سفارتکاری

افغان طالبان راہنما پابندیوں کی تجدید کے دوران مذاکرات کے لیے اسلام آباد روانہ

عالم زیب خان اور اے ایف پی

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی منگل،اگست ۲۵، کو اسلام اباد میں افغان طالبان کے راہنماوں کو خوش آمدید کہ رہے ہیں. [پاکستان وزارت خارجہ]

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی منگل،اگست ۲۵، کو اسلام اباد میں افغان طالبان کے راہنماوں کو خوش آمدید کہ رہے ہیں. [پاکستان وزارت خارجہ]

اسلام آباد -- پاکستان نے افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے اہم ارکان کو اسلام آباد بلایا ہے جہاں سینئر حکام اس ہفتے ان پر امن مذاکرات شروع کرنے کی اہمیت پر دباؤ ڈالیں گے۔

یہ ملاقاتیں افغانستان کے تنازعہ میں ایک نازک موقع پر شروع ہوئی ہیں جب کہ قیدیوں کے ایک متنازعہ تبادلے اور پاکستان کی طرف سے اقوامِ متحدہ (یو این) کی عسکریت پسند گروہ کے خلاف پابندیوں کو اجاگر کرنے کے باعث مذاکرات ایک بار پھر رک گئے ہیں۔

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر (24 اگست) کو کہا کہ "وفد اسلام آباد میں ہے اور ہم کل ان سے مذاکرات کا ایک دور کریں گے جو کہ ان کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد دوطرفہ اعتماد قائم کرنا ہے"۔

طالبان اور افغان حکومت نے اشارہ دیا تھا کہ وہ عید کے فورا بعد مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں جس کا اختتام اس ماہ کے آغاز میں ہوا مگر یہ عمل قیدیوں کے ایک تبادلے کے باعث ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی (بائیں) 24 اگست کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ قریشی نے کہا کہ پاکستان نے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے اہم ارکان کو اسلام آباد بلایا ہے جہاں اس ہفتہ سینئر حکام ان پر امن مذاکرات کے آغاز کی اہمیت کے بارے میں دباؤ ڈالیں گے۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی (بائیں) 24 اگست کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ قریشی نے کہا کہ پاکستان نے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے اہم ارکان کو اسلام آباد بلایا ہے جہاں اس ہفتہ سینئر حکام ان پر امن مذاکرات کے آغاز کی اہمیت کے بارے میں دباؤ ڈالیں گے۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

طالبان کے قیدی 31 جولائی کو کابل کے مضافات میں پلِ چکری کی جیل سے ممکنہ رہائی کے عمل کے دوران تصویر کھنچوا رہے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی نے 31 جولائی کو 500 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ [وکیل کوہسار/ اے ایف پی]

طالبان کے قیدی 31 جولائی کو کابل کے مضافات میں پلِ چکری کی جیل سے ممکنہ رہائی کے عمل کے دوران تصویر کھنچوا رہے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی نے 31 جولائی کو 500 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ [وکیل کوہسار/ اے ایف پی]

کابل نے تقریبا 4,680 عسکریت پسند قیدیوں کو رہا کر دیا جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغان سیکورٹی فورسز کے 1,000 ارکان کو رہا کر دیا ہے جو کہ امریکہ اور عسکریت پسند گروہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی شرائط کو بڑے پیمانے پر پورا کرتا ہے۔

تاہم، یہ تبادلہ آخری چند سو قیدیوں پر آ کر رک گیا ہے اور کابل انہیں رہا کرنے سے ہچکچا رہا ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ یہ خطرناک طالبان عسکریت پسند ہلاکت انگیز حملوں میں ملوث تھے۔

قریشی نے کہا کہ اسلام آباد نے طالبان کو پاکستان اس لیے بلایا ہے تاکہ ان پر مذاکرات کی اہمیت کے بارے میں زور ڈالا جا سکے اور کہا کہ مذاکرات افغانستان میں "آگے بڑھنے کا واحد راستہ" ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "مصالحت کرنا افغانیوں کا کام ہے اور ہمارا مقصد صرف اسے ممکن بنانا ہے"۔

"بنیادی مقصد امن کو یقینی بنانا ہے اور اگلہ مرحلہ بین-افغان مذاکرات کا آغاز کرنا ہو گا"۔

گزشتہ اکتوبر میں، ملا عبدل غنی بارادر-- جو کہ طالبان کے نائب بانی ہیں اور جنہوں نے پاکستان کی تحویل میں آٹھ سال گزارے ہیں -- عسکریت پسندوں کی طرف سے فروری میں واشنگٹن کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جانے سے پہلے، اپنی سربراہی میں ایک وفد اسلام آباد لائے تھے۔

اسلام آباد نے کہا کہ طالبان پر اس کے اثر و رسوخ نے عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوں۔

اتوار (23 اگست) کو طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹ کیا کہ بارادر اور دیگر مذاکرات کار "افغانستان کے امن کے عمل میں ہونے والی حالیہ پیش رفت، دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان لوگوں اور تجارت کی نقل و حرکت میں نرمی اور آسانی پیدا کرنے" کے بارے میں بات چیت کریں گے۔

پابندیوں کی تجدید

طالبان کا دورہ اس وقت ہوا ہے جب پاکستانی حکومت نے طالبان، القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ (داعش) کے خلاف پابندیوں کی تجدید کر دی ہے۔

