حقوقِ انسانی

تہران کی وائرس سے نمٹنے میں غلط اقدامات سے ایران میں پاکستانی قیدیوں کی صحت پر تشویش

از ضیاء الرحمان

18 مارچ کو چہرے پر ماسک پہنے ایک سپاہی پہرہ دے رہا ہے جبکہ بسیں ایران سے بذریعہ پاکستان-ایران سرحد پر واقع شہر تفتان سے زائرین کو لا رہی ہیں۔ [شاہد علی / اے ایف پی]

18 مارچ کو چہرے پر ماسک پہنے ایک سپاہی پہرہ دے رہا ہے جبکہ بسیں ایران سے بذریعہ پاکستان-ایران سرحد پر واقع شہر تفتان سے زائرین کو لا رہی ہیں۔ [شاہد علی / اے ایف پی]

اسلام آباد -- انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی بے قابو وباء کے متعلق درست معلومات فراہم کرنے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے ایران میں پاکستانی قیدیوں کی سلامتی اور صحت پر تشویشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

لاہور کے مقامی ایک انسانی حقوق کے گروپ، جسٹس پراجیکٹ پاکستان (جے پی پی)، نے 22 جون کو ایک بیان میں ایرانی جیلوں میں قید "غیر معروف پاکستانی قیدیوں" کی سلامتی پر شدید تشویشوں کا اظہار کیا اور حکومت سے انہیں فوری طور پر واپس لانے کا مطالبہ کیا۔

ایران سے لیک ہونے والی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے، جے پی پی نے کہا کہ ایرانی جیلوں میں 355 سے زائد قیدیوں میں کووڈ-19 کے لیے مثبت ہونے کی تشخیص ہوئی ہے جس میں کم از کم 18 اموات بھی ہوئی ہیں۔

پچھلے ہفتے پاکستانی خارجہ وزارت کی ترجمان عائشہ فاروقی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کی جیلوں میں 134 پاکستانی قیدی ہیں۔

حفاظتی لباس پہنے محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 3 جون کو پشاور میں کووڈ-19 کے لیے چھان بین اور جانچ کے ایک مرکز پر ایک شخص سے نمونہ لے رہا ہے۔ [شہباز بٹ]

حفاظتی لباس پہنے محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 3 جون کو پشاور میں کووڈ-19 کے لیے چھان بین اور جانچ کے ایک مرکز پر ایک شخص سے نمونہ لے رہا ہے۔ [شہباز بٹ]

22 جون کے بیان میں جے پی پی نے زور دیا کہ درست تعداد 189 ہے۔

فاروقی نے کہا کہ پاکستانی حکام نے ایرانی حکومت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے کہ پاکستانی قیدیوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے، ان کا مزید کہنا تھا کہ تہران میں پاکستانی سفارت خانہ ان قیدیوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ حکام کے ساتھ مستقل رابطے میں ہے۔

فاروقی کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق، کسی بھی پاکستانی قیدی میں کووڈ-19 کے لیے مثبت ہونے کی تشخیص نہیں ہوئی ہے۔

البتہ، حقوق کے آزاد گروپ اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ میں موجود ذرائع نے کہا کہ ایرانی حکومت پاکستانی قیدیوں کے متعلق بہت کم معلومات فراہم کرتی ہے اور یہ کہ ان کی تعداد معلوم سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

جے پی پی کا کہنا تھا، "کووڈ-19 کی عالمی وباء میں ایرانی جیلوں میں رہائی کے منتظر 189 پاکستانی قیدیوں کی صحت اور سلامتی کے متعلق بہت کم معلومات ہیں۔"

معلومات کو دبا لینا

پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اتفاق کیا کہ ایرانی جیلوں میں صحت کی صورتحال کی بالکل درست تصویر کشی کرنا مشکل ہے کیونکہ تہران معلومات فراہم کرنے سے جھجھکتا ہے۔

اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایرانی جیلوں میں 1،000 سے زائد پاکستانی قیدی ہو سکتے ہیں "کیونکہ ایران قیدیوں کے متعلق معلومات کو 'حساس' معلومات قرار دے کر دبا لیتا ہے۔"

انسانی حقوق کے پاکستانی گروپ شک و شبہے کا شکار ہیں کیونکہ تہران کی کورونا وائرس کی وباء کے متعلقشفافیت میں کمیکا پاکستان کے لیے نتیجہ پہلے ہی عوامی صحت کے شدید ترین خطرے کی صورت میں نکلا ہے۔

