کابل -- افغانستان کے سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے کچھ دھڑے جو کہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدے سے خوش نہیں ہیں، نے دولت اسلامیہ (داعش) کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے تاکہ حالیہ مہینوں میں وہ نقصان دہ حملے کر سکیں۔
لیفٹینٹ جنرل احمد ضیاء سراج نے 18 مئی کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ "ہماری خفیہ اطلاعات اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ طالبان اور غیر ملکی دہشت گرد گروہوں کے درمیان تعلقات ماضی کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں"۔
سراج نے داعش کے لیے عربی زبان کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ "جنہیں حال ہی میں گرفتار کیا گیا ہے اور ہم نے جو دستاویزات اکٹھی کی ہیں وہ ظاہر کرتی ہیں کہ حالیہ واقعات کے منتظمین کے حقانی نیٹ ورک اور اس کے ساتھ ہی داعش سے بھی تعلقات ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "مثال کے طور پر، این ڈی ایس (قومی نظامت برائے سلامتی) اور وزارتِ داخلہ کی فورسز کی طرف سے، کابل میں داعش-حقانی سیل کے خلاف، انجام دیے جانے والے مشترکہ آپریشن میں، ایک شخص جس نے ہماری فورسز کے خلاف شدید جنگ کی اور مارا گیا، حقانی نیٹ ورک کا رکن تھا اور وہ داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ قیام پذیر تھا"۔
افغان سیکورٹی فورسز نے 2 مئی کی رات کو، شکردرہ ڈسٹرکٹ میں داعش-حقانی نیٹ ورک کی ایک پناہ گاہ پر حملہ کیا جس میں داعش اور حقانی نیٹ ورک کے پانچ ارکان ہلاک ہو گئے اور دیگر آٹھ کو گرفتار کر لیا گیا۔
قائم مقام وزیرِ داخلہ مسعود اندرابی نے اسی پریس کانفرنس میں کہا کہ سیکورٹی فورسز کی طرف سے ہونے والی حالیہ گرفتاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اور داعش کے درمیان کچھ حلقوں میں تعاون موجود ہے۔
افغان سیکورٹی فورسز نے، کئی آپریشنز کے ذریعے، داعش-حقانی نیٹ ورک کے بہت سے مشترکہ سیلوں کو دریافت کیا ہے اور بہت سے ارکان کو ہلاک کیا ہے۔
این ڈی ایس سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر، یہ افراد مارچ میں ہزارہ نسل کے سیاست دان مرحوم عبدل علی مزاری کے عرس کی تقریب پر کیے جانے والے ہلاکت خیز حملے میں اور اس کے ساتھ ہی اسی ماہ کابل میں صدر اشرف غنی کی حلف لینے کی تقریب پر کیے جانے والے مارٹر حملے میں ملوث تھے۔
افغانستان کے حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ سالوں میں، داعش کو افغانستان کے میدانِ جنگ میں شدید دھچکا لگا ہے اور اس کے بہت سے راہنما ہلاک ہو گئے ہیں۔
اندرابی نے حال ہی میں کابل میں زچہ و بچہ وارڈ اور ننگرہار میں ایک جنازے پر کیے جونے والے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میدانِ جنگ میں بڑے پیمانے پر شکست کے باعث، داعش اور حقانی نیٹ ورک نے اب مل کر شہری مقامات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
طالبان کے اندرونی جھگڑے
بہت سے تجزیہ نگاروں اور افغان قانون سازوں کا کہنا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد امریکہ اور عسکریت پسند گروہ کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کیے جانے کے خلاف ہے۔
غور صوبہ کی نمائںدگی کرنے والے ولاسی جرگہ کے ایک رکن گل زمان نایاب نے کہا کہ طالبان مختلف گروہوں میں منقسم ہیں، ان میں سے کچھ امن معاہدہ کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک سے ہدایات لے رہے ہیں۔
نایاب نے عید الفطر کے دوران ہونے والی جنگ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "طالبان نے کبھی بھی ایک متحدہ کمانڈ کے تحت کام نہیں کیا ہے۔ مثال کے طور پر، طالبان کی قیادت کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کرنے کے باوجود طالبان نے غور اور دوسرے علاقوں میں سیکورٹی کی چوکیوں پر حملے کیے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "میری رائے میں، ایسے کچھ طالبان ہوں گے جو ملک میں امن چاہتے ہیں۔ مگر بہت سے دوسرے ایسے ہیں جنہیں غیر ملکیوں اور ہمسایہ ممالک کی طرف سے اسلحہ اور سرمایہ مل رہا ہے اور وہ جنگ کو جاری رکھیں گے"۔
نایاب نے کہا کہ "طالبان کے ایسے ارکان جنہیں ہمسایہ ممالک سے سرمایہ مل رہا ہے امن کے عمل کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو داعش اور القاعدہ میں تبدیل کر رہے ہیں"۔
کابل سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ کار نے کہا کہ طالبان کے اندر زیادہ انتہاپسند دھڑے، طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن کے معاہدے سے خوش نہیں ہیں۔
انہوں نے اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہ انتہاپسند اور دیگر کچھ گروہ جنہیں ایران اور روس کی طرف سے سرمایہ ملتا ہے امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہا کہ "طالبان مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں"۔
بہروز نے کہا کہ "طالبان کا بڑا حصہ داعش کا مخالف ہے مگر اس کی انتہائی انتہاپسندانہ فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے، حقانی نیٹ ورک نے داعش کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ طالبان کے دوسرے حلقوں کے برعکس، یہ امن کے لیے پرامید نہیں ہے"۔
کابل سے تعلق رکھنے والے سابقہ فوجی افسر جنرل (ریٹائرڈ) محمد طاہر یارغل نے کہا کہ امن کے عمل کے زیادہ سنجیدہ ہو جانے کے ساتھ، طالبان کے اندر کچھ حلقے ہو سکتا ہے کہ دوسرے دہشت گرد گروہوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔
انہوں نے کہا کہ "بہت سے انتہاپسندانہ حلقے اور گروہ جن کے غیر ملکیوں سے رابطے ہیں، قدرتی طور پر اس کی مخالفت کریں گے۔ کچھ چھوٹے گروہ ہو سکتا ہے کہ دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعاون کرنا شروع کر دیں"۔
قندھار صوبہ کی نمائندگی کرنے والے ولاسی جرگہ کے ایک رکن سید احمد سیلاب نے کہا کہ "اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایسے افراد اور گروہ جو 20 سال سے ہتھیاروں کے ساتھ رہ رہے ہیں اور جنگ کے عادی ہو چکے ہیں، ایسی زندگی کو جاری رکھنے کے لیے کسی بھی گروہ میں شامل ہو جائیں گے۔ وہ صرف اپنا نام بدل لیں گے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "تاہم، حالیہ سرگرمیاں اتنی حد تک نہیں ہیں کہ ان سے نظام یا حکومت کو خطرہ ہو اور نہ ہی یہ گروہ (داعش اور حقانی نیٹ ورک) امن کے عمل کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں"۔
سیلاب نے کہا کہ "ہر گزرتے دن کے ساتھ، امن کے لیے امیدیں بڑھتی جا رہی ہیں اور امن کی طرف مثبت قدم بڑھ رہے ہیں"۔