نوجوان

حساس نوجوانوں کے تحفظ کے لیے پاکستان کے قبائلی اضلاع میں بچوں کی پہلی عدالت کا قیام

از عدیل سعید

8 اگست کو قبائلی اضلاع میں قائم کردہ پہلی تحفظِ اطفال عدالت کا ایک بیرونی منظر۔ [عالمگیر خان]

8 اگست کو قبائلی اضلاع میں قائم کردہ پہلی تحفظِ اطفال عدالت کا ایک بیرونی منظر۔ [عالمگیر خان]

پشاور -- خیبر پختونخوا (کے پی) کے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں نئی قائم کردہ پہلی تحفظِ اطفال عدالت (سی پی سی) خطرے کی زد میں بچوں کے تحفظ کی حکومتی کوششوں کے جزو کے طور پر کھل گئی ہے۔

ضلع مہمند میں واقع عدالت، جو کے پی میں اس نوعیت کی چوتھی عدالت ہے، کا فی الواقع افتتاح 8 اگست کو پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) کے چیف جسٹس جسٹس وقار احمد سیٹھ کی جانب سے کیا گیا۔ ایسی پہلی عدالت سنہ 2019 میں ضلع پشاور میں قائم کی گئی تھی.

خصوصی عدالتوں میں بچوں کے لیے دوستانہ ماحول پیش کرنے کے لیے رنگ برنگی دیواریں، مصوری کے نمونے، کھلونے، کتابیں، صوفے اور کرسیاں موجود ہیں۔

سیٹھ نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا تقریباً 25 فیصد 14 سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے، اور معاشرے کے ایسے بڑے حصے کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہو گی۔

حکام 8 اگست کو غلانئی، ضلع مہمند میں تحفظِ اطفال عدالت کا افتتاح کرتے ہوئے۔ [عالمگیر خان]

حکام 8 اگست کو غلانئی، ضلع مہمند میں تحفظِ اطفال عدالت کا افتتاح کرتے ہوئے۔ [عالمگیر خان]

قبائلی اضلاع میں تحفظِ اطفال کی پہلی عدالت میں بچوں کے لیے مقرر کردہ ایک کمرہ 8 اگست کو دکھایا گیا ہے۔ [عالمگیر خان]

قبائلی اضلاع میں تحفظِ اطفال کی پہلی عدالت میں بچوں کے لیے مقرر کردہ ایک کمرہ 8 اگست کو دکھایا گیا ہے۔ [عالمگیر خان]

غلانئی، ضلع مہمند میں تحفظِ اطفال عدالت میں 8 اگست کو کمرۂ عدالت کا ایک اندرونی منظر۔ [عالمگیر خان]

غلانئی، ضلع مہمند میں تحفظِ اطفال عدالت میں 8 اگست کو کمرۂ عدالت کا ایک اندرونی منظر۔ [عالمگیر خان]

تحفظِ اطفال کے لیے کام کرنے والی اسلام آباد کی مقامی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او)، ساحل کی جانب سے سنہ 2019 میں مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں روزانہ تقریباً آٹھ بچوں کے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے۔

ساحل کے مطابق، سنہ 2019 میں، پاکستان کے چاروں صوبوں میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے کُل 2،846 واقعات کی اطلاع دی گئی تھی۔

واقعات کی نامعلوم تعداد بغیر اطلاع کے رہ جاتی ہے۔

پی ایچ سی کے رجسٹرار، خواجہ وجیہہ الدین نے کہا کہ عدالتوں کا مقصد ان بچوں کی حفاظت کرنا ہے جو عدالت میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے مقدمات، ظلم اور غفلت کے واقعات میں آتے ہیں، نیز جو نابالغ مجرم ہیں۔

کے پی ایک طویل عرصے سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی نرسری رہا ہے، اور انتہاپسندوں نے غریب، نظرانداز کردہ بچوں کو آخرت کی ایک عظیم زندگی کے وعدوں کے ساتھ خودکش بمبار بننے کی ترغیب دینے کی کوشش کی ہے۔

