تجزیہ

ٹوٹ پھوٹ کا شکار داعش- کے افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے کوشاں

پاکستان فارورڈ

سینکڑوں جنگجوؤں کے شکست تسلیم کر کے ہتھیار ڈالنے سے چند ہی روز قبل، گزشتہ نومبر میں داعش-کے نے اتحاد و استحکام ظاہر کرنے کی ایک کوشش میں یہ تصویر شائع کی۔ [فائل]

سینکڑوں جنگجوؤں کے شکست تسلیم کر کے ہتھیار ڈالنے سے چند ہی روز قبل، گزشتہ نومبر میں داعش-کے نے اتحاد و استحکام ظاہر کرنے کی ایک کوشش میں یہ تصویر شائع کی۔ [فائل]

کابل—صوبہ ننگر ہار میں اپنی شکست کا اعلان کرنے کے نو ماہ بعد، "دولتِ اسلامیہٴ عراق و شام" کی خراسان شاخ (داعش-کے) اکثر خاموش ہی رہی ہے۔

لیکن جیسا کہ طالبان اور افغان حکومت بین الافغان امن مزاکرات کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، داعش جنگجوٴ کے جتھے تناؤ والی سیاسی صورتِ حال کو غیرمستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

داعش- کے نے خونریزی کے ساتھ عیدالاضحی کا آغاز کیا، اگرچہ طالبان اور افغان حکومت نے تہوار کے دوران ایک تین روزہ جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

مقامی حکام کے مطابق، داعش-کے نے 29 جولائی کو ہرات شہر میں ایک شعیہ اکثریتی علاقہ میں ایک بس بم حملے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں چار شہری جاںبحق اور تین دیگر زخمی ہوئے۔

گزشتہ نومبر افغان حکام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد داعش عسکریت پسند صوبہ ننگرہار میں مقامی حکام کے سامنے قطار بنائے کھڑے ہیں۔ [خالد زیرائی]

گزشتہ نومبر افغان حکام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد داعش عسکریت پسند صوبہ ننگرہار میں مقامی حکام کے سامنے قطار بنائے کھڑے ہیں۔ [خالد زیرائی]

قومی نظامتِ سلامتی کی جانب سے جاری کیے گئے اس ویڈیو سکرین شاٹ میں داعش کا افغان سربراہ اسلم فاروقی دیکھا جا سکتا ہے۔این ڈی ایس نے اسے اپریل میں صوبہ ننگرہار سے گرفتار کیا۔

قومی نظامتِ سلامتی کی جانب سے جاری کیے گئے اس ویڈیو سکرین شاٹ میں داعش کا افغان سربراہ اسلم فاروقی دیکھا جا سکتا ہے۔این ڈی ایس نے اسے اپریل میں صوبہ ننگرہار سے گرفتار کیا۔

دو روز بعد، عیدالاضحیٰ سے قبل، ہرات کے ایک پرہجوم بازار میں ایک بم پھٹنے سے کم از کم 14 شہری زخمی ہوگئے۔ کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم تمام علامات داعش-کے کی جانب اشارہ کرتی ہیں، اور طالبان سمیت دیگر عسکریت پسند گروہوں نے ملوث ہونے کی تردید کی۔

عید کے آخری روز، داعش-کے نے جلال آباد میں ایک جیل خانہ پر دھاوا بولا، جس میں داعش-کے اور طالبان کے تقریباً 1,700 قیدی رکھے گئے تھے۔

یہ لڑائی پیر (3 اگست) کو بعد از دوپہر ختم ہوئی اور اس میں 29 افراد جاںبحق اور 48 دیگر زخمی ہو گئے۔

بقاء کے لیے داعش-کے کی کوشش

اگرچہ یہ ان دہشتگردانہ اقدامات سے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تاہم داعش-کے مسلسل مخالف ہو جانے والے ارکان، ذرائع مالیات اور نئے جنگجو بھرتی کرنے کی صلاحیت کھونے کے ساتھ اپنی بقاء کے لیے نبردآزما ہے۔

اقوامِ متحدہ (UN) مانیٹرز نے 27 مئی کو خبر دی کہ ستمبر اور نومبر 2019 کے درمیان، افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (ANDSF) نے داعش-کے کو علاقہ ہائے عملداری سے متعلق پے درپے نقصانات اور ان کے "وجود کو خطرے میں ڈالنے والے دھچکے" دیے اور تب سے اب تک جنگجوؤں کی واپسی کی انسداد کر رکھی ہے اور اس گروہ کے ذرائع آمدنی کو روک رکھا ہے۔

