سلامتی

امریکی رپورٹ میں طالبان کے القاعدہ کے ساتھ متواتر گہرے تعلقات بے نقاب

از اشفاق یوسفزئی

القاعدہ کے امیر ایمن الظواہری کو طالبان کے لوگو کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، امریکی نگران ٹیم کو گزشتہ 12 ماہ کے عرصے میں القاعدہ اور طالبان کے بڑے قائدین کے درمیان چھ مبینہ ملاقاتوں کی اطلاع دی گئی تھی۔ [فائل]

القاعدہ کے امیر ایمن الظواہری کو طالبان کے لوگو کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، امریکی نگران ٹیم کو گزشتہ 12 ماہ کے عرصے میں القاعدہ اور طالبان کے بڑے قائدین کے درمیان چھ مبینہ ملاقاتوں کی اطلاع دی گئی تھی۔ [فائل]

پشاور -- اقوامِ متحدہ (یو این) کی سلامتی کونسل میں جمع کروائی گئی ایک حالیہ رپورٹ طالبان کے القاعدہ کے ساتھ وسیع، جاری و ساری روابط کی تفصیلات بیان کرتی ہے -- جو کہ امریکہ کے ساتھ فروری میں ہونے والے معاہدے کی ایک صریح خلاف ورزی ہے۔

امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کی جانب سے دستخط کردہ امن معاہدے کی شرائط میں سے ایک شرط طالبان سے تمام دہشت گرد گروہوں کا انکار کرنے اور انسدادِ دہشت گردی کے بہت سے اقدامات کے اطلاق کرنے کا تقاضہ کرتی ہے.

27 مئی کو شائع ہونے والی امریکی نگرانوں کی رپورٹ انتباہ کرتی ہے کہ جبکہ معاہدے کی دیگر شرائط پر تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے -- مثلاً افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی اور قیدیوں کی رہائی -- دیگر شعبوں میں ایک دشواری پیش آتی رہی ہے.

رپورٹ میں کہا گیا، "طالبان، خصوصاً حقانی نیٹ ورکاور القاعدہ کے درمیان تعلقات دوستی، مشترکہ جہدوجہد کی ایک تاریخ، نظریاتی ہمدردی اور آپسی شادیوں کی بنیاد پر بہت قریبی رہے ہیں۔"

طالبان رہنماء 11 ستمبر 2001 میں امریکہ کے خلاف حملوں میں القاعدہ کے کردار سے انکار کرتے رہے ہیں، اگرچہ دہشت گرد تنظیم نے تسلیم کر لیا ہے کہ اس نے طالبان کے زیرِ انتظام علاقے سے حملہ کیا تھا۔ [فائل]

طالبان رہنماء 11 ستمبر 2001 میں امریکہ کے خلاف حملوں میں القاعدہ کے کردار سے انکار کرتے رہے ہیں، اگرچہ دہشت گرد تنظیم نے تسلیم کر لیا ہے کہ اس نے طالبان کے زیرِ انتظام علاقے سے حملہ کیا تھا۔ [فائل]

اس میں بتایا گیا ہے،"امریکہ کے ساتھ بات چیت کے دوران طالبان القاعدہ کے ساتھ باقاعدگی سے صلاح مشورہ کرتے تھے اور ضمانتیں دی تھیں کہ یہ ان کے تاریخی تعلقات کا احترام کریں گے۔"

امریکی نگرانوں کے مطابق، ثبوت ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں سے منہ پھیرنے کا وعدہ کرنے کے باوجود، طالبان نے اپنی حفاظت میں القاعدہ کو طاقت پکڑنے کے قابل بنایا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا، "القاعدہ اور طالبان نے سنہ 2019 اور اوائل 2020 کے عرصے میں عملی منصوبہ بندی، تربیت اور طالبان کی جانب سے افغانستان کے اندر موجود القاعدہ کے ارکان کو محفوظ پناہ گاہوں کی فراہمی سے متعلق تعاون پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے ملاقاتیں کی۔"

امریکی نگرانوں کا کہنا تھا کہ القاعدہ خفیہ طور 12 افغان صوبوں میں متحرک ہے اور یہ کہ گروپ "400 اور 600 کے درمیان مسلح ارکان" پر مشتمل ہے۔