درست سمت میں قدم

وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں، سی پی سیز کی کُل تعداد بڑھ کر سات ہو گئی ہے، جبکہ صوبائی حکومت کا منصوبہ ہے کہ مستقبل قریب میں کے پی میں مزید تین عدالتیں قائم کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک کے پی میں موجود عدالتوں نے بچوں، 93 فیصد لڑکوں اور 7 فیصد لڑکیوں، کے ساتھ متعلقہ 1،140 مقدمات نمٹائے ہیں۔ بدسلوکی یا استحصال کے شکار تقریباً 202 بچے، 79 فیصد لڑکے اور 21 فیصد لڑکیاں، ان عدالتوں میں پیش ہوئے۔

حقوقِ اطفال کے کارکنوں، وکلاء اور سول سوسائٹی کے ارکان نے عدالتوں کا خیرمقدم کیا ہے اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ بچوں کا تمام اقسام کی بدسلوکی سے تحفظ کریں گی، نیز استحصال اور تشدد سے بچائیں گی۔

حقوقِ اطفال کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او جس نے پاکستان میں سی پی سیز کے قیام میں تکنیکی معاونت فراہم کی تھی، گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کی انتظامی ڈائریکٹر، والیری خان یوسفزئی نے اس کوشش کو سراہا۔

8 اگست کو پشاور میں ایک آن لائن افتتاح کے دوران انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ سی پی سیز کا قیام بچوں کو استحصال اور بدسلوکی سے بچانے کی طرف ایک قدم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے لیے عدالتیں قائم کرنے اور نابالغ مجرموں کو ریلیف فراہم کرنے میں حکومتی ردِ عمل کو معاشرے کی جانب سے بہت سراہا گیا ہے۔

کے پی میں حقوقِ اطفال کے ایک کارکن، عمران تکھر نے کہا کہ بچے استحصال کے لیے بہت زیادہ زدپذیر ہیں جیسا کہ سنہ 2007 سے 2016 تک ملک میں ایک دہائی طویل عسکریت پسندی کی لہر کے دوران دیکھا گیا ہے۔

تکھر نے کہا کہ اس وقت کے دوران، انتہاپسندوں نے اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے نوعمروں کی ایک بڑی تعداد کی برین واشنگ کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان عدالتوں کا قیام ایسی بدسلوکیوں کو ختم کرنے اور نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مدددے گا۔

تحفظ اور سلامتی

شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ایک گروہ، پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورک کے رابطۂ کار، تیمور کمال نے کہا کہ نئے ضم شدہ اضلاع میں سی پی سیز کا بننا "ایک تاریخی کامیابی" ہے۔

کمال نے کہا کہ ملک میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی اطلاعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور بچوں کے تحفظ کے لیے ایسے اداروں کی سخت ضرورت ہے۔

ضم شدہ اضلاع میں، ایسی سہولیات ناگزیر ہیں کیونکہ ایسے عسکریت پسند جنہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں بہت سے لڑکوں کو اغواء کیا تھا انہیں وہاں لے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اغواء کاروں نے ضم شدہ اضلاع کو بطور محفوظ ٹھکانے استعمال کیا جبکہ لڑکوں کی محفوظ واپسی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا۔

کمال نے کہا کہ علاوہ ازیں، انتہاپسندوں نے نوجوانوں کو خودکش بمبار بنانے کے لیے ان کی دماغ دھلائی کے لیے خطے کو ایک ٹھکانے کے طور پر استعمال کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مہمند میں سی پی سی کا قیام خطے میں بچوں کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد دے گا، اور ایسی عدالتوں کو ضم شدہ علاقوں کے ہر ضلع میں کام کرنا چاہیئے۔

مہمند کے ساتھ ملحق، ضلع باجوڑ کے ایک مکین، راز محمد نے کہا، "ہمارے علاقے میں، قانونی نظام بہت زیادہ مؤثر نہیں رہا ہے، جس نے فائدہ اٹھانے اور مذموم سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے خواہشمند مجرموں کو اپنی طرف راغت کیا۔"

انہوں نے کہا کہ سابقہ قبائلی علاقے کے کے پی کے ساتھ انضمام اور آئینی اداروں کے قیام کے ساتھ ایسی ظالمانہ روایات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سی پی سیز سابقہ قبائلی علاقہ جات سمیت، ملک بھر میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی شرح کو کم کرنے میں مدد دیں گی، اور بچوں کو ان لوگوں سے محفوظ رکھیں گی جو استحصال کرتے ہیں اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500