دہشتگردی

ٹی ٹی پی کراچی کے کمانڈر کی گرفتاری دہشت گرد تنظیم کو ایک 'بڑا دھچکہ' تصور کی جا رہی ہے

از ضیاء الرحمان

پولیس اہلکار 10 جون کو کراچی میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

پولیس اہلکار 10 جون کو کراچی میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- کراچی میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چوٹی کے کمانڈر کی گرفتاری کو دہشت گرد تنظیم کی جاری سرگرمیوں کو لگنے والا ایک "بڑا دھچکہ" تصور کیا گیا ہے۔

ملک الطاف، سندھ پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اعلیٰ افسر جنہوں نے چھاپہ مارا تھا، نے کہا کہ 3 جون کو جب جان عالم کو گرفتار کیا گیا اس وقت وہ ایک پشتون مضافاتی علاقے، فرنٹیئر کالونی میں کرائے کے ایک مکان میں رہائش پذیر تھا اور شہر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

الطاف نے کہا، "عالم کے گھناؤنے جرائم، خصوصاً کراچی میں انسدادِ دہشت گردی کے اہم پولیس افسران کے قتلوں کی منصوبہ بندی، میں ملوث ہونے کی وجہ سے، قانون نافذ کرنے والے ادارے گزشتہ کئی برسوں سے اس کا تعاقب کر رہے تھے۔"

"اس کی گرفتاری ٹی ٹی پی کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے جو کہ پہلے ہی اپنے بیشتر قائدین کی ہلاکتوں اور گرفتاریوں اور اندرونی اختلافات کے بعد کمزور ہو چکی ہے" ان کا کہنا تھا.

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کراچی کے رہنماء اکتوبر 2019 میں ایک فٹبال ٹورنامنٹ میں حصہ لیتے ہوئے جو اے این پی کے ایک سابق رہنماء عامر سردار سے موسوم تھا، جنہیں سنہ 2012 میں ٹی ٹی پی کی جانب سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ [ضیاء الرحمان]

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کراچی کے رہنماء اکتوبر 2019 میں ایک فٹبال ٹورنامنٹ میں حصہ لیتے ہوئے جو اے این پی کے ایک سابق رہنماء عامر سردار سے موسوم تھا، جنہیں سنہ 2012 میں ٹی ٹی پی کی جانب سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ [ضیاء الرحمان]

عالم نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس کے پیش رو، شیر بہادر کی سنہ 2018 میں ہلاکت کے بعد اس وقت کے ٹی ٹی پی کے امیر ملا فضل اللہ نے اسے ٹی ٹی پی کراچی کا کمانڈر مقرر کیا تھا۔

فضل اللہ خود بھی اسی سال افغانستان میں ایک فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔

"سی ٹی ڈی کی ایک تفتیشی رپورٹ کے مطابق، "افغانستان، جہاں پاکستان میں گرفتاری سے بچنے کے لیے ٹی ٹی پی کے بیشتر رہنماء اور کمانڈر روپوش ہیںمیں اپنے قیام کے دوران، عالم نے پریشر ککر بم، ٹینس بال بم اور موٹر سائیکل میں نصب ہونے والے دیسی ساختہ بم تیار کرنے کی تربیت حاصل کی۔"

عالم کی گرفتاری شہر میں ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری تنظیموں، بشمول خراسان شاخ دولتِ اسلامیہ" (داعش-کے)اور برصغیر میں القاعدہ (اے کیو آئی ایس)، کے خلاف کریک ڈاؤن کا حصہ تھی۔

کراچی پولیس کے خصوصی تفتیشی یونٹ (ایس آئی یو) اور وفاقی تحقیقاتی اداروں نے اس سے پہلے 19 اپریل کو گلستانِ جوہر کے علاقے میں ایک مشترکہ چھاپہ مارا تھا، جس میں اے کیو آئی ایس کے چار مشتبہ جنگجو گرفتار ہوئے تھے۔

نیم فوجی رینجرز اور سی ٹی ڈی نے بھی 17 اپریل کو ضلع کراچی غربی میں چھاپوں کے دوران لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) کے دو مشتبہ ارکان کو گرفتار کیا تھا۔

جنوری میں، نیم فوجی رینجرز اور سی ٹی ڈی نے اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں ٹی ٹی پی کے دو مطلوب ترین جنگجو ملزمان کو گرفتار کیا تھا جو گزشتہ نو برسوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچتے پھر رہے تھے۔

پولیس افسران، سیاسی شخصیات پر حملے

عالم دہشت گردی کی بہت سی سرگرمیوں میں ملوث تھا خصوصاً کراچی غربی میں، ایک ایسا علاقہ جو ستمبر 2013 میں ایک سیکیورٹی آپریشن شروع ہونے تک ٹی ٹی پی کا ایک مضبوط گڑھ ہوا کرتا تھا۔

سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق، اس نے دیگر پولیس اہلکاروں کے علاوہ، انسدادِ دہشت گردی کے شعبے کے دو اہم پولیس افسران، شفیق تنولی اور بہاؤالدین بابر کے قتلوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔

تنولی، جو کہ کئی خودکش حملوں اور بندوق کے حملوں سے بچ نکلا تھا، اپریل 2014 میں پرانی سبزی منڈی کے علاقے میں ایک خودکش بم دھماکے میں شہید ہوا تھا۔ بابر دسمبر 2013 میں میٹروویل علاقے میں شہید ہوا تھا۔

حکام کے مطابق، عالم کی گرفتاری سی ٹی ڈی کے دہشت گردی اور ماضی، خصوصاً 2013 اور 2014، میں پولیس افسران کے قتلوں کے متعلق مقدمات کو حل کرنے کے مشن کا جزو تھی۔

پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق، سنہ 2013 اور 2014 میں، بالترتیب 173 اور 143 پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے، خصوصاً ضلع غربی میں اور ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے ہاتھوں۔

نومبر 2018 میں، سندھ پولیس نے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور سیاسی اور دینی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خصوصی شعبہ بنایا تھا۔

عالم ضلع غربی میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے بہت سے قائدین پر جان لیوا حملوں میں بھی ملوث تھا۔

سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق، اس نے اے این پی کے اس وقت کے صوبائی سیکریٹری جنرل، بشیر جان پر، خصوصاً 2013 کے عام انتخابات کے دوران، کئی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ بشیر جان ان تمام حملوں میں بچ نکلا تھا۔

سی ٹی ڈی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالم اگست 2012 میں، ضلع غربی میں اے این پی کے صدر، عامر سردار کی ہلاکت کا ذمہ دار تھا۔

اے این پی کے ایک کارکن، مجاہد خان، جو سنہ 2013 میں ٹی ٹی پی کے ایک حملے میں زخمی ہو گئے تھے، نے کہا کہ عالم کی گرفتاری ناصرف علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرے گی بلکہ شہر میں دہشت گرد تنظیموں کی دوبارہ گروہ بندی کا راستہ بھی روکے گی۔

خان نے کہا، "ستمبر 2013 کے بعد سے، جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عسکری تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا، ٹی ٹی پی نے طاقت کھونا شروع کر دی ہے کیونکہ کراچی میں اس کے بیشتر رہنماء اور ارکان مارے گئے یا گرفتار ہو گئے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500