سفارتکاری

افغانستان کے لیے پاکستان کے نئے خصوصی ایلچی کا سرحد کی دونوں طرف خیرمقدم

ضیاء الرحمان

آرمی چیف آف اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ (بائیں)، افغان امور کے خصوصی نمائندے محمد صادق (بائیں طرف دوسرے) اور انٹر سروسز انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹینٹ جنرل فیض حمید (دائیں)، افغان ہائی کونسل برائے قومی مفاہمت کے چیرمین عبداللہ عبداللہ سے 9 جون کو کابل میں ملاقات کر رہے ہیں۔ [عبداللہ عبداللہ/ ٹوئٹر]

آرمی چیف آف اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ (بائیں)، افغان امور کے خصوصی نمائندے محمد صادق (بائیں طرف دوسرے) اور انٹر سروسز انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹینٹ جنرل فیض حمید (دائیں)، افغان ہائی کونسل برائے قومی مفاہمت کے چیرمین عبداللہ عبداللہ سے 9 جون کو کابل میں ملاقات کر رہے ہیں۔ [عبداللہ عبداللہ/ ٹوئٹر]

اسلام آباد -- پاکستان اور افغانستان دونوں میں مشاہدین پاکستانی حکومت کی طرف سے افغان امور کے پہلے خصوصی نمائندے کی تعیناتی کی تعریف کر رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس قدم کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا اور افغان امن کے عمل میں مدد فراہم کرنا ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان نے 6 جون کو تجربہ کار سفارتکار محمد صادق کو افغان امور کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائںدے کے طور پر تعینات کیا۔

سرکاری ریڈیو، ریڈیو پاکستان نے خبر دی ہے کہ اپنی تعیناتی کے فورا بعد، صادق نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ اپنے کردار کے بارے میں بات چیت کی جنہوں نے کہا کہ "پاکستان علاقائی امن اور استحکام کو قائم رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا جاری رکھے گا"۔

ایک نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں محمد صادق کو دکھایا گیا ہے۔ [محمد صادق/ فیس بک]

ایک نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں محمد صادق کو دکھایا گیا ہے۔ [محمد صادق/ فیس بک]

نئے متعین کردہ، پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے افغان امور، صادق (بائیں) 8 جون کو اسلام آباد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [ریڈیو پاکستان]

نئے متعین کردہ، پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے افغان امور، صادق (بائیں) 8 جون کو اسلام آباد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [ریڈیو پاکستان]

قریشی نے صادق کو بتایا کہ "پاکستان نے افغان امن کے عمل میں ایک تعمیراتی کردار نہایت خلوص سے ادا کیا ہے جسے ابعالمی برادری نے بھی تسلیم کیا ہے

صادق ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں جنہوں نے اکتوبر 2016 میں ریٹائر ہونے سے پہلے 2008 سے 2014 تک افغانستان میں سفیر کے طور پر خدمات سر انجام دی تھیں۔

انہوں نے قومی سیکورٹی کمیٹی میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں اور وزارتِ خارجہ کے لیے ترجمان بھی رہے ہیں۔

وہ بیجنگ اور برسلز میں بھی اہم سفارتی عہدوں پر فائز رہے ہیں اور واشنگٹن، ڈی سی میں 1998 سے 2000 تک ڈپٹی چیف آف مشن رہے ہیں۔

وزارتِ خارجہ کے حکام کے مطابق، افغان امور کے لیے خصوصی نمائندے کا عہدہ نیا ہے اور اسے افغان امن کے عمل کے لیے ملک کی کوششوں میں پیش روی کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔

ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "صادق کے افغانستان کے تمام اہم فریقین کے ساتھ ذاتی تعلقات، پاکستانی حکومت کی طرف سے ہمسایہ ملک میں امن لانے کے لیے اس کی کوششوں میں اہم کردار ادا کرنے میں مددگار ہوں گے"۔

اہلکار نے کہا کہ صادق نےجون 2019 میں اسلام آباد کے قریب بھوربن کے مقام پر افغانستان امن کانفرنس کو ممکن بنانے میں مدد فراہم کی تھی۔

افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے 50 سے زیادہ سیاسی راہنماؤں نے اس اجتماع میں شرکت کی تھی تاکہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد قائم کر سکیں اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دے سکیں۔

تعیناتی کی دونوں اطراف سے تعریف

دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا تجزیہ کرنے والے سیاسی تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں نے صادق کی تعیناتی کی تعریف کی ہے۔

پاکستان میں افغانستان کے سفیر عاطف مشال نے 6 جون کو ٹوئٹ کیا کہ "امید ہے کہ علاقے اور افغانستان کے بارے میں صادق کا علم اور سمجھ بوجھ، اس اہم وقت پر انہیں علاقائی اور دوطرفہ تعلقات میں ایک تعمیری کردار ادا کرنے کے قابل بنائے گی"۔

مشال کے مطابق، ان دونوں کے درمیان 8 جون کو "ایک نتیجہ خیز ملاقات" ہوئی۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ "ان کے عہدے کی تعمیر سے، دوطرفہ تعلقات میں ایک پیروی کا طریقہ کار نافذ کرنے میں مدد ملے گی جو کہ آگے کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔ ہم نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان امن اور مصالحت اور اس کے ساتھ ہی تجارت اور ٹرانزٹ کے بارے میں بات چیت کی"۔

"ہم نے غلام خان کراسنگ پوائنٹ کے بارے میں بھی بات چیت کی اور جناب صادق نے مکمل مدد اور تعاون کا یقین دلایا"۔

