بیجنگ -- چینی حکومت کووڈ-19 کی عالمی وباء کے خلاف جنگ میں اپنے "ہیروآنہ افعال" کے بیانیئے کو فعال طور پر آگے بڑھا رہی ہے، مگر اس کا خود کو ایسے پیش کرنا وباء کے پھیلاؤ اور عالمی بحران سے منافع کمانے میں بیجنگ کے کردار کی اصلیت سے متصادم ہے۔
سنہ 2019 کے اختتام پر ووہان میں مہلک متعدی مرض کی دریافت کے بعد سے، چینی کمیونسٹ پارٹی نے خود کو کووڈ-19 کے خلاف جنگ میں ایک ہراول دستے کے طور پر مثالی نمونہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس زبردستی کی حالیہ ترین مثال میں، چین کے قومی عجائب گھر میں ایک نئی نمائش "طاقت کا اتحاد" ہوئی ہے، جس میں ایسے مصوری، مجسمہ سازی اور خطاطی کے نمونے رکھے گئے ہیں جو حکومت کے مطابق اس کی بحران پر ردِعمل دینے میں کامیابی کا اظہار ہیں۔
بیجنگ میں عجائب گھر میں نمائش میں رکھے گئے بڑے بڑے قرطاسوں میں سے، ایک مصوری کا نمونہ خوشی سے جھوم رہی ایک نرس کو دکھاتا ہے جو اپنی رفقائے کار کو صدر شی جن پنگ کا خط پڑھ کر سنا رہی ہے۔
سرکاری طور پر چلنے والے چائنا ڈیلی نے کہا، "کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے اگلی صفوں میں کام نہ کرنے کی بجائے، فنکاروں نے ان سورماؤں کے کارناموں کو دستاویز بند کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جنہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا، نہ ہی اس مقصد کے لیے ان کے عظیم حصے کو سراہا۔"
کمرے کے وسط میں، اصل انسانوں کے حجم کے سپاہیوں کے مجسمے ہیں جو متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ایک جہاز میں سے اتر رہے ہیں، ان کا وردیوں میں ملبوس ہونا لانگ مارچ کے ایک منظر کی یاد دلاتا ہے -- جو سنہ 1930 کی دہائی میں خانہ جنگی کے دوران کمیونسٹ گوریلوں کی مشکلات کو بیان کرتا ہے۔
ایک جذباتی فن پارے میں چہرے پر ماسک پہنے ایک نرس کو دکھایا گیا ہے جو ایک ساتھی کا پورا حفاظتی لباس ٹھیک کر رہی ہے، جبکہ ایک اور فن پارے میں ملک کے مشہور طبی ماہر، ژونگ نانشان، کو ان کے ماسک کے اوپر بہتے ہوئے ایک آنسو کے ساتھ قریب سے دکھایا گیا ہے۔
وسط اگست تک، کووڈ-19 سے اندازاً 20 ملین افراد متاثر ہو چکے ہیں اور 750،000 سے زائد اموات ہو چکی ہیں، یہ ایک بے نظیر بحران ہے جس نے دنیا کے ہر ملک سے ناقابلِ شمار سیاسی، معاشی اور صحت کا خراج وصول کیا ہےاور ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔
سچائی کو چھپانا
یہ نمائش اور حکومت کی سوشل میڈیا اور خبروں کے ماحول کو غلط معلومات کے سیلاب میں ڈبونے کی جاری کوششیں صحت کے عالمگیر بحران میں بیجنگ کے ردِعمل کی حقیقت سے بہت مختلف ہیں۔
عالمی تجزیہ کاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس بارے میں شفاف ہوتی کہ خطرناک کووڈ-19 ابتداء میں کیسا تھا، تو دنیا کو ردِعمل دینے کا وقت مل جاتا، جس سے ہزاروں جانیں بچ جاتیں اور موجودہ افراتفری سے بچت ہو جاتی۔
اپریل میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے خبر دی تھی کہ چینی حکام نے، یہ جانتے ہوئے کہ مہلک وباء سر پر آن کھڑی ہے، لگ بھگ ایک ہفتہ چپ سادھے رکھی، جس سے وائرس کو ووہان پر قابض ہونے اور دنیا بھر میں پھیلنے کا موقع مل گیا۔
دوسری جانب، امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں فائیو آئیز کی جانب سے مئی مرتب کردہ ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق،چینی حکومت نے کورونا وائرس کی وباء پھوٹنے کے ثبوت کو دانستہ طور پر دبا دیا یا تلف کر دیا
