سلامتی

کھوکھلے وعدے: طالبان کی طرف سے القاعدہ سے قطع تعلق سے انکار امن کے لیے عزم نہ رکھنے کا عکاس ہے

پاکستان فارورڈ

ایک افغان شہری 3 مئی 2011 کو کابل میں اخبار پڑھ رہا ہے۔ اس میں القاعدہ کے راہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تفصیلات ہیں۔ [مسعود حسینی/ اے ایف پی]

ایک افغان شہری 3 مئی 2011 کو کابل میں اخبار پڑھ رہا ہے۔ اس میں القاعدہ کے راہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تفصیلات ہیں۔ [مسعود حسینی/ اے ایف پی]

کابل -- طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کاروں کے درمیان امن معاہدے، جس کا مقصد بین- افغان مزاکرات کی راہ ہموار کرنے ہے، کا ایک جزوِ خاص اس بات کا متقاضی ہے کہ طالبان تمام دہشت گرد گروہوں سے قطع تعلق کر لیں۔

اگرچہ 29 فروری کو دستخط کیے جانے والے معاہدے کے کچھ معاملات میں پیش رفت ہوئی ہے -- جو کہ زیادہ تر امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلاء اور قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہے -- طالبان نے القاعدہ کی مذمت کرنے سے انکار کیا ہے۔

ہرات صوبہ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ نگار محمد رفیق شہیر نے کہا کہ "طالبان کا القاعدہ سے تعلق بہت مضبوط، طویل اور گہری جڑیں رکھنے والا ہے اور اسے توڑنا اتنا آسان نہیں ہو گا"۔

انہوں نے کہا کہ "2001 میں، جب امریکہ نے طالبان سے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کے لیے کہا تھا تو طالبان کی قیادت نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ تعلقات ہمیشہ کی طرح ابھی بھی انتہائی گہرے ہیں"۔

طالبان کے راہنما امریکہ کے خلاف 11 ستمبر 2001 کو کیے جانے والے حملوں میں القاعدہ کے کردار سے انکار جاری رکھے ہوئے ہیں اگرچہ کہ اس دہشت گرد گروہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس نے یہ حملے طالبان کے کنٹرول میں موجود علاقے سے کیے تھے۔ [فائل]

طالبان کے راہنما امریکہ کے خلاف 11 ستمبر 2001 کو کیے جانے والے حملوں میں القاعدہ کے کردار سے انکار جاری رکھے ہوئے ہیں اگرچہ کہ اس دہشت گرد گروہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس نے یہ حملے طالبان کے کنٹرول میں موجود علاقے سے کیے تھے۔ [فائل]

عاصم عمر جو کہ برصغیر پاک و ہند (اے کیو آئی ایس) 2014 میں القاعدہ کے آغاز سے اس کی قیادت کر رہے تھے، گزشتہ ستمبر میں افغانستان کے صوبہ ہلمند کی موسی قلعہ ڈسٹرکٹ میں طالبان کے ایک احاطے پر مارے جانے والے چھاپے کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ [فائل]

عاصم عمر جو کہ برصغیر پاک و ہند (اے کیو آئی ایس) 2014 میں القاعدہ کے آغاز سے اس کی قیادت کر رہے تھے، گزشتہ ستمبر میں افغانستان کے صوبہ ہلمند کی موسی قلعہ ڈسٹرکٹ میں طالبان کے ایک احاطے پر مارے جانے والے چھاپے کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ [فائل]

طالبان کے راہنما 11 ستمبر 2001 کے امریکہ پر کیے جانے والے دہشت گرادنہ حملوں میں القاعدہ کے کردار سے انکار جاری رکھے ہوئے ہیں اگرچہ کہ اس دہشت گرد گروہ نے طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقے سے ان حملوں کو انجام دینے کا اعتراف کیا ہے۔

شہیر نے کہا کہ "طالبان یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کر لیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ القاعدہ کا نہ صرف طالبان کے مختلف گروہوں بلکہ عرب ممالک میں اثر و رسوخ ہے جہاں سے یہ بھاری رقم اکٹھی کرتے ہیں"۔