اقوامِ متحدہ کی مکمل رپورٹیہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

امن معاہدے کا فائدہ اٹھانا

کابل میں مقامی پولیس کے جنرل ڈائریکٹریٹ کے سابقہ ڈپٹی ڈائریکٹر اور عسکری امور کے تجزیہ کار جنرل (ر) سکندر اصغری نے کہا، "القاعدہ کے ساتھ طالبان کی پالیسی، نظریہ اور اہداف مشترک ہیں اور گزشتہ دو دہائیوں سے دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔"

ان کا کہنا تھا، "ثبوت بتاتا ہے کہ امریکہ ک ساتھ [امن] معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود القاعدہ کے ساتھ طالبان کے تعلقات اتنے ہی مستحکم رہے ہیں جتنے یہ ماضی کے برسوں میں تھے۔"

انہوں نے کہا، "طالبان امن معاہدے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔۔۔ اور پھر اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو کہ بدقسمتی سے امن نہیں بلکہ امریکی افواج کا انخلاء اور اس کے نتیجے میں افغان حکومت کا سقوط ہے تاکہ وہ اپنے علاقائی حامیوں کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آ سکیں۔"

کابل سے وولسائی جرگہ کے ایک سابق رکن، داؤد کلکانی نے اس بات سے اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا، "امریکہ اور اطلبان کے درمیان کیے گئے معاہدے کی بنیاد پر، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے تعلقات منقطع کرنا طالبان کا فرض ہے۔ گروپ نے وعدہ کیا ہے کہ یہ کسی بیرونی دہشت گرد گروہ کو افغانستان میں کام کرنے یا افغان سرزمین سے دیگر ممالک پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔"

کابل سے وولسائی جرگہ کے ایک سابق رکن، داؤد کلکانی نے اس بات سے اتفاق کیا۔

ان کا کہنا تھا، "القاعدہ کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا ظاہر کرتا ہے کہ طالبان ایسے کسی معاہدے کے ساتھ مخلص نہیں ہیں جو افغانستان میں امن اور استحکام پر منتج ہو گا۔"

'امن کی طرف کبھی واپسی نہیں'

پشاور کے مقامی سینیئر دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا، "طالبان جنگجو کبھی بھی امن کی طرف واپس نہیں جائیں گے کیونکہ دہشت گردی سے وہ پھلتے پھولتے ہیں اور اپنی غیر قانونی حکومت قائم کرنے کے لیے بم اور خود کش حملوں کے ذریعے عام شہریوں کو خوفزدہ کرنے کے عادی ہیں۔"

انہوں نے کہا، طالبان کی ساخت -- ایک مرکزی رہنماء، قیادت کونسل (کوئٹہ شوریٰ)، عدلیہ اور کئی طرح کے انتظامی کمیشن اور دیگر انتظامی حصوں -- کا مطلب ہے کہ امریکی فوج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد جنگجو ایک بھرپور مار دھاڑ شروع کرنے اور منتخب افغان حکومت کا تختہ گرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

شاہ نے کہا کہ رپورٹ طالبان کے صوبائی فرضی گورنروں، تمام کے تمام 34 صوبوں کے لیے ان کے نائبین، فرضی ضلعی گورنروں، اور ہر ضلع میں گروپ کمانڈروں اور اسکواڈ لیڈروں کے متعلق بتاتی ہے، جو کہ سب کے سب وہ اختیارات واپس حاصل کرنے کے موقع کے انتظار میں ہیں جس سے وہ سنہ 2001 میں محروم ہو گئے تھے۔

اسلام آباد کے مقامی سینیئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا، "حتیٰ کے واشنگٹن کے ساتھ طالبان کے امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھی، ہم نے افغانستان میں تشدد میں اضافہ دیکھا ہے۔"

انہوں نے کہا، "طالبان ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے دور رہے ہیں؛ تاہم، مقامی طالبان جنگجوؤں کے بغیر دہشت گردی کی یہ کارروائیاں ممکن نہیں ہیں۔ دیگر گروہ اس قابل نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس بہت قلیل تعداد میں جنگجو ہیں۔"

