پارہ چنار – ضلع کرم، خیبرپختونخوا (کے پی) میں ہائی سپیڈ انٹرنیٹ لانے کے مقصد سے ایک منصوبہ پر پیش رفت ہو رہی ہے اور یہ موسمِ گرما کے اختتام تک سہولیات کی فراہمی کا آغاز کر سکتا ہے۔
21 اپریل کو وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی مواصلات کے تحت یونیورسل سروس فنڈ (USF) نے اس ضلع میں براڈبینڈ تشکیل دینے کے لیے جاز کمیونیکیشن کو ایک ٹھیکہ دیا۔
USF کو 20 مئی کو فوج سے کلیئرنس ملی، جو زیادہ تر علاقے کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
وفاقی وزارتِ آئی ٹی و ٹیلی مواصلات کے سیکریٹری شعیب احمد صدیقی نے کہا، "اس منصوبے کی ہمارے لیے خصوصی اہمیت ہے، اور مقررہ وقت کے اندر 440,000 باشندوں کو ملک کے تیز ترین موبائل براڈ بینڈ تک رسائی حاصل ہو گی۔"
انہوں نے کہا، "ہم پسماندہ علاقوں میں ہائی سپیڈ براڈ بینڈ فراہم کرنے کے لیے مستقبل کے منصوبوں کے ذریعے جارحانہ حکمتِ عملی اپنائیں گے۔"
صدیقی نے کہا، "ہم مصروفِ عمل ہیں، اور امّید ہے کہ یہ تنصیب اگست کے اواخر میں مکمل ہو جائے گی۔ کچھ تاخیر ہوئی ہے، تاہم یہ منصوبہ شروع ہو چکا ہے، اور جلد ہی عوام کو خدمات حاصل ہوں گی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ کروناوائرس لاک ڈاؤن کے دوران یہ ہائی سپیڈ انٹرنیٹ عوام کو آگاہ رکھے گا۔
حکومتِ کے پی کے ایک ترجمان اجمل وزیر نے کہا کہ ضلع کرم میں براڈ بینڈ کی تشکیل کے لیے 92 ملین روپے (570,000 ڈالر) کا ٹھیکہ دیا گیا ہے اور کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا، "بعد ازاں اسے دیگر اضلاع تک توسیع دی جائے گی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ بہت پہلے ہی قبائلی اضلاع میں ہائی سپیڈ انٹرنیٹ دستیاب ہو جانا چاہیئے تھا، تاہم دہشتگردی ایک رکاوٹ رہی ہے۔
وزیر نے کہا کہ براڈ بینڈ کوریج کا آغاز ضلع کرم کے 224 دیہات میں ہوگا، جس سے تقریباً 2,980 مربع کلومیٹر کا علاقہ کور ہو گا، اور بالآخر یہ پورے ضلع اور دیگر قبائلی اضلاع تک پہنچے گا۔
معلومات تک رسائی
پارہ چنار، ضلع کرم کے ایک رہائشی جواد حسین نے کہا کہ قبائلی پٹی میں انٹرنیٹ سہولت نہایت سست ہے اور صرف لینڈ لائن رکھنے والوں کو ہی دستیاب ہے۔
کالج کے ایک طالبِ علم، حسین نے کہا کہ انٹرنیٹ تک رسائینوجوانوں کو مشغول رکھے گیاور دہشتگردی اور مجرمانہ سرگرمیوں سے سے دور رہنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرے گی، جبکہ کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران انہیں آن لائن سبق لینے کے قابل بھی بنائے گی۔
انہوں نے کہا، "زیادہ تر کالجوں اور جامعات نے اس وبا کے دوران آن لائن کلاسز کا آغاز کر دیا ہے، لیکن ہم موزوں انٹرنیٹ نہ ہونے کے وجہ سے ان مواقع سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ ہم شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔"
ضلع کرم سے ایک معلم محمّد اکرم نے کہا کہ قابلِ استعمال انٹرنیٹ کا فقدان علاقہ کے نوجوانوں کے مستقبل کے لیے باعثِ تشویش تھا۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ تک رسائی "ہمیں دنیا میں تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ رکھے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیوں میں مشغول رکھے گی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ تیز تر انٹرنیٹ باشندوں کے لیے COVID-19 وبا سے متعلق ملکی و غیر ملکی معلومات اور عوامی صحت کے دیگر مسائل تک رسائی کو ممکن بنائے گا۔
اکرم نے کہا، "براڈ بینڈ کنکٹیویٹی اس بحران سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے روکنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔"
قبائلی علاقہ جات پر مرکوز رہنے والے پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی ذوالفقار علی نے کہا، "3G/4G خدمات کے آغاز سے عوام اپنے موبائل فونز پر انٹرنیٹ استعمال کر سکے گی۔ جیسا کہ سکول اور کالج بند ہیں، طلبہ آن لائن کلاسز اوردیگر درکار معلومات لے سکیں گے۔"
انہوں نے کہا کہ براڈ بینڈ طویل عرصے سے باشندوں کا مطالبہ رہا ہے۔
علی نے کہا کہ یہ طلبہ کو تعمیری سرگرمیوں میں مشغول رکھنے اور انہیں دہشتگردوں کے بھرتی کنندگان سے دور رکھنے میں معاون ثابت ہو گا۔ ماضی میں دہشتگردوں نے نوجوانوں کو خودکش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کیا ہے کیوں کہ ان کے پاس کرنے کو کوئی مثبت کام نہ تھا۔
انٹرنیٹ کیفے
درایں اثناء، جنوبی وزیرستان میں ضلعی انتظامیہ اور فرنٹیئر کور نے انٹرنیٹ کیفے قائم کیے ہیں تاکہ طلبہ آن لائن کلاسز لے سکیں اور انٹرنیٹ استعمال کر سکیں۔
دی نیوز نے خبر دی کہ ایسی تنصیبات پہلی مرتبہ 18 اپریل کو دستیاب ہوئیں۔
جنوبی وزیرستان کے علاقہ چگمالئی کے ایک رہائشی غلام عبدالقادر نے اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس لاک ڈاؤن طلبہ پر اثرانداز ہواکیوں کہ ملک بھر میں جامعات بند ہو گئیں۔
جامعہ پنجاب کے ایک طالبِ علم عبدالقادر نے کہا، "یہ اچھا ہے کہ اب ہم وزیرستان کے علاقہ میں بیٹھ کر آن لائن اپنی پڑھائی کر سکتے ہیں، جس کے لیے ہم حکومت کے مشکور ہیں۔"
پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیئر سیکیورٹی تجزیہ کار برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ امن برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو چاہیئے کہ قبائلی اضلاع کے باشندوں کو تعلیم کے مزید مواقع فراہم کرے۔
انہوں نے کہا، "لوگ دو دہائیوں تک دہشتگردی سے متاثر ہوئے ہیں، اور اب درست وقت ہے کہ علاقہ کی ترقی اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیے تیز تر کمیونیکیشن متعارف کرائی جائیں کہ دہشتگرد دوبارہ واپسی کی منصوبہ بندی نہ کریں۔ تشدد کے خاتمہ کے لیے شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کی وسیع پیمانے پر قربانیوں کی ایک تاریخ رقم ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "ہمیں تعلیم پھیلانے کے لیے ایک جارحانہ حکمتِ عملی کی ضرورت ہے تاکہ دہشتگرد عوام کو دہشتگردی کی جانب مائل نہ کر سکیں۔"