داعش کے نے 17 نومبر کو ننگرہار میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیااور کہا کہ اس کے ارکان کے پاس ہفتوں تک کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا، "ستمبر سے نومبر 2019 تک، ننگرہار میں داعش-کے کے کارکنان کی تعداد 1,750 مسلح جنگجوؤں اور سات اضلاع میں پھیلے 22 اعلیٰ ارکان کی قیادت کاؤنسل سے کم ہو کر 200 جنگجوؤں تک آ گئی، جو کہ ضلع آچِن کے علاقہ تختو میں محاصرے میں تھے۔"

اس میں مزید کہا گیا، "صوبہ ننگرہار میں اس گروہ کے سکوت کے بعد فروری 2020 کے اواخر تک داعش-کے کے 1,442 ارکان (زیادہ تر خاندان) نے ہتھیار ڈال دیے۔"

ہتھیار ڈالنے والے سابقہ داعش-کے جنگجوؤں نے حکام کو بتایا کہ "متعدد بھرتی شدگان کو طاقت کے ساتھ یا تشدد کی دھمکی سے شمولیت کے لیے مجبور کیا گیا" جبکہ دیگر نے کہا کہ انہیں "شروع میں پیشکش کی جانے والی تنخواہوں سے لالچ دیا گیا جو کبھی حقیقت نہ بن سکیں۔"

مقامی مقررین نے UN مانیٹرز کو بتایا کہ اس گروہ کی "اپنے جنگجوؤں کے لیے بڑی تنخواہوں کی تشہیر کے پرپیگنڈا کے ہتھکنڈے رنگروٹ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک جھوٹے بیانیے کے سوا کچھ نہ تھے۔"

انہوں نے کہا کہ یہ "جھوٹ" ایک ہی مرتبہ بولا جا سکتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ داعش-کے نے اس گروہ میں شمولیت اختیار کرنے سے انکار کرنے والوں کی جبری بھرتیوں اور ایذا رسانی پر زیادہ سے زیادہ انحصار کیا۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ "افغانستان کے شمال میں داعش-کے کی کوئی مستقل منظم موجودگی نہیں ہے،" تاہم "غیرملکی جنگجوؤں کے چھوٹے گروہ جنہیں داعش-کے کے ارکان مانا جاتا ہے، طالبان کے زیرِ انتظام علاقوں میں کام کر رہے ہیں" جو زیادہ تر صوبہ کنڑ میں ہیں۔

مرکزی داعش سے علیحدگی

اس گروہ کی طاقت میں مسلسل کمی میں افغانستان میں داعش کی قیادت پر تذبذب—اور داعش کے مرکز کے ساتھ اس گروہ کے نازک رابطہ—کا کردار ہے۔

اپریل 2019 میں داعش-کے کے قائد مولوی ضیاء الحق، جو ابو عمر الخراسانی کے نام سے بھی معروف تھا، کو معذول کر کے مولوی عبداللہ اورکزئی، جو مولوی اسلم فاروقی کے نام سے بھی معروف تھا، تبدیل کر دیا گیا۔

مرکزی داعش نے فاروقی کو براہِ راست نامزد کیا، جس سے عراق اور شام میں مرکز اور افغانستان میں دھڑے کے مابین تعلقات نمایاں ہو گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا، تاہم اب داعش-کے کنڑ کے گھنے جنگلات کے دورافتادہ علاقوں سے "مرکزی داعش کے ساتھ سیٹلائٹ لنکس کے ذریعے کم ہی روابط برقرار رکھتی ہے۔"

رپورٹ میں کہا گیا کہ باوجودیکہ مرکزی داعش، داعش-کے کی داخلی فیصلہ سازی میں نہایت کم کردار ادا کرتی ہے، اگرچہ عراق اور شام میں تنازعہ کے مرکزی علاقہ سے غیر ملکی جنگجوؤں کی محدود نقل و حمل ہے داعش-کے نےداعش کے نئے سربراہ امیر محمّد عبدالرّحمٰن الموالی الصلبیسے رابطہ قائم کر لیا ہے۔

