورک ہے؛ لہٰذا، بعض اوقات وہ پاکستان اور دیگر منازل پر منشیات کو زائرین کے ذاتی سامان میں ڈال کر اسمگل کر دیتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500