سلامتی

وزیرستان کو دوبارہ سیاحوں کی منزل بنانے کے لیے مقامی نوجوان سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں

دانش یوسف زئی

وزیرستان کی ایک پہاڑی وادی کی تصویر۔ [فرمان اللہ/ ٹورازم ان وزیرستان]

وزیرستان کی ایک پہاڑی وادی کی تصویر۔ [فرمان اللہ/ ٹورازم ان وزیرستان]

پشاور -- وزیرستان جو کہ کسی زمانے میں عسکریت پسند گروہوں بشمول القاعدہ و تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا گڑھ ہوتا تھا،کے نوجوان شہری، سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے سیاحت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ علاقے کے متشدد ماضی کے باعث اس سے جڑے بدنامی کے داغ کو مٹانے میں مدد کی جا سکے۔

روس کی طرف سے ہمسایہ ملک افغانستان پر 1979 میں کی جانے والی دراندازی سے لے کر زیادہ حال میں ہونے والی عسکریت پسند سرگرمیوں، جیسے واقعات کے باعث آنے والی تباہی کے نتیجہ میں، وزیرستان نے اپنے بہت سے شہریوں کو کئی دیہائیوں سے علاقے کو چھوڑ کر جاتے ہوئے دیکھا ہے۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی طرف سے سرحد میں دراندازی کے باعث، یہ علاقہ کسی زمانے میں پاکستان میں دہشت گردانہ حملے شروع کرنے کے لیے ایک مضبوط گڑھ ہوتا تھا۔

2006 سے 2018 کے درمیان، 60,000 سے زیادہ عام شہری اور 5,000 عسکریت پسند ملک بھر میں ہونے والی عسکری سرگرمیوں میں ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دیگر ہزاروں زخمی اور بے گھر ہو گئے۔

وزیرستان کے مقامی افراد، 6 جون کو جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا کے مروبی گاؤں میں وزیرستان کے شہزادے وجیح الدین کے مزار پر حاضری دے رہے ہیں۔ [دانش یوسف زئی]

وزیرستان کے مقامی افراد، 6 جون کو جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا کے مروبی گاؤں میں وزیرستان کے شہزادے وجیح الدین کے مزار پر حاضری دے رہے ہیں۔ [دانش یوسف زئی]

طفیل احمد 8 جون کو "وزیرستان میں سیاحت" نامی فیس بک گروپ کو اپ ڈیٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ گروپ 16 مئی کو بنایا تھا تاکہ وزیرستان میں امن اور سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ [دانش یوسف زئی]

طفیل احمد 8 جون کو "وزیرستان میں سیاحت" نامی فیس بک گروپ کو اپ ڈیٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ گروپ 16 مئی کو بنایا تھا تاکہ وزیرستان میں امن اور سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ [دانش یوسف زئی]

فوج کی طرف سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کرنے کے لیے کئی سالوں تک کیے جانے والے آپریشن کے بعد، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے زیادہ تر حصوں میں امن بحال ہو گیا ہے۔ قبائلی اضلاع کے لوگ اپنے آبائی گھروں کو واپس آ رہے ہیں اور وہ پرامید ہیں کہ وہ علاقے کی ممکنہ ترقیاتی استعداد جس میں سیاحت اور کامرس شامل ہے، سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ایک منصوبہ جس کا مقصد سیاحت کے شعبے کی تشہر اور علاقے کی نئی ساکھ بنانا ہے، کا سوشل میڈیا کے ذریعے آغاز ہو چکا ہے۔

سوشل میڈیا کے نوجوان سرگرم کارکن طفیل احمد نے 16 مئی کو فیس بک کے ایک گروپ "ٹورازم ان وزیرستان" کا آغاز کیا جسے خصوصی طور پر وزیرستان کے شہریوں کے لیے بنایا گیا ہے تاکہ وہ پوسٹس اور تصاویر شیئر کریں اور سیاحوں کو متوجہ کریں۔

