احتجاج

ایران میں تازہ احتجاج حکومت پر بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کا عکاس ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ٹیلی گرام پر 20 جولائی کو لگائی جانی والی تصویر میں سوسا میں ایرانی کارکنوں کو ہڑتال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

ٹیلی گرام پر 20 جولائی کو لگائی جانی والی تصویر میں سوسا میں ایرانی کارکنوں کو ہڑتال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

تہران -- جیسے جیسے حکومت کے ساتھ شہریوں کے عدم اطمینان میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی اقتصادی صورتِ حال مسلسل تنزلی کی طرف بڑھ رہی ہے ایران کے مختلف حصوں میں مظاہروں کے ابھر آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

ایرانی پولیس نے پیر (20 جولائی) کو کہا کہ انہوں نے ملک کے جنوب مغربی حصے میں گزشتہ ہفتے ہونے والے مظاہروں کے ذمہ دار افراد کو گرفتار کر لیا جبکہ ایران کی سپاہِ پاسدرانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) نے کہا ہے کہ انہوں نے ایسے بہت سے "فسادیوں" کو گرفتار کر لیا ہے جو مشہد میں سڑکوں پر مظاہرے کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔

ایرانی پولیس نے جمعہ (17 جولائی) کو کہا کہ انہوں نے خوزستان صوبہ میں اقتصادی مشکلات کے خلاف "خلافِ معمول" نعرے لگانے والے ہجوم کی طرف سے کیے جانے والے مظاہرے کو زبردستی منتشر کیا۔

سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کی طرف سے بہبہان پولیس کے سربراہ کرنل محمد عزیزی کے بیان سے اقتباس کے مطابق، انہوں نے کہا کہ "ایک بُلاوے پر عمل کرتے ہوئے، بہبہان شہر کے شہریوں کی قلیل تعداد جمعرات (16 جولائی) کو شام 9 بجے اکٹھی ہو گئی تاکہ وہ اقتصادی حالات پر احتجاج کر سکے"۔

تہران میں امیر کبیر یونیورسٹی کے باہر 11 جنوری کو ایک ایرانی شخص، مظاہرے کے دوران بلوہ پولیس سے محاذ آرائی کر رہا ہے۔ [اے ایف پی]

تہران میں امیر کبیر یونیورسٹی کے باہر 11 جنوری کو ایک ایرانی شخص، مظاہرے کے دوران بلوہ پولیس سے محاذ آرائی کر رہا ہے۔ [اے ایف پی]

انہوں نے کہا کہ پولیس نے پہلے ہجوم سے بات چیت کرنے کی کوشش کی "مگر وہ نہ صرف منتشر نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے خلافِ معمول نعرے لگانے شروع کر دیے"، یہ اصطلاح عمومی طور پر نظام کے خلاف نعروں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

انہوں نے ایرانی شہریوں پر زور دیا کہ وہ "نظام کے دشمنوں سے متاثر نہ ہوں" جن کا مقصد "موجودہ نازک حالات میں لوگوں کو مشتعل کرنا ہے"۔

سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں ایسی تصاویر اور ویڈیو نظر آتی ہیں جن میں درجنوں مظاہرین کو بظاہر بہبہان کی سڑکوں پر جمع ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔

نیٹ بلاکس جو کہ بندشوں کی نگرانی کرنے والی ویب سائٹ ہے، نے کہا کہ انٹرنیٹ کی رسائی کو خوزستان میں مظاہروں کے وقت پر تین گھنٹوں کے لیے محدود کر دیا گیا تھا اور اس میں خلل ڈالا گیا تھا۔

ایرانی شہریوں کی تشویش کو نظر انداز کرنا

یہ مظاہرے ایران کی طرف سے گزشتہ نومبر میں ہونے والے ہلاکت خیز مظاہروںجو کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے باعث شروع ہوئے تھے، سے تعلق رکھنے والے تین افراد کی سزائے موت کو قائم رکھنے کے چند دنوں کے بعد ہوئے ہیں۔

تاہم، اتوار (19 جولائی) کو حکومت نے عوام کے دباؤ کے سامنے سر جھکا دیا اور پھانسیوں کو عارضی طور پر روک دیا۔