الصلبی ابوابراہیم الہاشمی القریشی کا لقب استعمال کرتا ہے۔

گزشتہ مارچ، داعش-کے کو اس وقت ایک مزید دھچکہ لگا جبANDSF نے قندھار میں داعش-کے کے سینیئر عسکری کمانڈروں قاری زاہد اور سیف اللہ اور 19 دیگر کمانڈروں سمیت فاروقی کو پکڑ لیا۔

حال ہی میں، افغان قومی نظامتِ سلامتی (این ڈی ایس) نے یکم اگست کو جلال آباد کے قریب داعش-کے کے انٹیلی جنس سربراہ اسد اللہ اورکزئی کے قتل کا اعلان کیا۔

ننگرہار میں اس گروہ کی شکست اور بعدازاں قندھار میں فاروقی کے پکڑے جانے کے بعد، یہ امر غیر واضح ہے کہ داعش-کے کی لگام کس کے ہاتھ ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، فاروقی کے پکڑے جانے سے قبل، وہ امیر بننے کے لیے مبینہ طور پر داعش-کے کے نائب شیخ مطیع اللہ کماہوال کے مقابلہ میں تھا، تاہم ابوسعید محمد الخراسانی اور شیخ عبدالطاہر سمیت دیگر امّیدواران بھی تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا، "ذرائع کا کہنا ہے کہابوبکر البغدادی کی موت کے بعدداعش-کے مرکزی داعش کو ملوث کیے بغیر نامزدگی کا فیصلہ داخلی طور پر کرے گی۔"

کاروائیوں میں تبدیلی

مانیٹرز کا کہنا ہے کہ ANDSF اور اتحادی افواج کی جانب سے ننگرہار اور کنڑ میں داعش-کے کے خلاف کیے جانے والے آپریشن نے اعلیٰ سطحی پیچیدہ حملے کرنے کی اس گروہ کی صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے۔

یہ بحث چل رہی ہیں کہ جن حملوں کی ذمہ داری داعش-کے نے قبول کی ان میں سے کتنے حملے درحقیقت انہوں نے کیے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا، " جن حملوں کا دعویٰ داعش-کے نے کیا ان میں سے زیادہ تر میں کسی حد تک حقانی نیٹ ورک کے ملوث ہونے، تسہیل کاری یا تکنیکی معاونت فراہم کیے جانے کا مظاہرہ ملا ہے۔"

اس میں کہا گیا، مزید برآں داعش-کے نے ان آپریشنز کی ذمہ داری قبول کی ہے جو عین ممکن ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے کیے ہوں۔

طالبان کا ایک بدنامِ زمانہ ملحقہ گروہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں افغان اور نیٹو فورسز سے لڑنے والے خطرناک ترین گروہوں میں سے ایک ہے۔

این ڈی ایس نے کہا کہ افغان سپیشل آپریشن فورسز نے 5 مئی کو داعش-کے اور حقانی نیٹ ورک کی دو کمین گاہوں—ایک کابل میں اور ایک صدرمقام کے مضافات میں— پر چھاپہ مار کر اس مشترکہ نیٹ ورک کی زیرِ قیادت ایک بڑے دہشتگرد نیٹ ورک کو پکڑا۔

افغان سیکیورٹی عہدیداران کے مطابق، طالبان اور امریکی معاملہ دانوں کے درمیان امن معاہدہ اور آنے والے بین الافغان امن مزاکرات نے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے چند دھڑوں کو غضب ناک کیا، اور چند ارکان کو داعش-کے کے ایما پر تباہ کن حملے کرنے پر مشتعل کیا۔

لفٹننٹ جنرل احمد ضیاء سراج نے 18 مئی کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا، "ہماری انٹیلی جنس بتاتی ہے کہ طالبان اور غیر ملکی دہشتگرد گروہوں کے درمیان تعلقات ماضی کی نسبت مستحکم ہو گئے ہیں۔"

سراج نے ISIS کا عربی نام استعمال کرتے ہوئے کہا، "جنہیں ہم نے حال ہی میں گرفتار کیا ہے اور جو دستاویزات ہم نے جمع کی ہیں، ظاہر کرتی ہیں کہ ان حالیہ واقعات کے منتظمین کے حقانی نیٹ ورک اور داعش کے ساتھ روابط تھے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500