افغان حکومت کی طرف سے پوست کی کاشت پر کیے جانے والے کریک ڈاون، سیکورٹی فورسز کی طرف سے طالبان کی چوکیوں کے خاتمے اور شہریوں کی طرف سے عسکریت پسند گروہ کو غیر قانونی"ٹیکس" دینے سے انکار کے باعث، طالبان کے لیے سرمایے کے ذرائع میں کمی آ گئی ہے اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ مسقبل قریب میں القاعدہ سے قطع تعلق کر لیں گے۔

شہیر نے کہا کہ "القاعدہ طالبان کے مالی وسائل کی اکثریت کا فراہم کنندہ ہے"۔

طالبان سرمایے، ہتھیاروں اور تربیت کے لیے ایرن کی سپاہِ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) پر انحصار کرتے ہیں۔

طالبان، القاعدہ کے "پکے حامی"

اقوامِ متحدہ (یو این) کی سیکورٹی کونسل کو 27 مئی کو جمع کروائی جانے والی ایک رپورٹ میں طالبان کے القاعدہ سے گہرے اور جاری تعلقات کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "طالبان اور خصوصی طور پر حقانی نیٹ ورکاور القاعدہ کے درمیان تعلقات ابھی بھی قریبی ہیں جن کی بنیاد دوستی، متحدہ جدوجہد کی تاریخ، نظریاتی ہمدردیوں اور آپس میں شادیوں کی بنیاد پر ہے"۔

اس میں کہا گیا ہے کہ "امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران طالبان نے باقاعدگی سے القاعدہ سے مشورہ کیا اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنے تاریخی تعلقات کا احترام کرے گا"۔

اقوامِ متحدہ کے نگرانوں کے مطابق، شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان نے، اس دہشت گرد گروہ سے پیٹھ موڑ لینے کا وعدہ کرنے کے باوجود، القاعدہ کو اپنے زیرِ تحفظ مضبوط ہونے کے قابل بنایا"۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ "القاعدہ اور طالبان نے 2019 اور 2020 کے آغاز میں بہت سی میٹینگز کیں تاکہ آپریشنل منصوبہ بندی، تربیت اور القاعدہ کے ارکان کو افغانستان کے اندر پناہ گاہیں فراہم کرنے سے متعلقہ تعاون کے بارے میں بات چیت کی جا سکے"۔

اقوامِ متحدہ کے نگرانوں کے مطابق، القاعدہ افغانستان کے 12 صوبوں میں پوشیدہ طور پر سرگرم ہے اور یہ گروہ "400 سے 600 مسلح کارکنوں" پر مبنی ہے۔

کابل سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار محمد ابراہیم مسعون نے کہا کہ چونکہ طالبان اور القاعدہ کے نظریات ایک جیسے ہیں اس لیے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان کو القاعدہ سے الگ کرنے کا واحد راستہ، طالبان کے لیے اپنے نظریات کو تبدیل کر دینے کا ہے مگر جیسے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ طالبان کے نظریات اور رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور یہ گروہ ابھی بھی القاعدہ کا پکا حامی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "القاعدہ اور طالبان کے درمیان قریبی تعلقات کی ایک وجہ جو ہمیں معلوم ہے وہ یہ ہے کہ طالبان نے کبھی بھی کھلم کھلا القاعدہ پر تنقید نہیں کی ہے۔ طالبان نے امریکہ کے ساتھ اپنے معاہدے کی بنیاد پر، القاعدہ سے اپنے تعلقات منقطع کرنے کے لیے اپنے وعدے پورے نہیں کیے ہیں"۔

الفاظ نہیں اقدام

امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینیتھ میکینزی نے 18 جون کو کہا کہ طالبان "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے "دوست" نہیں ہیں مگر واشنگٹن کو اس بارے میں "الفاظ نہیں اقدام" کی ضرورت ہے کہ وہ القاعدہ کے خلاف کیا کریں گے۔

