دہشتگردی

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے کے پی پولیس کی نئی تحقیقی شاخ

جاوید خان

2 جولائی کو ایک پولیس اہلکار پشاور میں متعدد سانحات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کر رہا ہے۔ کے پی پولیس نے تحقیق و تجزیہ کے لیے سنٹرل پولیس آفس میں ایک خصوصی نظامت تشکیل دی ہے۔ [جاوید خان]

2 جولائی کو ایک پولیس اہلکار پشاور میں متعدد سانحات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کر رہا ہے۔ کے پی پولیس نے تحقیق و تجزیہ کے لیے سنٹرل پولیس آفس میں ایک خصوصی نظامت تشکیل دی ہے۔ [جاوید خان]

پشاور – خیبر پختونخوا (کے پی) پولیس نے ایک نیا شعبہ قائم کیا ہے جودہشتگردی، نفاذِ قانون کے اہلکاروں کی ٹارگٹڈ کلنگ اور دیگر جرائم کی انسداد کے لیے حکمت ہائے عملی تشکیل دینےپر مرتکز ہو گا۔

کے پی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی پی) ثنا اللہ عباسی نے جون میں کہا کہ "سنٹرل پولیس آفس (سی پی او) میں نظامتِ تحقیق و تجزیہ قائم کی گئی ہے [اور] یہ صوبے بھر میں کام کرے گی۔" یہ دفتر مارچ کے اوائل میں تشکیل دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ شعبہ بطورِ خاص نو انضمام شدہ قبائلی اضلاع میں دہشتگردی اور دیگر جرائم کے واقعات کے ساتھ ساتھ صوبے میں پولیس کے کام اور فلاح میں بہتری لانے کے طریقوں پر تحقیق و تجزیہ کرنے میں اپنی طرز کا پہلا شعبہ ہے۔

عباسی نے کہا، "پہلی مرتبہ کے پی پولیس کے ہیڈکوارٹرز میں ایک مرکزی نظامتِ تحقیق تشکیل دی گئی ہے۔" انہوں نے مزید کہا قبل ازاں سی پی او کی تین غیر مرکزی شاخیں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ نیا دفتر دو اہم امور پر تحقیق کر رہا ہے۔ "یہ نظامت کے پی میں ٹارگٹڈ کلنگ کی بیخ کنی اور پولیو ویکسینیشن ٹیموں کے تحفظ کے لیےپولیس سیکیورٹی کی تجدید کے طریقوںپر کام کر رہی ہے۔"

عباسی کے مطابق، تحقیق و تجزیہ کی یہ نئی نظامت پولیس کے فلاحی نظام، عوام کے ساتھ پولیس اہلکاروں کے رویہ، تھانوں کی سطح پر استعداد میں اضافہ اور پولیسنگ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں بہتری کے لیے اقدامات تجویز کرے گی اور اس پر تحقیق کرے گی۔

اس نئے دفتر کے ڈائریکٹر وقار احمد کے مطابق، مزید برآں، یہ محکمہ تحقیق کر رہا ہے کہ کروناوائرس کی وبا کے دوران پولیسنگ کو کیسے بہتر بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس کام میں تھانوں کا تحفظ، مخصوص علاقوں کے اختیاری اور جبری لاک ڈاؤن اور معاشرتی فاصلے کے لیے عمومی طریق ہائے کار فراہم کرنا شامل ہیں۔

پولیسنگ میں بہتری

یہ نیا دفتر سی پی او میں اپنے تین غیر مرکزی پیش روؤں، محکمہٴ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی)، ریسرچ سپیشل برانچ اور ریسرچ اینڈ انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کا کام اکٹھا کرے گا۔

سپرانٹنڈنٹ پولیس سی ٹی ڈی وقار خان نے کہا، "سی ٹی ڈی میں یہ نظامتِ تحقیق اب مکمل طور پر کے پی میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات پر کام کر [سکتی ہے] اور وہ ان حملوں کی مؤثر طور پر انسداد اور عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے پر مرکوز رہ سکتے ہیں۔"

ضلع اورکزئی سے جامعہ کے ایک طالبِ علم عبد الحکیم اورکزئی نے کہا، "سابقہ فاٹا [وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات] میں ایک پولیس نظام متعارف کرنے کے طریقوں پر ایک باقاعدہ تحقیق اور مطالعہ کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ نو انضمام شدہ اضلاع میں پولیس نظام کی توسیع کا خیرمقدم کرتے ہیں، متعدد ایسے چیلنجز ہیں جن کے مطالعہ اور مناسب طور پرنمٹنے کی ضرورت ہے۔

اورکزئی نے کہا ، "نظامتِ تحقیق اس امر سے متعلق تحقیق کر سکتی ہے کہ سابقہ فاٹا میں پولیس فورس کے روانی سے کام کرنے میں کون سے عناصر رکاوٹ ہیں، جہاں باشندوں کی اکثریت ایسا ہی پولیس نظام چاہتی ہے جیسا کہ ملک کے دیگر حصوں میں ہے۔"

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی قیصر خان نے کہا، "دیگر صوبوں میں پولیس فورسز کے پاس تحقیق کے لیے جدید اور موٴثر نظامتیں ہیں اور اب کے پی کے پاس بھی ہے، جو اس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنا سکتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یہ تحقیقی شاخ عمومی جرائم، عصمت دری، اور بچوں سے زیادتی کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ اس امر کو معلوم کرنے میں بھی مددگار ہو گی کہ کے پی میں دہشتگردی کے واقعات کی کیسے انسداد کی جائے۔

خان نے کہا، "جرائم اور ان میں ملوث افراد کے اعداد و شمار جمع کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو دہشتگردی اور جرائم پیشہ افراد سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کر کے ہم کے پی میں امنِ عامہ کی صورتِ حال میں بہتری لانے میں مدد کر سکتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500