ایران سے تعلق رکھنے والے محکمۂ صحت کے اہلکاروں اور ڈاکٹروں کا حوالہ دیتے ہوئے، اپریل میں رائیٹرز نے خبر دی تھی کہ دسمبر کے آخر اور جنوری میں ایرانی حکام نے ڈاکٹروں کی جانب سے قم میں تیز بخار اور پھیپھڑوں کی انفیکشن والے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے انتباہ کو نظر انداز کر دیا تھا، اور بہت سے پاکستانی زائرین قم گئے تھے۔

ایرانی حکومت نے ملک کے اندر کورونا وائرس کی وباء کے متعلق ہزاروں زائرین کو درست معلومات بھی فراہم نہیں کی تھیں۔

پھر ایرانی حکام نے ہزاروں کو زائرین کو قم سے جبراً نکال دیا تھا، نیز مہلک کورونا وائرس سے متاثرہ پناہ گزینوں کو ملک بدر کر کے پاکستان بھیج دیا تھا۔

پاکستان میں کورونا وائرس کی تقریباً 80 فیصد انفیکشنز ایران سے ہوئی تھیںمارچ کے آخر میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خصوصی مشیر برائے صحت، ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا تھا.

وزارتِ خارجہ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ کووڈ-19 کی ممکنہ انفیکشنز کے علاوہ، ایرانی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کو اپنی صورتحال سے نمٹنے میں بھی دشواری ہو سکتی ہے، جس سے ان کے دماغی اور جسمانی صحت کے مسائل میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔

قیدیوں کی ہلاکت کی اطلاعات

اپنی طرف سے، ایرانی حکومت نے 19 جون کو کہا تھا کہ وہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔

جے پی پی نے کہا کہ اپریل 2019 میں جب عمران خان نے ایران کا دورہ کیا تھا تو دورے کے دوران انہوں نے پاکستانی قیدیوں کا معاملہ اٹھایا تھا، جس سے ان کی جلد واپسی کی کچھ امید پیدا ہوئی تھی۔

وزارتِ خارجہ کے اہلکار نے بتایا، تاہم ایران نے خان کی درخواست پر ایک بھی قیدی کو رہا نہیں کیا۔

وائرس سے شدید متاثرہ ایرانی جیلوں میں فسادات کے متعلق اطلاعات نے حقوق کے گروپ کی پاکستانی قیدیوں کی سلامتی کے متعلق تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔

19 اپریل کو اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی) نے کہا کہ کورونا وائرس سے حفاظت کی تشویشوں پر احتجاج کے دوران ایرانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کم از کم 36 قیدیوں کو ہلاک کیے جانے کا خطرہ ہے۔

ایک بیان میں اے آئی کی نائب ریجنل ڈائریکٹر، ڈیانا التہاوی نے کہا، "یہ انتہائی گھناؤنی حرکت ہے کہ کووڈ-19 سے بچائے جانے کے قیدیوں کے جائز مطالبات پر کان دھرنے کی بجائے، ایرانی حکام نے ایک بار پھر لوگوں کی آوازوں کو دبانے کے لیے انہیں جان سے مارنے میں پناہ ڈھونڈی ہے۔"

اپریل میں اقوامِ متحدہ نے ایران میں ایک نابالغ مجرم کی ہلاکت پر سخت غصے کا اظہار کیا تھا جب یہ اطلاع ملی تھی کہ کورونا وائرس کی عالمی وباء کی وجہ سے اپنی رہائی چاہنے والے قیدیوں کے احتجاج کے بعد پہرے داروں کی جانب سے انہیں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے ایک وکیل، کراچی کے شفق علی نے کہا کہ قیدیوں کی صحت کے متعلق اطلاعات پریشان کن ہیں اور پاکستانی حکومت کو چاہیئے کہ ایران پر قیدیوں کی واپسی کے لیے دباؤ ڈالے۔

علی نے کہا، "قیدی اور چھوت کی بیماری ایک مہلک جوڑ ہے، اور ایران سمیت بہت سے ممالک میں گندے اور زیادہ بھیڑ بھاڑ والے حالات کی وجہ سے، قیدی بڑی آسانی سے بری طرح متاثر ہو جاتے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ ایرانی جیلوں میں رہائی کے منتظر بیشتر غیر ملکی قیدیوں کی وکلاء، مترجمین یا ان ممالک کے سفارتی مشنوں کی جانب سے قونصلر کی مدد تک رسائی نہیں ہوتی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500