مسعود کا کہنا تھا کہ تشدد کو ترک کرنے کے وعدے کا احترام کرنے کی بجائے، طالبان غالباً اپنی جنگی قوت کو تقویت دینے کے لیے اپنے قیدی رہا کروانے کے لیے معاہدے کو استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک طالبان نے 300 افغان فوجیوں کو رہا کیا ہے جن کی اندازاً کُل تعداد 1،000 ہے جنہیں انہوں نے اپنی حکمتِ عملی کے جزو کے طور پر قیدی بنایا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا، "دہشت گردی کرنے اور حکومتوں کے ساتھ معاہدے کرنے کے دو دہائیوں کے تجربے کے ساتھ طالبان جنگجو ایک جہاندیدہ ادارہ بن چکے ہیں اور انہیں بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے معاہدوں کو اپنے فائدے کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے۔"

پشاور کے مقامی ایک دفاعی تجزیہ کار، خادم حسین نے کہا کہ دہشت گرد گروہوں کے مابین اختلافات کی خبریں آئی ہیں، مگر ایسی عداوتیں افغان حکومت کے فائدے کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا، "مخصوص علاقوں میں، [دہشت گرد] ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور اقتدار اور جگہ حاصل کرنے کے لیے آپسی جنگوں میں ملوث ہوتے ہیں۔"

حسین نے کہا، "جب ایک مخصوص گروہ کسی دوسرے گروہ کے آدمیوں سے ہار جاتا ہے، تو اس کے ارکان فاتح گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "وقتی طور پر، ان میں سے ایک کمزور ہو جاتا ہے، مگر اس کا مطلب دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہے کیونکہ شکست خوردہ گروہ کے ارکان فاتح گروہ میں چلے جاتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "طریقۂ واردات وہی رہتا ہے: سارے کے سارے تشدد کے ذریعے عوام کو شکست دینا چاہتے ہیں۔

[کابل سے سلیمان نے اس رپورٹ میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 10

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ستا ٹھکانہ بہ ھم د امریکایانوں سرہ پہ دوزخ کی وی,انشاءاللہ امریکہ کے غلامموں اللہ سے ڈرو. لعنت 9000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000000 بار

جواب

Yay report sararaser jhot aur badeyanati par mabni report hay jo k puraman aur apnay mulk ka defa karnay walay mujahedeen k helaf bara profeganda hayy

جواب

بحیثیت ایک عام آدمی، میں پہلے دن سے ہی تسلیم کرچکا تھا کہ امریکہ افغانستان سے نہیں نکلے گا۔ طالبان اتنے طاقتور نہ تھے اور نہ ہیں۔ کیونکہ اینٹی امریکہ قوتیں مثلاً پاکستان، ایران، روس چین وغیرہ بھر پور سپورٹ کرتے ہیں طالبان کو۔ لہذا مرتے رہیں طبعی موت سے یا دہشتگردانہ کارروائیوں سے۔ بس ہمارا کام ہے اچھے تجزیہ کرنا۔

جواب

مجھے نہیں لگتا کہ امریکہ کسی صورت افغانستان چھوڑے گا۔امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان،چین اور پورے ایشیا کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔

جواب

Report jhooti he

جواب

یہ رپورٹ جھوٹی لگتی ہے۔واللہ اعلم

جواب

افغان حکومت امریکیوں کو روکنے کے لیے افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء کے حق میں نہیں۔ اس قسم کے مکالے اب انٹرنیٹ پر عام ہوں گے۔ لیکن افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے کسی کو ایسے مکالوں پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔

جواب

امریکہ افغانستان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں 1992 عراق شام لیبیا یمن مصر افغانستان پاکستان ان سب اسلامی ممالک میں داعش آئی ایس ایس بلیک واٹر امریکہ کے فارمولے کے تحت دھشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہیں امریکہ فلسطین میں یہودیوں کی حمایت کرتے ہیں جنوبی سوڈان سچے نکورنو کاراباخ مسلم ممالک کے تھے اب عیسائی مذہب کے صوبے قرار دیے گئے امریکہ کے حمایت کی وجہ سے

جواب

Bakwas band kro

جواب

بکواس آپ کرتے ہیں اچھا اخلاق انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے

جواب