پاکستان کے لیے افغانستان کے ایک سابقہ سفیر عمر اورکزئی نے 6 جون کو ٹوئٹ کیا کہ "نہ صرف صادق کے پاس اس عہدے کے لیے گہرا علم، سمجھ بوجھ اور درست مزاج ہے بلکہ وہ مزید تعمیری پاک افغان پالیسی کے بھرپورحامی، امن اور قریبی دوطرفہ تعلقات کے ترغیب کار بھی رہے ہیں"۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی طاہر خان جو کہ افغان امن کے عمل کے بارے میں لکھتے ہیں، نے کہا کہ صادق کی تعیناتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت افغانستان میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے اپنی مدد کو وسیع کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت افغانستان میں جنگ کو حل کرنے اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی متلاشی ہے"۔

خان نے کہا کہ کووڈ -19 کرونا وائرس کی عالمی وباء کے باجود، پاکستانی حکومت نے حال ہی میں ٹرکوں کی سرحد کے آر پار نقل و حرکت کی ہفتے میں چھہ دن تک اجازت دی ہے اور ہر ہفتے میں ایک دن کا مقصد ایسے پاکستانی اور افغان شہریوں کو اپنے آبائی ملکوں میں جانے کے قابل بنانا ہے کو ایک دوسرے کے ملک میں پھنس چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صادق کی تعیناتی سے افغانستان-پاکستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی (اے پی اے پی پی ایس) جو کہ گزشتہ سال قائم کیا جانے والا تعاون کا ایک فریم ورک ہے، کے بارے میں التواء کی شکار میٹنگ کو ممکن بنانے میں مدد ملے گی۔

اے پی اے پی پی ایس - ایک فورم جس کا مشترکہ مقصد دہشت گردی کا خاتمہ، امن و استحکام کا حصول اور علاقائی ترقی ہے -- کی 2019 سے کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے اور اس کی وجہ دونوں ممالک کے درمیان موجود کشیدگی تھی۔

کابل سے تعلق رکھنے والے محقق، بلال الخوزئی جو افغانستان میں امن مذاکرات کی نگرانی کر رہے ہیں، نے کہا کہ "خیبرپختونخواہ صوبہ سے تعلق رکھنے اور افغانستان میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے باعث، صادق افغان تنازعہ کی پیچیدگیوں کو اس کے تاریخی اور سماجی-اقتصادی پس منظر میں سمجھتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں، افغان تنازعہ کو حل کرنے میں پاکستان کا کردار، عسکری نتیجہ پر بنیاد رکھتا تھا اور اب صادق کی تعیناتی پاکستان کو سیاسی حل پر توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دے گی تاکہ علاقے میں امن کو یقینی بنایا جا سکے۔

افغانستان میں امن مذاکرات

صادق کی تعیناتی، بین- افغان مذاکرات شروع کرنے کی نئی کوششوں کے بعد سامنے آئی ہے۔

افغانستان میں مصالحت کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد 5 جون کو واشنگٹن، ڈی سے روانہ ہوئے تاکہ کابل، دوحہ اور اسلام آباد میں امن کی کوششوں کو بڑھایا جا سکے۔

خلیل زاد نے 7 جون کو پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور بین-افغان مذاکرات کو شروع کرنے کے لیے درکار اقدامات پر بات چیت کی۔

اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ "دونوں نے عید پر جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی کو تیز کرنے اور اس کے ساتھ ہی بین -افغان مذاکرات سے پہلے تشدد میں کمی سے پیدا ہونے والی حالیہ پیش رفت کا نوٹس لیا"۔

ایک پاکستانی وفد جس کی قیادت باجوہ کر رہے تھے، نے 9 جون کو کابل کا دورہ کیا تاکہ افغانستان کے صدر اشرف غنی اور قومی مصالحت کے لیے افغان ہائی کونسل کے چیرمین عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی جا سکے۔ طلوع نیوز نے افغان حکومت کے حوالے سے خبر دی ہے کہ دونوں اطراف نے امن کی کوششوں اور پاکستان کے کردار کے بارے میں بات چیت کی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 4

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

درست کام کے لیے درست شخص

جواب

اگر امریکہ اور مغربی عالم بدعنوانی کی دنیا سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان کے نام پر برطانوی مشن کو ختم کرنا ہو گا۔ انہیں بلوچیوں کے مستقل وطن بلوچستان، سندھیوں کے لیے سندھودیش تشکیل دینے کے لیے حمایت کرنا ہو گی اور پنجاب کو بھارت کے حوالہ کرنا ہو گا کیوں کہ پاکستان کے نام پر یہ گندگی پوری دنیا اور انسانیت کے لیے سرطان کی طرح ہے۔ گزشتہ پندرہ برس سے، یہ سور آئی ایس آئی اور گندی فوج پشتونوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔

جواب

اگر امریکہ اور یورپ دنیا سے بدعنوانی اور ہندوتوا شدت پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں خالصتان (بھارتی مقبوضہ پنجاب) کے سکھوں کو آزادی دینا ہو گی۔ اور بھارتی مقبوضہ کشمیر، ناگالینڈ اور آسام وغیرہ کو بھی آزادی دینا ہو گی۔

بھارت آسامییوں، کشمیریوں، سکھوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔۔ ہندوتوا شدت پسند اترپردیش کی ریاست میں رہ سکتے ہیں، بھارت کی باقی ریاستوں پر ہندتوا دہشتگردوں نے صرف قبضہ کر رکھا ہے۔

جواب

پاکستان کا وزیر خارجہ منظر سے غائب ہے۔ پاک فوج کے چیف آف آرمی سٹاف کا افغان بحران کے حل اور امریکی افواج کے انخلاء میں اہم کردار ہے، لیکن وزیر خارجہ کو مساوی طور پر نمایاں کرنا چاہیئے۔

جواب