میکینزی نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں امریکی افوج کو کم کر کے تقریبا 8,600 کرنے سے معاہدے کی اپنی شرائط کی پاسداری کی ہے۔

انہوں نے اس بات کا انتباہ کرتے ہوئے کہ اگلے سال تک مکمل انخلاء کو پورا کرنے سے پہلے ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، کہا کہ مگر یہ ایک "شرائط پر منحصر طریقہ کار" ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں جو دیکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وہ القاعدہ کے خلاف کیا کر رہے ہیں"۔

صدر اشرف غنی نے عسکریت پسندوں اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والے معاہدے میں اتفاق کردہ، طالبان کے قیدیوں کی مکمل رہائی کو پورا کرنے کا عہد کیا۔

افغان حکام نے تقریبا 3,000 طالبان قیدیوں کو پہلے ہی آزاد کر دیا ہے اور وہ مزید 2,000 کو رہا کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں جو کہ بین-افغان مزاکرت کے شروع ہونے کے معاہدے میں ایک شرط ہے۔

طالبان نے 19 جون کو کہا کہ وہ فروری میں ہونے والے معاہدے کے بارے میں پرعزم ہے "خصوصی طور پر امریکہ اور مغرب کو افغانستان سے اپنے خلاف ہونے والے ایک خطرے کے بارے میں تشویش" پر۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ہمارے ملک کو کسی کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ انہیں تشویش نہیں ہونی چاہیے"۔

جاری تشدد

افغان حکام اور سیکورٹی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد، طالبان کی طرف سے تشدد میں اضافہ گروہ کی طرف سے کیے جانے والے خالی وعدوں کی ایک مثال ہے۔

مقامی پولیس کے جنرل ڈائرکٹوریٹ کے سابقہ ڈپٹی ڈائریکٹر اور کابل سے تعلق رکھنے والے عسکری امور کے تجزیہ نگار جرنل (ریٹائرڈ) سکندر اصغری نے کہا کہ "شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے جانے کے باجود، طالبان کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات اتنے ہی مستحکم ہیں جتنے کہ وہ اس سے پہلے کے سالوں میں تھے"۔

انہوں نے کہا کہ طالبان امن معاہدے کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے علاقائی حامیوں کی مدد سے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیں"۔

کابل کے ولسی جرگہ کے سابقہ رکن داود کالکانی نے کہا کہ "القاعدہ سے تعلقات قائم رکھنا اس بات کی عکاسی ہے کہ طالبان کسی بھی ایسے معاہدے سے وفادار نہیں ہیں جو افغانستان میں امن اور استحکام کی طرف لے جائے"۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان طارق آرائیں نے 14جون کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ "گزشتہ ہفتے میں، طالبان نے افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف 222 حملے کیے جس کا نتیجہ 422 اہلکاروں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کی صورت میں نکلا"۔

انہوں نے طالبان پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ افغان حکومت پر "نفسیاتی دباؤ" ڈالنے کے لیے مذہبی عالموں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

آرائیں نے عسکریت پسندوں پر "دوسرے دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے ایک امبریلا گروپ" کے طور پر کام کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس ماہ کابل کی مسجدوں میں ہونے والے دھماکے جن میں دو امام ہلاک ہو گئے تھے، شورش پسندوں کا کام تھا۔

نیشنل سیکورٹی کونسل نے 22 جون کو کہا کہ طالبان نے گزشتہ ہفتے کے دوران افغان سیکورٹی کے عملے کے کم از کم 291 ارکان کو ہلاک کر دیا ہے اور اسے 19 سالہ تنازعہ میں سب سے ہلاکت انگیز ہفتہ قرار دیا۔

غنی نے 22 جون کو کابینہ کو بتایا کہ طالبان کی طرف سے شروع کیا جانے والا تشدد "امن کے لیے عزم کے جذبے کے خلاف" ہے۔

[ہرات سے عمر نے اس خبر کی تیاری میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500