دہشتگردی

ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان کی جانب سے بلاول کو نشانہ بنانے کی دھمکیوں پر سیاستدانوں کی سرزنش

اشفاق یوسف زئی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری 26 جون کو قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ [قومی اسمبلی]

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری 26 جون کو قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ [قومی اسمبلی]

اسلام آباد -- طالبان کے سابقہ ترجمان کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کو دی جانے والی قتل کی دھمکیوں کی سیاسی میدان کے تمام راہنماؤں کی طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔

یہ دھمکیاں جن کا نشانہ بلاول کو بنایا گیا ہے، جو کہ سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بیٹے ہیں، جنہیں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے 2007 میں راولپنڈی میں قتل کر دیا تھا، ان کی پارٹی کی طرف سے 26 جون کو قومی اسمبلی میں ان کی تقریر میں کیے جانے والے تبصرے کا خلاصے پر مبنی ایک ٹوئٹ کے بعد دی گئی ہیں۔

اس تقریر میں، بلاول نے وزیراعظم عمران خان کو اس تبصرے پر تنقید کا نشانہ بنایا جو انہوں نے ایک دن پہلے قومی اسمبلی میں کیا تھا جہاں انہوں نے کہا تھا کہ القاعدہ کے دہشت گرد گروہ کے مرحوم راہنما اسامہ بن لادن کو امریکہ کی خصوصی فورسز نے 2011 میں ایبٹ آباد میں "شہید" کر دیا تھا۔

ٹوئٹر کی پوسٹ میں 2014 میں پشاور میں اسکول کے بچوں اور اساتذہ کے دہشت گردوں کی طرف سے قتلِ عام اور 2002 میں کراچی میں امریکہ کے صحافی کے سرقلم کرنے کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ "وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اسامہ بن لادن کو قومی اسمبلی میں شہید قرار دینا ان کی طرف سے متشدد انتہاپسندی کی تاریخی طور پر حمایت کرنے سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ ان کے دورِ حکومت میں ہوا کہ اے پی ایس (آرمی پبلک اسکول) کے حملے میں ملوث افراد فرار ہو گئے ہیں جو ڈینیل پرل کے قتل میں ملوث تھے انہیں آزادی ملی۔ چور سے کہے چوری کر اور شاہ سے کہے ہوشیار رہ"۔

وزیراعظم عمران خان 25 جون کو قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ [قومی اسمبلی]

وزیراعظم عمران خان 25 جون کو قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں۔ [قومی اسمبلی]

احسان اللہ احسان (درمیان میں) کو اس نامعلوم تاریخ کی تصویر میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابقہ سربراہ حکیم اللہ محسود (دائیں) اور خالد بلتی المعروف محمد خراسانی جنہوں نے احسان کے بعد عسکریت پسندوں کے ترجمان کا عہدہ سنبھالا ہے، کو دکھایا گیا ہے۔ [بہ شکریہ محمد آحل]

احسان اللہ احسان (درمیان میں) کو اس نامعلوم تاریخ کی تصویر میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابقہ سربراہ حکیم اللہ محسود (دائیں) اور خالد بلتی المعروف محمد خراسانی جنہوں نے احسان کے بعد عسکریت پسندوں کے ترجمان کا عہدہ سنبھالا ہے، کو دکھایا گیا ہے۔ [بہ شکریہ محمد آحل]

بلاول نے کہا کہ اسی کے ساتھ وہ بن لادن کو شہید کہتے ہیں مگر خان بے نظیر بھٹو کو ایسا نہیں کہتے ہیں۔

ان کے اس بیان کے بعد، ٹی ٹی پی کے سابقہ ترجمان احسان اللہ احسان نے بلاول بھٹو کو متنبہ کیا کہ ان کا بھی وہی انجام ہو سکتا ہے جو ان کی والدہ کا ہوا تھا۔

احسان نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "اسلام پسندوں نے اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے قربانیاں دی ہیں اور آپ کی والدہ، والد اور آپ جیسے لوگوں نے اپنی بادشاہت کے لیے صرف اس ملک کو لوٹا ہے"۔

'امن ہر قیمت پر قائم رکھا جائے گا'

پی پی پی کی ترجمان نفیسہ شاہ نے کہا کہ پاکستانی عوام بلاول کے ساتھ ہیں اور وہ ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ "نہ تو پی پی پی اور نہ ہی پاکستان کے عوام دہشت گردوں سے خوف زدہ ہیں اور قوم انتہاپسندوں کے خلاف بلاول اور دیگر راہنماؤں کی حفاظت کرے گی"۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کی واپسی کی اجازت نہیں دے گا جنہیں شکست دے دی گئی ہے۔

شاہ نے کہا کہ "ہماری راہنما بے نظیر بھٹو۔۔۔ پہاڑ کی طرح کھڑی رہیں اور انہوں نے دہشت گردوں کے آگے سر نہیں جھکایا"۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے راہ نما اور پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد خان نے احسان کی دھمکیوں کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے دن گنے جا چکے ہیں اور وہ بلاول کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ "بلاول ایک قومی راہنما ہیں اور انہیں عوامی حمایت حاصل ہے جب کہ طالبان کے عسکریت پسند لوگوں سے زبردستی اطاعت کرواتے تھے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں اور ہر قسم اور رنگ کے دہشت گردوں کی مذمت کرتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں، اپنے نظریاتی اختلافات سے قطعہ نظر، دہشت گردوں کے خلاف متحد کھڑی ہیں"۔

خان نے کہا کہ "کسی سیاسی جماعت کے راہنما کو دھمکیاں دینا ساری قوم کو دھمکی دینے کے برابر ہے اور ہم جمہوری راہنماؤں پر حملہ کرنے والوں کی کبھی بھی حمایت نہیں کریں گے"۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت اسے نہایت سنجیدگی سے لے گی اور بلاول اور دیگر سیاسی راہنماؤں کی حفاظت کرے گی۔ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70,000 جانوں کی قربانی دی ہے اور اب امن کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے گا"۔

پاکستان مسلم لیگ- نواز (پی ایم ایل-این) کے ایک راہنما خواجہ آصف نے کہا کہ احسان، جو فروری میں سرکاری تحویل سے فرار ہو گئے تھے، ایک دہشت گرد ہیں جن کا مقصد دہشت گردوں کو خوف زدہ کرنا ہے مگر انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستانی شہری ہر قسم کی دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ "کالعدم ٹی ٹی پی ماضی کی ایک داستان بن چکی ہے تو ایسے بیانات کا مقصد لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ وہ ابھی بھی زندہ ہیں۔ مگر طالبان کے عسکریت پسند دہشت گردی کے کاموں کے ذریعے لوگوں کو غلام بنانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے"۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین جو 2010 میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی فائرنگ کے باعث اپنے بیٹے سے محروم ہو گئے تھے نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی بہادری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ "انہوں نے اس بات کی مثال قائم کی کہ دہشت گردوں کے خلاف بلا خوف کیسے کام کیا جاتا ہے اور آج لوگ ان کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ ان کے پیروکاروں میں سے اکثریت نے اس ملک میں دہشت گردی سے جنگ کرنے کے لیے قربانیاں دی ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں امن ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500