اس سزاء کو سنائے جانے کے بعد سے، ملک میں پھانسیوں کو روکنے کے لیے، آن لائن کئی مطالبے سامنے آئے ہیں جن کے لیے "پھانسی نہ دو" کا ہیش ٹیگ استعمال کیا گیا ہے۔

نومبر میں اس وقت مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جب حکام نے ایندھن کی قیمتوں کو دوگنا سے زیادہ کر دیا تھا جس سے پہلے ہی ایک ایسے ملک میں جو کہ پابندیوں کے باعث مصائب کا شکار ہے، معاشی مشکلات میں مزید اصافہ ہو گیا تھا۔

ان مظاہروں نے کئی شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ایران بھر میں 100 سے زیادہ شہری مراکز میں پھیلنے سے پہلے یہ متشدد شکل اختیار کر گئے تھے۔

انتہائی زیادہ غیر مطمئین ہوتی ہوئی آبادی اور زبردست تنزلی کی شکار معیشت کا سامنا کرنے والے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے، 2012 کے بعد سے پہلی بار جنوری میں تہران میں ایک خطبہ دیا تاکہ بدامنی کو کم کیا جا سکے۔

اس سے چند دن پہلے، ہزاروں ایرانی شہری احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور وہ "آمر کے لیے موت" -- جو کہ خامنہ ای کی طرف اشارہ ہے-- "جھوٹوں کے لیے موت" اور دیگر حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے۔

ایرانی شہریوں کو درپیش بنیادی مسائل کے بارے میں بات کرنے کی بجائے، خامنہ ای نے کئی بار اپنی تقریر کا رخ 3 جنوری کو آئی آر جی سی کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد میں ہلاکت کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔

خامنہ ای کی طرف سے دوبارہ حمایت حاصل کرنے کی کوششوں نے بہت سے ایرانی شہریوں کو مزید اشتعال دلایا۔

سکڑتی معیشت اور بڑھتی بدامنی

بہت سے ایرانی شہریوں کا کہنا ہے کہ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے حکومت، علاقے میں پراکسی جنگوں کی مدد کرنے کا انتخاب کر کے، خصوصی طور پر شام، عراق اور یمن میں--- اپنے لوگوں کے اقتصادی مسائل میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔

ایران کی معیشت 2018 کے بعد سے قابلِ قدر حد تک سکڑ گئی ہے جب امریکہ تاریخی نیوکلیائی معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا تھا اور اس نے ایران پر دوبارہ سے پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

کووڈ -19 کرونا وائرس کی عالمگیر وباءنے ایران کی معاشی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ عارضی طور پر کیے جانے والے شٹ ڈاؤن کے باعث برآمدات میں کمی آئی ہے جس کا نتیجہ کرنسی کی قدر میں زبردست کمی اور مہنگائی میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے۔

صدر حسن روحانی نے ہفتہ (18 جولائی) کو کہا کہ پینتیس ملین ایرانی شہری کرونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پیش گوئی کی ہے کہ ایرانی معیشت اس سال 6 فیصد تک سکڑ جائے گی۔

تہران کے میئر پرویز ہناچی نے 7 جولائی کو اے ایف پی کو بتایا کہ حالیہ انتخابات میں ووٹروں کا کم ٹرن آوٹ ملک میں ایک وسیع تر اضطراب کی عکاسی کرتا ہے جو کہ پہلے ہی طویل عرصے سے معاشی مصائب کے سامنے جھک رہا تھا اور حال ہی میں کووڈ -19 کی عالمگیر وباء سے انتہائی زیادہ متاثر ہوا ہے جو کہ "ہر کسی کے لیے ایک خطرہ" ہے۔

انہوں نے کہا کہ "انتخابات میں ٹرن آوٹ لوگوں کے اطمینان کی سطح کی عکاسی کرتا ہے"۔

انتخابات میں ٹرن آوٹ تاریخی حد تک کم تھا اور فروری میں ہونے والے انتخابات میں صرف 43 فیصد ووٹ دہندگان نے ووٹ ڈالا کیونکہ ہزاروں اصلاح پسند امیدواروں کو اسلامی جمہوریہ کی طاقتور نگران کونسل نے انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔

ہناچی نے متنبہ کیا کہ ووٹ دہندگان کی ایسی تھکن "صرف اصلاح پسندوں یا قدامت پسندوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر کسی کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500