ماحول

کچرا اٹھانے والی چینی کمپنیوں کی ناکامی سے کراچی میں کوڑے کے ڈھیر اور مایوسی

پاکستان فارورڈ

کچرے کے ڈبوں کی غیر موجودگی کے باعث، 5 مئی کو کراچی میں سڑک کے کنارے لگے ہوئے کوڑے کے ڈھیر دکھائے گئے ہیں۔ [پاکستان فارورڈ]

کچرے کے ڈبوں کی غیر موجودگی کے باعث، 5 مئی کو کراچی میں سڑک کے کنارے لگے ہوئے کوڑے کے ڈھیر دکھائے گئے ہیں۔ [پاکستان فارورڈ]

کراچی -- حکومتی اہلکار، مقامی تنظیمیں اور شہری چین کی ان کمپینیوں کو چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہیں کراچی میں کچرا اٹھانے کا کام دیا گیا تھا۔

جولائی کے آخیر میں شہری علاقوں میں آنے والا سیلاب، ان کمپینوں کی طرف سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی کے ساتھ مل کر، شہر میں معمول کی زندگی میں خلل کا باعث بنا ہے۔

سندھ کی حکومت نے 2007 اور 2008 میں چین کی صفائی کی کمپنیوں چھانگی کانجی سینیٹیشن انجینئرنگ کمپنی اور ہانگجو جنجیانگ سینیٹیشن سروسز کے ساتھ شہر میں گھر گھر جا کر کچرا اکٹھا کرنے کے دو معاہدے کیے تھے۔

فروری 2017 میں دیے جانے والے ٹھیکے میں، سندھ حکومت کو اکٹھا کیے جانے والے کچرے کے لیے 26 ڈالر (4,200 روپے) فی میٹرک ٹن کے حساب سے ادا کرنے تھے جو کہ کراچی میونسپیلٹی کو اسی کام کے لیے ادا کیے جانے سے 8.5 گنا زیادہ تھا۔ یہ خبر اس وقت ایکسپریس ٹریبیون نے دی تھی۔

مقامی علاقوں میں کوڑا دان لگانے کی بجائے، چینی کمپنیاں 5 مئی کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں کچرے دانوں کو بے ترتیبی سے ریلوے لائن کے قریب جمع کر رہی ہیں۔ [پاکستان فارورڈ]

مقامی علاقوں میں کوڑا دان لگانے کی بجائے، چینی کمپنیاں 5 مئی کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں کچرے دانوں کو بے ترتیبی سے ریلوے لائن کے قریب جمع کر رہی ہیں۔ [پاکستان فارورڈ]

چینی کمپنیوں کی طرف سے ملازم رکھے گئے کارکن 5 مئی کو کراچی کی سڑکوں پر جھاڑو لگا رہے ہیں۔ چینی ادارے کارکنوں کی تنخواہوں سے غیر قانونی طور پر رقم کاٹ رہے ہیں جس سے مزدوروں کی انجمنیں مشتعل ہو رہی ہیں۔ [پاکستان فارورڈ]

چینی کمپنیوں کی طرف سے ملازم رکھے گئے کارکن 5 مئی کو کراچی کی سڑکوں پر جھاڑو لگا رہے ہیں۔ چینی ادارے کارکنوں کی تنخواہوں سے غیر قانونی طور پر رقم کاٹ رہے ہیں جس سے مزدوروں کی انجمنیں مشتعل ہو رہی ہیں۔ [پاکستان فارورڈ]

چینی اداروں نے گھر گھر جا کر کچرا جمع کرنے اور ہر بڑی سڑک پر ایسے کچرا دان لگانے کا وعدہ کیا تھا جن میں مائیکرو چپ لگے ہوتے۔

یہ کمپنیاں جنہوں نے 2018 میں کام کرنا شروع کیا تھا، کو ابھی ان وعدوں کو پورا کرنا ہے اور کچرے کے ڈھیر تیزی سے جمع ہوتے جا رہے ہیں۔

چین کو پہلے ہی پاکستان میں ملک میں جعلی ادویات کو اسمگل کرنے کی اجازت دینے پر تنقیدکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور چینی اداروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے کرونا وائرس کی عالمگیر وباء سے مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والےناقص وینٹیلیٹر اور ذاتی حفاظت کا سامان فراہم کیا ہے۔

طویل عرصے سے جاری ناکامی

اگست 2019 میں سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) جو کہ ٹھوس کچرے کی انتظام کے معاملات کی نگرانی کرنے والا سندھ حکومت کا ادارہ ہے، نے چینی کمپنیوں کو انتباہ جاری کیا تھا کہ وہ کراچی کی دو ڈسٹرکٹس -- ملیر اور کورنگی سے کچرا اٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔

اس انتباہ میں کہا گیا ہے کہ "ٹھیکہ داران کی کارکردگی شروع ہی سے مایوس کن رہی ہے۔ گھروں سے جا کر کوڑا اکٹھا کرنا اس معاہدے کا ایک اہم حصہ تھا مگر ادارہ اس میں ناکام رہا ہے"۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ "اس کے علاوہ ٹھیکہ دار سڑکوں، گلیوں، محلوں اور فٹ پاتھوں کو صاف رکھنے میں ناکام رہے ہیں"۔

اس میں مزید کہا گیا کہ "کمپنیوں نے ناکافی کچرا دان، سامان اور مشینری فراہم کی جس کا نتیجہ کوڑے کے ڈھیر اکٹھے ہو جانے کی صورت میں نکلا ہے"۔

گزشتہ اکتوبر میں، کراچی کمشنر افتخار شلوانی نے چینی کمپنیوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی ہیں۔ یہ بات کمشنر کے دفتر کے ایک ترجمان نے بتائی۔

نیشن نے خبر دی ہے کہ گزشتہ نومبر میں کچرے کے بحران کے بارے میں سندھ اسمبلی میں ہونے والی گرما گرم بحث میں اس وقت کے وزیرِ اطلاعات سید غنی نے کہا تھا کہ سندھ حکومت نے پیشگی ادائیگیوں کو روک دیا ہے اور چینی کمپنیوں کو صرف اس وقت ادائیگی کی جائے گی جب وہ اپنے معاہدوں کو پورا کریں گی۔

ملیر کے علاقے سے تعلق رکھنے والے شہری حقوق کے سرگرم کارکن مجتبی علی نے کہا کہ سندھ حکومت کو فوری طور پر چینی کمپنیوں کے معاہدوں کو منسوخ کر دینا چاہیے اور انہیں مقامی اداروں کو دے دینا چاہیے۔

علی جنہوں نے چینی کمپنیوں کے بارے میں کئی بار حکومت کو شکایات لکھی ہیں، نے کہا کہ "چینی ادارے حکومت سے زیادہ پیسے لیتے رہے ہیں مگر انہوں نے شہر کی سڑکوں پر جمع کچرے کے ڈھیروں سے نظریں چرائی رکھی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ سڑکوں پر کچرے سے ابلتے کوڑے دان شہر بھر میں ایک عام منظر بن گئے ہیں۔

مزدور مخالف پالیسیاں

چینی کمپنیاں کارکنوں کی تنخواہوں سے چھٹیاں بھی کاٹتی رہی ہیں جس سے مزدور انجمنیں مشتعل ہو رہی ہیں۔

سندھ حکومت نے مارچ میں کرونا وائرس لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا اور تمام کارکنوں کے لیے تنخواہ کے ساتھ چھٹی دینے کا اعلان کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ کسی کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا۔

روزنامہ دنیا نے 29 اپریل کو خبر دی تھی کہ تاہم، چینی کمپنیوں نے کئی سو کارکنوں کی تنخواہوں سے چھٹی کے پیسے کاٹ کیے جن میں قلی، ڈرائیور اور سروے کرنے والے شامل ہیں جو کہ حکومت کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔

یہ کٹوتیاں 2,000 روپے سے 22,000 روپے (12 ڈالر سے 130 ڈالر) کے درمیان تھیں۔

مزدوروں کی انجمن کے ایک رہنما سید ذوالفقار شاہ، جنہوں نے چین کے اداروں کو ٹھیکہ دینے کے خلاف مہم چلائی ہے، کہا کہ چینی اداروں نے غیر انسانی طریقہ اپنایا اور مزدور مخالف رویہ رکھا ہے۔

شاہ جو کہ میونسپیلٹی کے کارکنوں کی یونین کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ "لاک ڈاؤن کے باجود، کارکن شہر سے کوڑا صاف کرنے کے لیے دن رات کام کرتے رہے ہیں مگر چینی کمپنیاں غیر قانونی طور پر ان کی تنخواہوں سے کٹوتیاں کرتی رہی ہیں"۔

ایک چینی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے قلی، مزمل شاہ نے ایسے تحریری معاہدوں کے حوالے سے جو مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کرتے، کہا کہ "کمپنیوں نے کارکنوں کو تعیناتی کے حکم نامے نہیں دیے ہیں"۔

چینی کمپنیوں نے بینکوں کے ذریعے ادائیگی کرنے کی بجائے، غیر قانونی کٹوتیاں کرنے کے بعد، کارکنوں کو نقد ادائیگیاں کی ہیں۔ اس عمل سے کارکن بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے، الیکٹرانک یا کاغذی ثبوت سے محروم ہو گئے ہیں۔

شاہ نے کہا کہ "انہوں نے (چینی کمپنیوں نے) ایسے کارکنوں کو برخاست کر دیا ہے جنہوں نے ان کے خلاف احتجاج کرنے کی ہمت کی"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500