پشاور -- گزشتہ دہائی میں دہشت گردوں کی جانب سے کی گئی تباہی و بربادی اور مظالم کے باوجود پاکستانیوں نے جو لچک دکھائی ہے اس پر ایک دستاویزی فلم کے ذریعے توجہ دلائی گئی ہے جو بین الاقوامی پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔
28 جولائی کو فلم کے ڈائریکٹر، پشاور کے ایک صحافی آصف شہزاد نے کہا کہ 32 منٹ کی فلم، جس کا عنوان "دہشت کا چہرہ" ہے، سویڈن میں سٹاک ہوم بین الاقوامی فلمی میلے کے جولائی کے ماہانہ ایوارڈ کے لیے فائنلسٹ تھی۔
آصف کا کہنا تھا کہ میلے میں دنیا بھر کے صحافیوں اور مختصر فلم سازوں کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویزی فلموں کو منتخب کیا جاتا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی فلم پاکستان سے منتخب کردہ واحد فلم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہانہ مقابلوں کے فاتحین کو نومبر میں منعقد ہونے والی ایک آن لائن تقریب میں اعزاز سے نوازا جائے گا، جب میلے کا انعقاد ہو گا۔
آصف کی فلم میں پاکستان میں عسکریت پسندی کے اثر کو پلک جھپکائے بغیر دیکھا جائے گا۔
جبکہ فوجی آپریشنوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک دہائی طویل لہر کو زیادہ تر ختم کر دیا ہے، ملک اور اس کے شہریوں نے اس کی بھاری قیمت چکائی ہے۔
سنہ 2018-2016 کے درمیان، ملک بھر میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں 60،000 سے زائد عام شہری اور 5،000 عسکری اہلکار جاں بحق ہوئے تھے، جبکہ ہزاروں دیگر زخمی اور بے گھر ہوئے تھے۔
حکومتی اندازوں کے مطابق، دہشت گردی کی وجہ سے ملک کو 120 بلین ڈالر (20 ٹریلین روپے) سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
دہشت گردی کے خوف پر قابو پانا
آصف کا کہنا تھا کہ اپنی فلم میں، انہوں نے ان مشکلات پر توجہ مرکوز کی ہے جو پاکستانیوں نے بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے تناظر میں سہی ہیں، نیز ان کی لچکداری پر بھی دھیان دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، "دہشت گردی کی تباہ کاریوں کو نمایاں کرنے کے علاوہ، میں نے دنیا کو ایسے مشکل وقت کا سامنا کرنے میں اپنے ہم وطنوں کی اندرونی طاقت دکھانے کی کوشش کی ہے۔"
انہوں نے کہا، "میں نے پشاور میں اُس کمپیکٹ ڈسک میوزک مارکیٹ کے ایک چوکیدار کا انٹرویو کیا جسے اُن دہشت گردوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا جنہوں نے ستمبر 2011 میں ایک دیسی ساختہ بم نصب کیا تھا۔"
دھماکے میں چوکیدار، بشیر احمد، دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گیا تھا۔
فلم متاثرہ شخص کی اپنی صورتحال سے بھرپور استفادہ کرنے کی لچک اور قوتِ برداشت دکھاتی ہے۔ احمد اپنی وہیل چیئر پر راہگیروں کا سامان یا خریداری کردہ اشیاء اٹھا کر لے جاتا ہے، جو اس کے کنبے کے لیے روزی روٹی مہیا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
ڈائریکٹر ایک ایسے خاندان کو بھی سامنے لاتا ہے جو پشاور میں ایک چرچ میں ہونے والے تباہ کن خود کش بم دھماکے میں آٹھ افراد سے محروم ہو گیا تھا۔
اس کا تبصرہ تھا کہ ایک بزرگ شخص اور اس کا پوتا جو دھماکے میں زندہ بچ گئے تھے دونوں دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کی جانب سے ان کی زندگیوں میں گھولی گئی تلخی پر قابو پانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
اسی طرح، دستاویزی فلم میں ایک والد جس نے سنہ 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عاممیں اپنا بیٹا کھویا تھا، اس کے جذبات شامل ہیں۔
'دنیا کو ایک پیغام دینا'
آصف نے کہا کہ دستاویزی فلم دنیا کو دہشت گردوں کی اس سفاکی کی یاد دلائے گی جس کا پاکستانیوں نے سامنا کیا ہے۔
اس کی ویب سائٹ کے مطابق، سٹاک ہوم بین الاقوامی فلمی میلہ سنہ 1990 میں شروع ہوا تھا اور نارڈک خطے میں سب سے بڑی ثقافتی تقریبات میں سے ایک ہے۔
نومبر میں، میلہ 60 سے زائد ممالک سے 150 فلم پریمیئرز پیش کرے گا۔
پشاور پریس کلب کے صدر، سید بخار شاہ نے کہا، "یہ پشاور کی صحافی برادری کے لیے فخر کی بات ہے کہ اس کے ارکان میں سے ایک رکن کی جانب سے دستاویزی فلم کو بین الاقوامی مقابلے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔"
شاہ نے مزید کہا، "یہ انتخاب ناصرف خطے کے عملی صحافیوں میں حوصلہ افزائی اور محنت کی ایک نئی روح پھونکے گا۔ یہ پاکستان کے عوام کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کو بھی اجاگر کرے گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ دستاویزی فلم عالمی برادری کو بتائے گی کہ پاکستانی ابھی تک دہشت گردی کے اثر سے شکستہ ہیں اور انتہاپسندوں کی جانب سے کی گئی تباہی سے نکلنے کی روزمرہ کی جدوجہد کا سامنا کرتے ہیں۔
ایک امن کے فعالیت پسند اور پاکستان میں قیامِ امن کی مہمات کی حوصلہ افزائی کرنے اور پرتشدد انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے میں مشغول ایک غیر سرکاری تنظیم، پیمان ٹرسٹ کے انتظامی ڈائریکٹر، پشاور کے مسرت قدیم نے کہا، "یہ حوصلہ افزاء بات ہے کہ میلے نے ابھی تک دہشت گردی کی تباہ کاریوں کو بھگت رہی پاکستانی قوم کی مشکلات کو نمایاں کرنے والی دستاویزی فلم کو منتخب کیا ہے۔ اگر اس کی نمائش ہوتی ہے، تو یہ دنیا کو پیغام پہنچائے گی۔"
انتہاپسندی سے لڑ رہی ایک تنظیم، یوتھ اینٹی ٹیررازم آرگنائزیشن کے چیئرمین، پشاور کے محمد آصف نے اتفاق کیا کہ ایک عالمی پلیٹ فارم معاشرے پر دہشت گردی کے تباہ کن اثر کے اظہار کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
ان کا کہنا تھا، "دہشت گردی کی وجہ سے ہونے والی تباہی و بربادی دنیا کو دکھائی جانی چاہیئے تاکہ لوگ اس کے نتائج کو سمجھ سکیں، اور نوجوانوں کو پھسل کر انتہاپسند عناصر کے ہاتھوں میں جانے سے روک سکیں۔"