اس گروپ میں پہلے 12 دنوں کے دوران 13,000 ارکان رجسٹر ہوئے اور اب اس کے ارکان کی تعداد 27,000 ہے۔

اس گروہ کا مقصد صرف، علاقے کی قدرتی خوبصورتی، سیاحتی مقامات اور تاریخی مقامات کی تشہیر کرنے سے سیاحوں کو متوجہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ وزیرستان کے علاقے اور اس کی آبادی سے جڑے دہشت گردی اور تشدد کے دھبے کو، دور کر کے اس کی ساکھ کو بحال کرنا بھی ہے۔

امن کی بحالی

احمد نے کہا کہ سیاح متشدد ماضی کے باعث وزیرستان کا دورہ کرنے سے ہچکچاتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارا مقصد اپنی زمین اور لوگوں کو نئی ساکھ دینا ہے۔ ہم امن سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور ہم سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ یہاں کی قدرتی خوبصورتی اور تاریخی مقامات کا دورہ کریں۔ اس گروپ کے باعث، ہزاروں سیاحوں نے یہاں کا دورہ کیا ہے اور ہمیں مثبت رائے مل رہی ہے"۔

احمد کے مطابق، بہت سے سیاحوں نے مکین، شوال، رزمک، لدھا، بدر، کنی گرام اور شگائی کا دورہ کیا ہے اور اس کی وجہ لہلہاتے سرسبز مناضر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لکی مروت اور کشمور سے آنے والے سیاحوں نے فیس بک کے پیچ پر تبصرہ کیا ہے کہ انہوں نے مقامی مہمان نوازی کو بہت گرمجوش پایا ہے۔

نیشنل سائیکلنگ گروپ کے ایک رکن شہاب گل جنہوں نے گزشتہ مئی میں وزیرستان کا دورہ کیا تھا کہا کہ 2001 سے پہلے وزیرستان ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے بہت پرکشش ہوتا تھا جب القاعدہ نے امریکہ کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کا آغاز کیا تھا۔

گل نے کہا کہ ان حملوں اور اس کے نتیجہ میں افغانستان میں پیدا ہونے والے تنازعہ کے باعث وزیرستان میں سیکورٹی کی صورتِ حال انتہائی خراب ہو گئی اور بہت سے مقامی شہریوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

پاکستانی فوج کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف مہمات کے بعد، کافی حد تکامن اور معمول کے حالات واپس آ گئے ہیں۔

گل نے کہا کہ وہ پاکستان کے دوسرے سائیکلنگ کلبوں کی اس بات پر حوصلہ افزائی کرنے کا عزم رکھتے ہیں کہ وہ بھی وزیرستان کا دورہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ "میں نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ، صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ یہاں پر سیاحت کی صنعت کی کو فروغ دیں۔ معیاری ہوٹلوں اور ریزاٹس کی تعیمر کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف سیاحوں کو سہولیات ملیں گی بلکہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے وسائل بھی پیدا ہوں گے جو کئی دیہائیوں تک جاری رہنے والی عسکریت پسندی کے باعث اپنی ہر چیز سے محروم ہو چکے ہیں"۔

تاریخی سیاحت کے لیے ایک گڑھ

وزیرستان کے مقامی صحافی شہریار محسود نے کہا کہ سوشل میڈیا کی مہمات سے انہیں اپنے آبائی علاقے کو دوبارہ سے دریافت کرنے کا حوصلہ ملا۔

مسحود نے کہا کہ "فیس گروپ میں جانے کے بعد، میں نے سائیکل ٹور کرنے کا ارادہ کیا اور میں نے مکین،شوال وادی، لدھا اور کنی گرام کا دورہ کیا۔ فوج کی طرف سے استقبال بہت حوصلہ افزاء تھا اور مقامی لوگوں کی مہمان نوازی آپ کو زمین پر اس چھوٹی سی جنت سے محبت میں گرفتار کر دیتی ہے۔ اگر آپ کے پاس رہنے کے لیے جگہ نہیں ہے تو مقامی افراد آپ کو اپنے ساتھ رکھنے کو عزت افزائی تصور کرتے ہیں"۔