15 صفحات پر مشتمل رپورٹ، جو دی سیچرڈے ٹیلیگراف آف لندن کی جانب سے حاصل کی گئی تھی، نے کہا کہ چینی حکومت نے -- "دیگر ممالک کو خطرے میں ڈالنے" کے لیے -- بات کرنے والے ڈاکٹروں کو خاموش کروا کر یا "غائب کر کے"، لیبارٹریوں میں کووڈ-19 کے ثبوت کو تلف کر کے اور ویکسین پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے لیے نمونے فراہم کرنے سے انکار کر کے وائرس کی خبروں کو چھپایا۔
یورپی یونین (ای یو) نے 10 جون کو ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ چینی اور روسی حکومتوں نے کووڈ-19 کی عالمی وباء کے دوران "اہدافی اثرورسوخ کی کارروائیوں اور غلط معلومات پھیلانے کی مہمات" کے ذریعے یورپی جمہوریت کو تباہ کرنے اور اپنی ساکھ کو چمکانے کی کوشش کی ہے۔
عالمی وباء سے منافع خوری
دریں اثناء، چینی کمپنیاں منافع کمانے کے لیے عالمی وباء کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
وباء کے دوران کمی کو پورا کرنے کے لیے، چین نے ذاتی حفاظتی آلات (پی پی ای)، جیسے کہ ماسک، تیار کرنے کی ایک بھرپور کوشش شروع کر دی۔ سال کے پہلے نصف میں 73،000 سے زائد کمپنیوں نے ماسک تیار کنندہ کے طور پر اندراج کروایا -- بشمول صرف اپریل میں ہی 36،000 سے زائد نئی کمپنیاں -- جبکہ قیمتیں اور طلب میں اضافہ ہو رہا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، مارچ اور مئی کے درمیان، چین نے 50 بلین سے زائد چہرے کے ماسک برآمد کیے -- جو کہ گزشتہ سال کی کل پیداوار میں 10 گنا اضافہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق چین دنیا میں سب سے بڑا ماسک فراہم کنندہ رہے گا، وائرس کے اپنا عالمی مارچ جاری رکھنے پر بڑی کمپنیاں پیداوار میں اضافہ کر رہی ہیں۔
نیویارک ٹائمز کی جانب سے ایک ویڈیو رپورٹ کے مطابق، اس کوشش کے جزو کے طور پر، چینی حکام سنکیانگ علاقے میں مسلمان اقلیتوں کو پی پی ای فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، اس رپورٹ میں سینکڑوں ویڈیوز، تصاویر اور سرکاری دستاویزات سے حاصل شدہ ثبوت کا حوالہ دیا گیا ہے۔
یہ پروگرام بیجنگ کی جانب سے ایک کوشش کا حصہ ہے جس نے گزشتہ چند برسوں میں ایک ملین سے زائد مسلمانوں، بشمول نسلی قازق اور کرغیز، کو تلقینِ عقیدہ کیمپوں میں بھیجا ہے۔
یہ ماسک یا تو بین الاقوامی طور پر فروخت کر دیئے جاتے ہیں یا پراپیگنڈہ ہتھیار کے طور پر عطیات میں استعمال کیے جاتے ہیں جسے تجزیہ کاروں کی جانب سے "ماسک سفارتکاری" کہا گیا ہے تاکہ وائرس کے الزام کا رخ موڑا جائے -- تاہم چند صورتوں میں گھٹیا معیار کی وجہ سے اس حربے کا الٹا نقصان ہوا ہے۔
ایک معاملے میں۔ ایک چینی فرم نے نصف ملین "جعلی" کووڈ-19 ماسک فروخت کیےجن کا مقصد ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ کمپنی نے جھوٹ بول کر دعویٰ کیا کہ ماسک این 95 کے معیار کے ہیں جو کورونا وائرس کے مریضوں کے ساتھ کام کرنے والے طبی اہلکاروں کے لیے ہیں اور یہ جھوٹا دعویٰ بھی کہا کہ وہ سرکاری طور پر سندیافتہ ہیں۔
چینی بے ایمانیاں جعلی یا گھٹیار معیار کے صحت کے آلات فراہم کرنے تک ہی محدود نہیں ہیں۔
چین کی پشت پناہی کے حامل ہیکرز کووڈ-19 کے لیے علاج اور ویکسین سے متعلقہ تحقیق اور عالمانہ املاک کو چرانے کی کوشش کر رہے ہیں,اس امر سے یو ایس بیورو آف انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) اور یو ایس سائبرسیکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے) نے مئی میں متنبہ کیا تھا۔