سفارتکاری

پاکستان کی ایرانی پشت پناہی کے حامل حوثیوں کے سعودی عرب پر حملے کی مذمت

از ضیاء الرحمان

13 جون 2019 کو سعودی فوج کے ساتھ زیرِ رہنمائی دورے کے دوران لی گئی ایک تصویر، جس میں ایک اہلکار کو سعودی عرب میں حوثیوں کے میزائل حملے جس میں 26 عام شہری زخمی ہوئے تھے، کے اگلے روز ابھا ہوائی اڈے پر نقصانات کا جائزہ لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [فائز نورالدین/ اے ایف پی]

13 جون 2019 کو سعودی فوج کے ساتھ زیرِ رہنمائی دورے کے دوران لی گئی ایک تصویر، جس میں ایک اہلکار کو سعودی عرب میں حوثیوں کے میزائل حملے جس میں 26 عام شہری زخمی ہوئے تھے، کے اگلے روز ابھا ہوائی اڈے پر نقصانات کا جائزہ لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [فائز نورالدین/ اے ایف پی]

اسلام آباد -- پاکستانی علمائے دین اور سیاستدان یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر حملوں کی مذمت کر رہے ہیں۔

ایرانی پشت پناہی کے حامل حوثی، جو خود کو انصاراللہ کہلواتے ہیں، نے 16 جون کو سعودی عرب کے سرحدی شہر خمیس مشیط میں ایک عسکری ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون بھیجنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

17 جون کو عرب اتحاد نے کہا کہ سعودی فوج نے دو ڈرون مار گرائے۔

یمن میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سے، حوثیوں نے سعودی عرب پر درجنوں میزائل داغے ہیں جن میں سے بیشتر کو سعودی فوج کی جانب سے مار گرایا گیا۔

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور جون 2019 میں لاہور میں ایک کانفرنس کے دوران پاک-سعودی تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے جبکہ پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی، درمیان میں سیاہ پگڑی باندھے، انہیں دیکھ رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور جون 2019 میں لاہور میں ایک کانفرنس کے دوران پاک-سعودی تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے جبکہ پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی، درمیان میں سیاہ پگڑی باندھے، انہیں دیکھ رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

حکومتِ پاکستان نے سعودی شہریوں کو نشانہ بنانے کی حوثیوں کی تازہ ترین کوشش کی بھرپور مذمت کی ہے۔

18 جون کو ایک بیان میں وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان "برادر ملک سعودی عرب کی سلامتی اور علاقائی استحکام کو لاحق کسی بھی خطرے کے خلاف اپنی مکمل حمایت اور یکجہتی کا اعادہ کرتا ہے۔"

پاکستان میں اشتعال

پاکستانی شہریوں، علماء اور سیاستدانوں نے تازہ ترین حملے پر تنقید کی ہے۔

ملک میں چوٹی کے اسلامی علماء کے اتحاد، پاکستان علماء کونسل (پی یو سی) کے چیئرمین، حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے 16 جون کو سعودی علاقے پر حملے کی مذمت کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی حکومت دشمنانِ اسلام و مسلمان کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کئی محاذوں پر لڑتی رہی ہے۔

اشرفی، جو کہ سعودی عرب میں مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کے تحفظ کے لیے بنائی گئی عالمی تنظیم، انٹرنیشنل تعظیمِ حرمین الشریفین کونسل کے سیکریٹری جنرل ہیں، نے کہا، "موجودہ صورتحال میں، جب پوری دنیا کورونا وائرس کی عالمی وباء کو محدود کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے، حوثی ملیشیا عام سعودی عرب کے مختلف شہروں میں شہریوں اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کے لیے میزائل حملے کر رہی ہیں۔"

اس سے پہلے 22 مئی کو، پی یو سی نے سعودی سرزمین پر حوثی حملوں کی مذمت کرنے کے لیے "یومِ عظمتِ حرمین الشریفین" مہم کا اہتمام کیا تھا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) (جے یو آئی-ایف) جماعت کے مرکزی رہنماء، مولانا عبدالباقی نے کہا، "وہ عناصر جو مسلمانوں میں انارکی اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے مذموم عزائم اور سازشوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔"

عبدالباقی کا کہنا تھا، "سعودی عرب کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کے عقیدے کا جزو ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے پارلیمان کے اندر حوثی حملوں کی مذمت کی ہے اور عالمی اسلامی تنظیموں، بشمول اسلامی تعاون کی تنظیم، سے حوثیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

کراچی میں بین الاقوامی تعلقات کے ایک پروفیسر، محمد حسین شاہ نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے وسیع پیمانے پر مذمت -- حکومتی سطح پر بھی اور سیاسی و دینی جماعتوں کی جانب سے بھی -- ظاہر کرتی ہے کہ ملک یمن کے تنازعے میں اپنی سابقہ غیر جانبداری سے دستبردار ہو گیا ہے۔

شاہ نے کہا، "یمن کے تنازعے کے آغاز میں، پاکستانی پارلیمان نے اپریل 2015 میں اس بحران میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا، اس سے ایک ماہ پہلے سعودی سربراہی میں اتحاد نے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے کرنے کے ذریعے جنگ میں مداخلت کی تھی۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات، اور خصوصاً، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کےفروری 2019 میں دو روزہ دورۂ اسلام آبادکی وجہ سے، پاکستان نے یمن کے تنازعے پر اپنا مؤقف تبدیل کیا ہے۔

حملے جاری

اسلام آباد نے باقاعدگی کے ساتھ سعودی علاقے پر حوثی حملوں کی مذمت کی ہے۔

جون 2019 میں، وزارتِ خارجہ نے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب میں ابھا ہوائی اڈے پر ایک میزائل حملے کی مذمت کی تھی جس میں 26 عام شہری زخمی ہو گئے تھے۔

پاکستان نے مئی 2019 میں حوثی باغیوں کی جانب سے مکہ پر بیلسٹک میزائل داغنے پر بھی کڑی تنقید کی تھی۔

سعودی پولیس افسر میجر جمال النخیفی نے اس ماہ کے شرو میں المشارق کو بتایا تھا کہ سلطنت پر حوثی باغیوں کا بار بار بمباری کرنا ایران کے سپاہِ پاسدارانِ انقلاب کی پالیسیکا ثبوت ہے، جو ملیشیا کو معاونت اور سرمایہ فراہم کرتی ہے اور احکامات دیتی ہے۔

النخیفی کا کہنا تھا کہ گزشتہ 50 دنوں میں حوثیوں نے 50 ایسے ہی حملے کیے ہیں، بشمول بیلسٹک میزائلوں کا ایک حملہ جسے سعودی افواج نے 13 جون کو ناکام بنایا تھا۔

المشارق کی رپورٹ کے مطابق، سلطنت کا میزائلوں سے دفاع کا نظام تازہ ترین ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں کو مار گرانے میں کامیاب رہا۔

النخیفی نے کہا کہ ان حملوں کو مقصد ایرانی حکومت پر سے توجہ ہٹانا ہے، جسے اقوامِ متحدہ کی نئی رپورٹ پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی ناراضگی کا سامنا ہے جو تصدیق کرتی ہے کہکروز میزائل جنہوں نے گزشتہ ستمبر میں سعودی تیل کی تنصیبات کو نقصان پہنچایا تھاوہ ایرانی میزائل تھے۔

ان کا کہنا تھا، "حملوں کے بعد ظاہر کردہ غصہ اور مذمت علاقائی اور بین الاقوامی طور پر آئی آر جی سی اور اس کے ساتھیوں کو مسترد کیے جانے کی عکاسی کرتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500