دفترِ خارجہ کی ویب سائٹ پر 18 اگست کو شائع ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق، پاکستان نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایک ایس آر او (قانونی ریگولیٹری آرڈر) جاری کیا ہے۔

اسی دن جاری ہونے والے ایک اور ایس آر او میں سفر کی پابندیوں، اسلحہ پر پابندیوں اور القاعدہ اور داعش سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں کے فنڈز اور دیگر مالی وسائل کو منجمند کرنے کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں۔

وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے 21 اگست کو کہا کہ ایس آر او "پہلے سے اعلان کردہ ایس آر اوز کو مستحکم کرنے اور ان کی دستاویز بندی کرنے کے لیے عملی قدم ہے اور یہ پابندیوں کی فہرست یا پابندیوں کے اقدامات میں کسی تبدیلی کی عکاسی نہیں کرتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل طالبان سینکشنز کمیٹی ہے جو طالبان اور ان سے تعلق رکھنے والے اداروں اور افراد پر پابندیوں سے نپٹتی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "کمیٹی کی طرف سے کسی بھی تبدیلی پر، تمام ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے ان پابندیوں کو نافذ کرتا ہے جس میں اثاثوں کو منجمند کرنا، ہتھیاروں پر پابندی اور سفر پر پابندیاں شامل ہیں"۔

کچھ حکام کے مطابق، پاکستان نے یہ قدم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط پر پورا اترنے کے لیے اٹھایا ہے۔

پیرس میں قائم بین الاحکومتی تنظیم نے جون 2018 میں پاکستان کو، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری کو روکنے میں ناکامی پر اپنی نام نہاد گرے لسٹ میں شامل کر دیا تھا۔

اس نے اسلام آباد کو دی جانے والی اس مہلت میں توسیع کر دی تھی کہ وہ ایک ایسا ایکشن پلان مکمل کرے جس کا مقصد ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو ستمبر تک پورا کرنا تھا۔

قومی اسمبلی نے 29 جولائی کو اور سینٹ نے 30 جولائی کو اقوامِ متحدہ سیکورٹی کونسل (یو این ایس سی) ترمیمی بل 2020 اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دی تھی۔

نئے قانون میں ایسے اقدامات بھی شامل تھے جو پاکستان کی حکومت کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے نامزد کردہ افراد اور اداروں کے اثاثوں کو منجمند کرنے، سفری پابندیوں اور ہتھیاروں پر پابندیاں لگانے کے قابل بناتے ہیں۔ ان میں عسکریت پسندی کے سہولت کاروں کے لیے لمبی قید اور بھاری جرمانے بھی رکھے گئے ہیں۔

یو این ایس سی کی قراردادوں 1267 اور 1373 میں رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کو نافذ کریں جن میں اپنے ملکی قوانین کے ذریعے دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری کو روکنا بھی شامل ہے۔ پاکستان میں اس شرط کو انسدادِ دہشت گردی کے 1997 کے قانون کے نفاذ سے پورا کیا گیا ہے۔

قریشی نے 29 جولائی کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ "عالمی مالی واچ ڈاگ کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ایس اے ٹی ایف سے متعلقہ قوانین کا پارلیمنٹ میں منظور ہونا ضروری تھا"۔

طالبان پر دباؤ ڈالنا

ایس آر اوز کے وقت سے پاکستان کی افغانستان میں امن کی سہولت کاری کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی طاہر خان نے کہا کہ قطر میں گروہ کے سیاسی دفتر کے ترجمان شاہین نے ان دستاویزات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

خان کے مطابق، شاہین نے کہا کہ نئی صورتِ حال ممکنہ طور پر امن کو خراب کر سکتی ہے کیونکہ سفر پا پابندیاں طالبان کو عمل کو تیز تر کرنے سے روک سکتی ہیں"۔

افغانستان میں پاکستان کے ایک سابقہ سفیر رستم شاہ مہمند نے کہا کہ "اس سے عدم اعتماد پھیل سکتا ہے کیونکہ پاکستان امن کے مذاکرات کی سہولت کاری کر رہا ہے اور اسی کے ساتھ پابندی کے بارے میں بھی بات کر رہا ہے"۔

شاہ نے کہا کہ "افغان طالبان کو ماضی میں تحفظات رہے ہیں خصوصی طور پر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اور اگر اب پھر سے عدم اعتماد کی صورتِ حال پیدا ہوئی تو اس سے زخموں پر اور نمک چھڑکا جائے گا"۔

مشرف نے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور 1999 سے 2008 تک پاکستان پر حکومت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ طالبان امن کے عمل میں شامل ہیں اور اگر انہیں پاکستان کی طرف سے مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو وہ چین، ایران، روس یا ترکی کی طرف جھک جائیں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اچھا کام، جاری رکھیں

جواب

خوب کام۔ یہ درست ہے کہ اگر پاکستان طویل عرصے تک طالبان کے ساتھ سختی اختیار کرے، وہ درج بالا اختتامیہ میں متذکرہ دیگر انتخابات کو بھی دیکھیں گے۔ پاکستان کو احتیاط اور ہوشیاری سے کھیلنا ہو گا۔

جواب

نہایت دلچسپ موضوع، اچھی اور متوازن تحریر۔

جواب