محسود نے کہا کہ بحالی کی کوششوں کے ایک حصہ کے طور پر، مسلح افواج نے رزملک، شمالی وزیرستان میں بڑی سپرمارکیٹس کو دوبارہ سے تعمیر کرنے میں مدد کی ہے جنہیں عسکریت پسندوں نے تباہ کر دیا تھا۔

اس سال کے آغاز میں، صوبائی حکومت نے شمالی وزیرستان کے مانسہرہ بازار میں دکانوں، گیس اسٹیشنوں اور دیگر متعلقہ شعبوں کے لیے، 13 بلین روپوں (77.6 ملین ڈالر) کے ایک امدادی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔

محسود نے کہا کہ اپنی قدرتی خوبصورتی کے علاوہ، وزیرستان بہت سی تہذیبوں اور قبائل کے باقیات کے باعث، جو کسی زمانے میں علاقے میں آباد اور حکمران تھا، تاریخی سیاحت کا ایک گڑھ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "شہزادہ فضل دین کا مزار (عالمی جنگوں کے دوران وزیرستان کا قبائلی راہنما) مکین میں واقع ہے، جبکہ برطانیہ کا الیگزینڈر فورٹ رزمک میں ہے۔ یہ قلعہ کسی زمانے میں جنگجو قبیلوں پر نظر رکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا"۔

ایک اور مقامی صحافی سیف اللہ گل محسود نے کہا کہ وزیرستان کے نوجوانوں اور خصوصی طور پر طفیل احمد کی طرف سے علاقے کی تشہیر کرنے کی پہلکاری بہت حوصلہ افزاء ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیس بک کے گروپ "ٹورازم ان وزیرستان" نے ایسی مسحور کر دینے والی تصاویر اور ویڈیوز سے جن میں وزیرستان کی قدرتی خوبصورتی کی تفصیل دکھائی گئی ہے، بہت قلیل دورانیے میں بہت مقبولیت حاصل کر لی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "اس کوشش سے نہ صرف ایک مثبت تصویر پیش ہو گی بلکہ طویل دورانیے میں، علاقے میں سیاحت کی صنعت مزید پرکشش ہو گی اور حکومت پر دباؤ ڈلے گا کہ وہ اس میں سرمایہ کاری کرے"۔

انہوں نے کہا کہ معلومات اور تفریح فراہم کرنے کے علاوہ، سوشل میڈیا معاشرے کے بہت سے ارکان کے لیے موثر ہے جس میں خیراتی ادارے، تعلیمی تنظیمیں اور کاروبار شامل ہیں اور وہ رویوں کو بدلنے اور تشکیل دینے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

محسود نے کہا کہ "ٹورازم ان وزیرستان" کے واقعہ میں، سوشل میڈیا وزیرستان کے بکھرے ہوئے قبائل کو اکٹھا کر رہا ہے جو دہشت گردوں کے ہاتھوں سزائیں پانے سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی وہ سیاحت کی صنعت کی تشہیر کر رہے ہیں جس سے دیرپا امن اور ترقی کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 7

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

زبردست تحریر۔ ایسے مکالات سیاحوں کی کشش کے لیے قبائلی علاقہ جات کی مثبت تصویر بنائیں گے۔ زبردست

جواب

https://youtu.be/uB8nxLq0j-c . . وزیرستان میں پہلی بار ڈرون ویلاگ

جواب

زبردست

جواب

بہت اچھے صاحب

جواب

جنوبی وزیرستان ایجنسی میں سیاحت کے مواقع سے متعلق شاندار معلومات

جواب

❤️

جواب

وزیرستان میں سیاحت کے مستقبل کی وضاحت کرنے کے لیے مکالے پر شکریہ

جواب